دیوار پہ دستک ۔ عمران خان کا اندازِ گفتگو ۔ منصور آفاق (روزنامہ جنگ)

منصور آفاق

محفلین
دیوار پہ دستک
عمران خان کااندازِ گفتگو
منصور آفاق
گذشتہ روز کے جنگ میں عمران خان کے انداز گفتگو کے خلاف رکن پنجاب اسمبلی ڈاکٹرسعید الہی کی تحریرعجیب و غریب حدتک’’فنکارانہ ‘‘تھی ۔ایسا لگتا تھا جیسے موسیٰ کے پردے میں خدا بول رہا ہے ۔’’ ہیں کواکب کچھ، نظر آتے تھے کچھ ۔‘‘بہر حال میں یہ تو نہیں کہتا کہ ’’دیتا تھا دھوکہ یہ بازی گر کھلا‘‘میں انہیں اتنی اچھی تحریر پرمبارک باد پیش کرتا ہوں ۔اس سلسلے میں میری ان سے درج ذیل گزارشات ہیں
1۔آپ نے اپنی تحریر کے آغازمیں حفیظ اللہ خان نیازی کاذکر عمران خان کے برادرِ نسبتی کے طورپر کیا اور اپنے طور پرحفیظ اللہ خان نیازی کی ذاتی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ۔ جب کہ یہ بات حقائق کے خلاف ہے وہ صرف میانوالی کی نہیں پاکستان کی ممتاز شخصیت ہیںجن کا ایک شاندار ماضی ہے اورعمران خان کے برادرِ نسبتی ہی نہیں ان کے چچا زادبھائی بھی ہیں ۔ میانوالی سابق ایم این اے اور نون لیگ کے سابق نائب صدر انعام اللہ نیازی کے بڑ ے بھائی ہیں بھکر سے رکن پنجاب اسمبلی نجیب اللہ خان نیازی بھی ان کے چھوٹے بھائی ہیں جنہوں نے شہباز شریف کو اپنے علاقہ سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب کرایا تھا۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہو بے داغ ، ضرب ہو کاری
2۔آپ نے عمران خان کے نام کے ساتھ نیازی لاحقہ لگا کریہ بتانے کی کوشش کی کہ عمران خان کا تعلق صوبہ سرحد کے پٹھانوں سے نہیں وہ میانوالی کے نیازی پٹھان ہیں آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ افغانستان اورپاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی بہت نیازی قبائل آباد ہیں، میانوالی کے نیازی بھی وہیں سے ہجرت کرکے میانوالی آباد ہوئے ہیں اور اسی نیازی قبیلے میں مولانا عبدالستار خان نیازی اور ڈاکٹر شیر افگن جیسے سیاست دان بھی پیدا ہوئے جن کے دامن پر کم ازکم کرپشن کا کوئی داغ نہیں
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت
3۔ آپ نے عمران خان کی گفتگو کو’’تو تڑاک ‘‘ قرار دیا اور اس بیان پرکہ’’ منافق کو منافق اور غنڈا نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے ‘‘ تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہا کہ عمران خان اتنے بھی سادہ نہیں کہ ان الفاظ کے متبادل شائستہ الفاظ نہ جانتے ہوں۔چلئے شکر ہے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ عمران خان جن لوگوںمنافق اور غنڈے قرار دے رہے ہیں وہ واقعی منافق اور غنڈے ہیں ۔اب کے ان کے شائستہ متبادل تلاش کرناکسی مسلمان کا کام نہیں اسلام کے مطابق برائی کو سب سے پہلے ہاتھ سے روکا جائے پھر زبان سے اور پھر دل سے براجانا جائے اور جو شیطان ہے اسے مردود اور لعین کہناتو سنتِ قرآنی ہے ۔سچائی کو بیان کرتے وقت اس پر جھوٹ کے رنگین غلاف چڑھانا از خود منافقت ہے اور عمران خان کا شمار تو ان لیڈروںمیں ہوتا ہے جن کے حوالے شکیب جلالی نے کہا تھا
حق بات آکے رک سی گئی تھی کبھی شکیب
چھالے پڑے ہوئے ہیں ابھی تک زبان پر
4۔آپ نے میرے ہمدمِ دیرنیہ اور اردو زبان کے عظیم مزاح نگار عطاالحق قاسمی کی یہ بات بھی بالکل درست کوڈ کی ہے کہ کسی بھی شخص پر سیاسی مخالفت کی وجہ چوری کی تہمت لگانا اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے ۔مگر یہ حرکت تو ہمیشہ عمران خا ن کے خلاف ہوئی ہے جہاں تک شریف برادران پر اس طرح کے الزام کا تعلق ہے تو اس کیلئے اس وقت اخبار میں کچھ لکھنے کی بجائے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینے کی ضرورت ہے جہاں ابھی ابھی اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا گیا ہے ۔۔
بے شک میانِ حرف سے شمشیر کھینچ دوست
پہلے مگر یہ آنکھ کا شہتیرکھینچ دوست
5۔آپ نے ایک امریکی صدارتی امیدوار’’گیری ہارٹ‘‘کے مشہور ماڈل ’’ڈونا رائس ‘‘ کے ساتھ سیکنڈل کا ذکر کیا جس کی وجہ سے وہ الیکشن ہار گیا تھاآپ نے برطانوی وزیرتجارت پیٹر مینڈیسن ،برطانوی وزیر داخلہ ڈیوڈبلیکنٹ،اور بے شمار دوسرے مغربی وزیروں کا ذکر نہیں سناجنہوں نے کرپشن کے کسی ذرا سے کیس میں نام آنے پر فوراً اپنی وزارتیں چھوڑ دیں مگر سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود شہباز شریف نے وزارت اعلی نہیں چھوڑی۔ آپ خود سوچئیے کہ جب تک ایک شخص پنجاب کا وزیر اعلی ہے اس سے کسی جرم کی کیسے غیر جانبدانہ تفتیش ہوسکتی ہے۔
ساری پوشاک خون سے تر تھی دور سے بھی دکھائی دیتی تھی
پھر بھی حاکم کی بے گناہی کی پوری بستی گواہی دیتی تھی
6۔آپ نے جس شائستگی کے سبق دیا ہے اس پر قربان ہونے کو جی چاہ رہا ہے آپ نے نواز شریف کی طرف سے عمران خان کو کہا ہے ’’آواز سگاں کم نہ کند رزقِ گدارا ‘‘﴿کتوں کی آواز سے مانگتے والے فقیر یعنی بھکاری کا رزق کم نہیں ہوجاتا ﴾آپ نے عمران خان کی آواز کو کتوں کی آواز کہاجناب والا! یہ شائستگی ہے یاگالی،حیرت ہے کہ عمران خان کو گالیاں نکال کر آپ کہتے ہیں کہ تحریک ِ انصاف کے نوجوان آپ کی طرف غصے بھری آنکھ سے کیوں دیکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے آپ کی اس گالی کے بعد توان کو حق ہے کہ جو چاہے ان کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔اور مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ آپ نے ارب نہیں کھرب پتی نواز شریف کوبھکاری قرار دیا ہے ۔ہاں شاید اسلئے کہ وہ ووٹ کی بھیک مانگتے ہیں ۔یہ ووٹ کی خیرات بھی عجیب چیز ہے ۔دینے والے کو علم نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی کو کتنی قیمتی چیزدے رہا ہے مگر لینے والے جانتے ہوتے ہیں کہ اس ووٹ کی بھیک کے غلط استعمال سے وہ ارب پتی نہیں تو کروڑپتی ضرور ہوسکتا ہے۔ہاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پاکستان کیلئے بھکاری بننے کا بھی اعلان کیا تھا اور قرض مکائو ملک سنوارو نام کی تحریک شروع کی تھی جس میں اربوں ڈالر جمع ہوئے تھے میری چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے درخواست ہے کہ ذرا ان اکاونٹس کی بھی تحقیقات کرائیں کہ وہ رقم کہاں گئی اور اگر کسی اور مد میں خرچ کر دی گئی ہے تو کیا قانونی طور پر یہ عمل درست ہے ۔کیایہ ان لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کے ساتھ دھوکہ نہیں جنہوں نے ملک کا قرض اتارنے کیلئے جو کچھ ممکن تھادیاآخر میں ڈاکٹرسعید الہی کے نام حضرت غالب کا ایک شعر
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
بروز جمعہ بتاریخ چھبیس نومببر ۔ روزنامہ جنگ لندن
 
Top