میر دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو ۔ میر تقی میر

فرخ منظور

لائبریرین
دل کھِلتا ہے واں صحبتِ رندانہ جہاں ہو
میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو

ان بکھرے ہوئے بالوں سے خاطر ہے پریشاں
وے جمع ہوئے پر ہیں بلا شانہ جہاں ہو

رہنے سے مرے پاس کے بدنام ہوئے تم
اب جاکے رہو واں کہیں رسوا نہ جہاں ہو

کچھ حال کہیں اپنا نہیں بے خودی تجھ کو
غش آتا ہے لوگوں کو یہ افسانہ جہاں ہو

کیوں جلتا ہے ہر جمع میں مانند دیے کے
اس بزم میں جا شمع سا پروانہ جہاں ہو

ان اجڑی ہوئی بستیوں میں دل نہیں لگتا
ہے جی میں وہیں جا بسیں ویرانہ جہاں ہو

وحشت ہے خردمندوں کی صحبت سے مجھے میرؔ
اب جا رہوں گا واں کوئی دیوانہ جہاں ہو

(میر تقی میرؔ)
 
Top