محمد وارث

لائبریرین
نیست در حلقۂ مستانِ تو بیگانہ کسے
ہمہ یارند دریں دائرہ، اغیار کجاست


بابا فغانی شیرازی

تیرے مستوں کے حلقے میں کوئی بھی ایک دوسرے سے بیگانہ نہیں ہے، اِس دائرے میں سبھی دوست ہیں، اغیار کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
شده از ناوکِ آهم دلِ گردون مجروح
رنگِ خون است، شفق نیست که بر گردون است
(محمد فضولی بغدادی)

میری آہ کے تیر سے آسمان کا دل زخمی ہو گیا ہے؛ یہ جو آسمان پر (سرخی) ہے وہ شفق نہیں، بلکہ خون کا رنگ ہے۔

ماجراهایی که با من زیرِ باران داشتی
شعر اگر می‌شد قریبِ پنج دیوان داشتم
(کاظم بهمنی)

برستی بارش کے نیچے میرے ہمراہ جو تمہاری سرگذشتیں رہی تھیں اگر وہ شعر بن جاتیں تو میں تقریباً پانچ دیوانوں کا حامل ہوتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
چشمِ حسن گر نریخت بر سرِ کوئے تو خوں
بر در و دیوارِ تو نقش و نگار از کجاست؟


امیر حسن دہلوی

حسن کی آنکھوں نے اگر تیرے کوچے میں خون نہیں بہایا تو پھر تیرے در و دیوار پر یہ سارے نقش و نگار کہاں سے آئے ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
مرگ در قاموسِ ما از بی‌وفایی بهتر است
در قفس با دوست مردن از رهایی بهتر است

(فاضل نظری)
ہماری لغت میں موت بے وفائی سے بہتر ہے؛ قفس میں دوست کے ساتھ مرنا رہائی سے بہتر ہے۔

خوش آن زمان که نکویان کنند غارتِ شهر
مرا تو گیری و گویی که این اسیرِ من است

(شهیدی قمی)
وہ وقت کیا ہی خوب ہو کہ جب دلبرانِ زیبارُو شہر کو تاراج کر رہے ہوں، تم مجھے پکڑ لو اور کہو کہ یہ میرا اسیر ہے۔

(رباعی)
زرد است که لبریزِ حقایق شده‌است
تلخ است که با درد موافق شده‌است
عاشق نشدی وگرنه می‌فهمیدی
پاییز بهاری‌ست که عاشق شده‌است

(میلاد عرفان‌پور)
وہ (شخص) زرد ہے کہ جو حقائق سے لبریز ہو چکا ہے؛ وہ (شخص) تلخ ہے کہ جو درد کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکا ہے؛ تم کبھی عاشق نہیں ہوئے ورنہ سمجھ جاتے کہ خزاں (در حقیقت) وہ بہار ہے کہ جو عاشق ہو چکی ہے۔

خلاص بخش خدایا همه اسیران را
مگر کسی که اسیرِ کمندِ زیبایی‌ست

(سعدی شیرازی)
اے خدا! تمام اسیروں کو رہائی بخش دے، بجز اُس شخص کے کہ جو کسی حسین کی کمند کا اسیر ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
جائے تو دانم کہ دایم در دلِ ریشِ منست
لیک آں مسکین سرگرداں نمی دانم کجاست


ناصر بخاری

میں جانتا ہوں کہ تیری جگہ ہمیشہ کے لیے میرے پارہ پارہ دل میں ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ میرا مسکین سرگرداں دل کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
سوی مسجد شده و غیرتِ آن می‌کُشَدَم
پیشِ من گرچه یقین است که در خانهٔ کیست
(امیر علی‌شیر نوایی)

وہ (یعنی میرا یار) مسجد کی جانب گیا ہے اور اس بات کا رشک مجھے مارے جا رہا ہے؛ حالانکہ مجھ پر یہ عیاں ہے کہ وہ کس کے گھر میں ہے۔ [مسجد کو خانۂ خدا کہا جاتا ہے۔]

حُسنِ مه را با تو سنجیدم به میزانِ قیاس
پلّهٔ مه بر فلک رفت و تو ماندی بر زمین
(راسخ سرهندی)

میں نے قیاس کے ترازو پر ماہ کے حُسن کا تمہارے حُسن کے ساتھ وزن کر کے تقابل کیا؛ ماہ کا پلّہ تو فلک پر چلا گیا اور تم زمین پر رہ گئے۔ (یعنی چاند کے مقابلے میں تمہارا پلّہ وزنی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
گرش ببینی و دست از ترنج بشناسی
روا بوَد که ملامت کنی زلیخا را
(سعدی شیرازی‌)

اگر تم اُسے (یعنی یوسف کو) دیکھ کر (اپنے) ہاتھ اور پھل کے درمیان فرق کر پاؤ تو تمہیں زلیخا کو ملامت کرنا روا ہے۔

همدمِ یار اگر فرشته بوَد
شرطِ عشق است بدگمان بودن
(شاپور تهرانی)

اگر یار کا ہم نشیں فرشتہ ہو تب بھی بدگماں ہونا شرطِ عشق ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز شغلِ کارِ خودم یک نفَس رہائی نیست
محبتے کہ دہَد از خودم فراغ کجاست


نظیری نیشاپوری

مجھے خود بینی سے ایک لمحے کے لیے بھی رہائی نہیں ہے، وہ محبت کہ جو مجھے خود بینی اور انا پرستی سے نجات دے دے، وہ کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
غیرتم بین که برآرندهٔ حاجات هنوز
از لبم نامِ تو هنگامِ دعا نشنيده‌ست
(عرفی شیرازی)

میرے رشک کی کیفیت تو دیکھو کہ حاجتوں کی برآوری کرنے والی ذات (یعنی خدا) نے ابھی تک دعا کے وقت میرے لب سے تمہارا نام نہیں سنا ہے۔

نه شیخ می‌دهدم توبه و نه پیرِ مغان می
ز بس که توبه نمودم، ز بس که توبه شکستم
(یغما جندقی)

میں نے اتنی زیادہ بار توبہ کر کے توڑی ہے کہ اب نہ شیخ مجھے توبہ کرنے کا امر کرتا ہے اور نہ پیرِ مُغاں مجھے شراب دیتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صائب از گردِ خجالت، شدہ در خاک نہاں
موجۂ رحمتِ دریائے عطائے تو کجاست


صائب تبریزی

صائب شرمندگی کی گرد سے خاک میں جا چُھپا ہے، تیری عطا کے دریا کی موجِ رحمت کہاں ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
ملک الشعراء ابوطالب کلیم ہمدانی کا شہنشاہ جہانگیر کی بیوی نورجہاں کے ساتھ شعر خوانی کا مسابقہ رہتا تھا اور وہ جو شعر بھی ملکہ کے پاس بھیجتا تھا، خوش ذوق ملکہ فوراً اُس کا جواب دیا کرتی تھی۔ ایک دن اُس کے ذہن میں یہ شعر آیا:
ز شرم آب شدم، آب را شکستی نیست
به حیرتم که مرا روزگار چون بشکست
یعنی: میں شرم سے پانی ہو گیا تھا۔۔۔ اور پانی تو کسی قسم کی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا نہیں؛ (لہٰذا) میں حیرت میں ہوں کہ (ستم گر) زمانے نے (اپنی ضرب سے) مجھے کیسے توڑ دیا؟
اُس نے یہ سوچ کر کہ اب اِس شعر کا کوئی جواب نہیں ہے، اِس شعر کو نورجہاں کی خدمت میں بھیج دیا۔ نورجہاں نے فوراً اس کے نیچے لکھا: "یخ بست و شکست۔"
یعنی: برف بنایا اور توڑ دیا۔

(ماخذ: 'شاہانِ شاعر' از ابوالقاسم حالت)
 

محمد وارث

لائبریرین
آنکس است اہلِ بشارت کہ اشارت دانَد
نکتہ ہا ہست بسے، محرمِ اسرار کجاست


حافظ شیرازی

اہلِ بشارت وہ ہے کہ جو اشاروں کو سمجھے، بتانے کو نکتے تو بہت سے ہیں لیکن محرمِ اسرار کہاں ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
امروز سماعست و سماعست و سماع
نورست شعاعست و شعاعست و شعاع
این عشق مطاعست و مطاعست و مطاع
از عقل وداعست و وداعست و وداع
مولانا
--------------------------------
آج کا دن سماع کا دن ہے۔سماع کا دن ۔سماع
یہ پر نور ہے ۔ شعاع ہے شعاع
یہ عشق مطاع ہے مطاع ہے مطاع
عقل کو خیر بادہے۔ وداع ہے وداع
 

حسان خان

لائبریرین
آدمِ خاکی ز خامی دارد از می اجتناب
کوزهٔ گِل پخته چون گردد نمی‌ترسد ز آب
(غنی کشمیری)

خاکی انسان (اپنی) ناپختگی کے باعث مے سے اجتناب کرتا ہے۔۔۔ مٹی کا کوزہ جب پختہ ہو جائے تو پھر وہ پانی سے نہیں ڈرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
"فارسی مادرِ زبانِ اردو است و نمی‌شود بچه را از مادر جدا کرد."
ترجمہ: "فارسی اردو زبان کی ماں ہے، اور بچے کو ماں سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔"
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
برگ را در برگ‌ریز از خود فشاندن جود نیست
درهم و دینار را در زندگانی کن نثار
(صائب تبریزی)

موسمِ خزاں میں اپنے پتّے گرانا سخاوت نہیں ہے؛ (لہٰذا اپنے) درہم و دینار (اپنی) زندگی ہی میں نثار کرو۔

هر چه پیش از مرگ می‌بخشی به سایل همت است
برگ را در برگ‌ریز از خود فشاندن جود نیست
(صائب تبریزی)

تم سائل کو موت سے قبل جو کچھ بھی بخشتے ہو، (در حقیقت وہی) فیّاضی و کُشادہ دلی ہے؛ موسمِ خزاں میں اپنے پتّے گرانا سخاوت نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
این شکر چون کنیم که با بی‌دلانِ شوق
جورِ تو همچو لطفِ خدا کم ‌نمی‌شود

(طالب آملی)
ہم اِس بات کا شکر کیسے کریں کہ اشتیاق کے مارے دل باختہ عاشقوں پر خدا کے لطف کی طرح تمہارے ظلم و ستم (بھی کبھی) کم نہیں ہوتے۔

زشت در مرتبهٔ خویش کم از زیبا نیست
هر چه را می‌نگری حسنِ خدایی دارد

(صائب تبریزی)
بدنما اپنے مرتبے میں خوش نما سے کم نہیں ہے؛ تم جس چیز کو بھی دیکھتے ہو وہ خدائی حُسن کی حامل ہے۔

کاش آن ترکِ ستمکار به قرآن می‌داشت
اعتقادی که به دیوانِ نوایی دارد

(صائب تبریزی)
کاش اُس تُرکِ ستم کار کو جو اعتقاد امیر علی شیر نوائی کے دیوان پر ہے، وہ قرآن پر ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم مرا سه بوسه ده ای شمسهٔ بتان
گفتا ز حور بوسه نیابی درین جهان
(فرّخی سیستانی)

میں نے کہا: اے آفتابِ حسیناں! مجھے تین بوسے دو۔۔۔ اُس نے کہا: تمہیں حور سے بوسہ اس جہاں میں نہیں ملے گا۔

گفتم مرا سه بوسه ده ای ماهِ دل‌سِتان
گفتا که ماه بوسه کِرا داد در جهان
(امیر معزّی نیشابوری)

میں نے کہا: اے دل رُبا چاند! مجھے تین بوسے دو۔۔۔ اُس نے کہا کہ: چاند نے دنیا میں کسے بوسہ دیا ہے؟

ز خُرده‌گیریِ روزِ حساب آزادم
ورق سیاه چنان کرده‌ام که نتوان خواند
(طالب آملی)

میں روزِ حساب کی بازپرس سے آزاد ہوں؛ (کیونکہ) میں نے ورَق (یعنی نامۂ اعمال) اتنا سیاہ کر لیا ہے کہ پڑھا نہیں جا سکتا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
پادشہ گو خوں بریزد، شحنہ گو گردن بزن
بہرِ جانے ترکِ جاناں مذہبِ احباب نیست


امیر خسرو

بادشاہ چاہے خون بہا دے، کوتوال چاہے گردن مار دے لیکن جان بچانے کے لیے جاناں کو چھوڑ دینا یاروں کا چلن نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
(فردوسِ دل)
وقتی که تو آمدی، سرم شور نداشت
شب‌های زمستانیِ من نور نداشت
تنهاییِ جان‌گدازِ من، دوزخ بود
فردوسِ دلِ شکسته‌ام حور نداشت

(مهدی نجفی)
تمہارے آنے سے قبل، میرا سر آشوب سے خالی تھا؛ میری سردی کی راتیں نور سے خالی تھیں؛ میری جاں گداز تنہائی، دوزخ تھی؛ (جبکہ) میرے دلِ شکستہ کی جنت حور سے خالی تھی۔
 
Top