اہل مغرب کا ہمیشہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک ایجنڈا رہا ہے ۔ یہ ایجنڈا سیاسی بھی ہے اور مذہبی بھی ، تہذیبی بھی ہے اور ثقافتی بھی۔ خصوصاً اسلام کو بحیثیت عالمگیر دعوت، سیاسی قوت و بالادستی اور مذہبی آزادی کے لحاظ سے اتنا کمزور کرنا چاہتے ہیں کہ محدود رقبہ، کسی خاص نسل اور قومیتوں کے دائرہ کے اندر ہی نافذ اور کارفرما رہے لیکن عالمی پیمانے پر اس کا وجود اور نفوذ ختم ہو جائے۔ ایجنڈا کی تکمیل کے لیے دیگر منصوبہ بندیوں کے علاوہ اصطلاحات کی تراش خراش بھی جاری ہے۔ وہ اپنے ہر کام کے لیے انتہائی حسین اور دلکش عنوانات تراشتے ہیں ان عنوانات کے مندرجات جتنے بھی مکروہ اور ناقابل قبول ہوں، ان کا عنوان ہمیشہ قابل قبول اور جاذب نظر ہوتا ہے۔ یہ اصطلاحات وہ خوشنما پردے ہیں جن کا مقصد اپنی سفاکی، درندگی اورخونخواری کو چھپانا اور اچھے کام کی اچھائی کو برا بنا کر پیش کرنا ہے۔ آج کی مغربی تہذیب نے یہی کام کیا ہے کہ ہر بد نما سے بد نما عمل کے لیے خوبصورت اصطلاحات تراش لیے ہیں اور ہر اعلیٰ سے اعلیٰ اور برتر سے برتر نیکی کے لیے مضحکہ خیز اور بد نما اصطلاحات گھڑ لیے ہیں۔

چنانچہ مغربی ممالک میں موجود معاشرتی افراتفری، خاندان کے ادارے کی شکست و ریخت ، عام بے حیائی، مرد و زن کے درمیان تعلقات میں فسادات، ان تمام خرابیوں کا نام وہاں ’’مساوات‘‘(Correspondence) رکھا گیا ہے جبکہ ہر وہ مسلمان جو قرآن پاک کو حقیقی مفہوم میں اللہ کا کلام سمجھتا ہے، جو قرآن کو کتاب ہدایت اور زندگی کا دستور العمل سمجھتا ہے، جو اس پر عمل کرنے کی خواہش رکھتا ہے حتٰی کہ ایک بے عمل مسلمان جو قرآن کریم کو کتاب الہٰی مانتا ہو چاہے عملاً نفاذ کی کوشش کرتا ہے یا نہیں ’’بنیاد پرست‘‘(Fundamentalist) اور ’’شدت پسند‘‘(Extremist) کا ٹھاپہ لگا کر مسلسل حملوں کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔اہل مغرب کی طرف سے الزام تراشی کوئی نئی بات تو نہیں لیکن اکثر اوقات اصطلاحات سے ناواقفیت اور دین سے دوری کی بنیاد پر بعض مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے دئیے گئے اوصاف کا اعتراف کرنے سے کتراتے اور انکار کرتے ہیں۔(Fundamentalist) اور (Extremist) انگریزی زبان کی دو اصطلاحیں ہیں۔ ہر اُس شخص کو Fundamentalist کہا جاتا ہے جو کسی بھی چیز کے بنیادی اصول کو مانتا ہو۔ ایک کامیاب ڈاکٹر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شعبہ سے متعلق تمام بنیادی اصول جانتا ہوتبھی ایک کامیاب ڈاکٹر بن سکتا ہے جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کی جان بچاتا ہے ۔ ایک انجینئر کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے شعبہ سے متعلق تمام بنیادی معلومات رکھتا ہو تبھی جا کر وہ عملی زندگی میں کامیاب ہو سکتا ہے ۔جب اہل مغرب کوکسی ڈاکٹر اور انجینئر سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ اِن کو معاشرے کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں تو ایک مسلمان جو اسلام کے بنیادی ارکان پر عمل پیرا ہے جو تمام دنیا کے لیے امن کا پیغام ہے اُس کو کیوں کر نشانہ تنقید بنایا جا رہا ہے۔انگریزی کی Webster Dictionary کے مطابق یہ اصطلاح بیسویں صدی کے اوائل میں اُس عیسائی گروپ کے لیے استعمال کی گئی جو ’’بائبل‘‘ کے ہر لفظ کو ’’God‘‘ کی طرف سے تصور کرتے تھے۔امریکہ کی اکسفورڈ ڈکشنری میں اس اصطلاح کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے :[Fundamentalist is a person who strictly adheres to the ancient teaching of doctrine of any religion] جبکہ نئے ورژن میں ’’Specially Islam‘‘ کے لفظ کا اضافہ کر دیا گیا ہے جو اِن کی اسلام دشمنی کی عکاسی کرتی ہے۔اس لحاظ سے ہر مسلمان کو ’’بنیاد پرست‘‘ ہونے پر فخر کرنا چاہیے بلکہ یوں کہنا مناسب ہو گا کہ صرف ’’بنیاد پرست‘‘ مسلمان ہی سچا اور پکا مسلمان ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ہر مسلمان کے لیے اسلام کے بنیادی اصول یعنی ارکان اسلام کوماننا اور اس پر عمل کرنا لازمی ہے ۔ ارکان اسلام میں سے کوئی بھی رکن انسانیت کے خلاف نہیں اور اگر کسی غیر مسلم یا ہمارے کسی دانشور کو ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے الرجی ہے یا یہ اشکال ہے کہ یہ انسانیت کے منافی ہے تو یہ اُن کی بھول، نا سمجھی، کم علمی اور غلط فہمی ہے ۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے احکامات اور اس کی حکمتوں، میدان جنگ کے اصول و قواعد کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس اشکال کا تدارک ممکن ہے۔

دوسری اصطلاح Extremist ہے یعنی ’’انتہا پسندی‘‘ جسے پہلی بار تقریباً 1840 عیسوی میں استعمال کیا گیا۔ Webster Dictionary کے مطابق اس کا مطلب کچھ یوں ہے :’’ The holding of extreme political or religious views ‘‘ جبکہ امریکہ کی اکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اس کی وضاحت کچھ یوں کی گئی ہے : ’’ A person who holds extreme political or religious views ‘‘۔انتہا پسندی کی اصطلاح اپنی ذات میں کوئی بری چیز نہیں ہے اسے بد نما بنا کر ’’اسلام‘‘ پرچسپاں کر دیا گیا ہے ۔اسلام امن و آشتی، عدل و انصاف ، دیانت داری و مہربانی کے حوالے سے ’’انتہا پسندی ‘‘ کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ امن کو ’’انتہائی حد تک‘‘ پسند کرنے والا ہو، عدل و انصاف، کو ’’انتہائی حد تک‘‘پسند کرنے والا ہو،’’انتہائی حد تک‘‘ مہربان ہو،’’انتہائی حد تک‘‘ دیانت دار ہو ،’’انتہائی حد تک‘‘ فرمانبردار ہو ،فرض شناسی ’’انتہائی حد تک‘‘ نبھاتا ہو ، ’’انتہائی حد تک‘‘ ’’وومن رائٹس‘‘ کا خیال رکھتا ہو، ’’انتہائی حد تک‘‘ ’’ہیومن رائٹس‘‘ کا علمبردار ہو وغیرہ وغیرہ ۔ اس لحاظ سے اگر ہمیں ’’شدت پسند‘‘ اور ’’انتہا پسند‘‘ کہا جائے تو ہمیں انکار کرنے یا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہی قرآن کی تعلیم ہے : ’’یاایھا الذین امنوا ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ پورے پورے یعنی انتہائی حد تک اسلام میں داخل ہو جاؤ ، یہی اسلام کا بھی تقاضا ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کو بھی مطلوب ہے۔
 
Top