دریچے قصرِ تمنا کے پھر کھلے تو سہی ::: حسن نعیم

فرقان احمد

محفلین
دریچے قصرِ تمنا کے پھر کھُلے تو سہی
ملے وہ آخرِ شب میں، مگر ملے تو سہی

اُدھر عدم کا یہ اصرار ۔۔۔ بس چلے آؤ!
اِدھر وجود کو ضد، خاک میں ملے تو سہی

جلیں گے رشک سے وہ بھی جو روشنی میں نہیں
چراغِ لالہ مرے دشت میں جلے تو سہی ۔۔۔!

گئی کہاں ہے ابھی چشم و دل کی ویرانی!
ترے قدم سے پسِ خواب، گُل کھلے تو سہی

چھڑا کے قید سے پریوں کو لاؤں کیسے نعیمؔ
اُڑیں پہاڑ تو ہر سو، زمیں ہلے تو سہی !!!
 
Top