دِلّی میں اردو کا جشن

F@rzana

محفلین
دِلّی میں موسم سرما کی سرمئی شام میں شعر و ادب کی محفل نے وہ سماں باندھا کہ لوگوں کی زبان پر مجاز لکھنوی کا یہ شعر از خود آگیا
اس محفل کیف ومستی میں اس انجمن عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے ہی رہے ہم پی بھی گئے چھلکا بھی گئے

یہ بزم شعروسخن ’جشن بہار‘ کی پانچویں پیشکش تھی جس میں اردو کے تعلق سےنہ صرف ہندوپاک کے شعراء نے شرکت کی بلکہ چین اور سعودی عرب کے چینی اور عربی نژاد شعراء کی بھی شمولیت رہی۔

چین کے اردو شاعر ژانگ شی ژوآن جنہوں نے اپنا اردو نام انتخاب عالم رکھا ہے اپنی اردو شاعری کے بارے میں ایک شعر میں کہا:

شاعری کرتے ہیں عالم ہم زبان یار میں
ہے زبان یار جب اردو زباں ہم کیا کریں

مشاعرے کا آغاز دِلّی کے شاعر ماجد دیوبندی نے اپنے اس شعر سے کیا:

نفرتوں کی فضاؤں میں رہ کر، پیار کا آسمان رکھتے ہیں
جس کے نعروں سے پا‏‎‎ئی آزادی، ہم وہ اردو زبان رکھتے ہیں

عمر سلیم محمد الادروس
ایک عجمی زبان میں شعر کہنے والے عرب عمر سلیم محمد الادروس نے ایک قطعے میں اردو کو اس طرح بیان کیا:

خوشبو کی ہواؤں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی
کرنوں کی گھٹاؤں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی
اس دھوپ کی چھا‏ؤں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی
اہل اردو کے گاؤں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی

مسقط سے تشریف لا‎ئے شاعر ہمایوں ظفر زیدی نے شاعروں پر یہ برجستہ شعر کہا:

خبر سناتا رہوں گا نئے زمانے کی
مرے مزاج سے پیغمبری نہ جائےگی

اردو کا مشاعرہ ہو اور حالات حاضرہ پر تبصرہ نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ اسی لیے یہاں ہندوپاک کے تعلقات پر ڈھیر سارے اشعار سامنے آئے۔ ملاحظہ ہوں

پاکستان کے ناصر سید نے کہا:
بہت نفرت کی فصلیں کاٹ لیں برباد ہو بیٹھے
محبت کا دلوں میں بیج اب بونا ضروری ہے

وسیم بریلوی نے کہا:
سب نے ملائے ہاتھ یہاں تیرگی کے ساتھ
کتنا بڑا مذاق ہوا روشنی کے ساتھ
شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ
کیجئے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ

کراچی سے زہرہ نگاہ نے کہا:
یہ شہر کیسے طلسمات کے نقاب میں ہے
بڑے خلوص سے ہر شخص اک عذاب میں ہے

حالات حاضرہ کے باب میں امریکہ، صدام، سونامی، لندن بم دھماکہ، دِلّی بم دھماکہ اور ہندو مسلم رشتوں پر بھی اشعار سامنے آئے اور اگر کوئی بڑا انسانی المیہ بیان ہونے سے رہ گیا تو وہ تھا کشمیر میں آیا زلزلہ۔

مقبول فدا حسین
کئی شاعروں نے اپنے اشعار مہمان خصوصی عالمی شہرت یافتہ ایم ایف حسین (مقبول فدا حسین) کی نذر کیے:

تصویر میں اک رنگ ابھی چھوٹ رہا ہے
شوخی ابھی رخسار پہ پوری نہیں اتری

دھماکوں کے تعلق سے کہا گیا:
مجھے بے دست وپا کرکے بھی خوف اس کا نہیں جاتا
کہیں بھی حادثہ گزرے وہ مجھ سے جوڑ دیتا ہے

زہرہ نگاہ سے ان کی نظم ’گل بادشاہ‘ کی فرما‏ئش ہو‏ئی۔ یہ نظم افغانستان کے ایک تیرہ سالہ ننھے مجاہد کی داستان بیان کرتی ہے۔

وہ اشعار ملاحظہ فرما‏ئیے جس پر سامعین نے خوب داد دی:

جسم کی حرارت بھی سانس بھر کا میلہ ہے
آدمی میں دنیا ہے آدمی اکیلا ہے
(افضل شاہد، لاہور)

موالیوں کو نہ دیکھا کرو حقارت سے
نہ جانے کون سا غنڈہ وزیر ہو جائے
(منور رعنا، کولکتا)

نہ جانے اگلی گھڑی کیا سے کیا میں بن جاؤں
ابھی تو چاک پہ ہوں دست کوزہ گر میں ہوں
(ناصر سید، پاکستان)

حکم ہے دل کا آج سے کوئی خواب نہ دیکھے شام کے بعد
چاند اور تارے دن میں نکلیں سورج نکلے شام کے بعد
(آغاسروش، حیدرآباد)

شعر اچھا نہ کہوں تو یہ مری بدسخنی
شعر اچھا ہو تو وہ میر پہ رکھ دیتا ہے
(ریحانہ روحی، کراچی پاکستان)

بشر بس غم منانے کے لیے دنیا میں آتا ہے
دم آمد پہ روتا ہے دم رخصت رلاتا ہے
(ژانگ شی ژوآن، بیجنگ، چین)
 
Top