خوابوں کی شہزادی - مکمل کہانی - از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
خوابوں کی شہزادی
مکمل کہانی
از شاہد بھائی
آدم خان اپنے بستر پر بیٹھا گہری سوچوں میں غوطے کھا رہا تھا۔ تبھی دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔ وہ چونک اُٹھا۔ پھر جلدی سے اپنے بستر سے اٹھا اور دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔ دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ اس کی امی جان یعنی ایمن خان پہلے ہی دروازے تک پہنچ چکی ہیں۔ دوسری ہی لمحے ایمن جان نے دروازہ کھول دیا۔ باہر ایک اٹھارہ سالہ لڑکی بدحالی کے عالم میں کھڑی تھی۔ گردوغبار سے اس کا چہرہ بھرچکا تھا اور لباس میں بھی بے تحاشا مٹی لگی ہوئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر آئی ہے۔ ایمن خان نے الجھن کے عالم میں اس لڑکی کودیکھا، تبھی وہ لڑکی چکرا کر زمین پر گر گئی۔ ایمن خان نے فوراً اسے سنبھال لیا ، دوسرے ہی لمحے وہ اسے اپنے کندھے کے سہارے بے ہوش حالت میں اندر لے آئیں۔ آدم خان کھڑا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا۔ آدم خان کی عمر تقریباً بیس یا اکیس سال تھی۔ انٹر میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اب وہ کسی نوکری کی تلاش میں تھا۔ اس کے والد شہروز خان کی آمدنی گھر کو بڑی مشکل سے چلارہی تھی۔غرض آدم خان کی امی جان ایمن خان نے اس بدحال لڑکی کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ پھر پانی چھڑکاتو وہ ہوش میں آگئی۔ پھر اُس سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا:۔
”بیٹی!……کیا نام ہے تمہارا“ایمن خان نے سرپر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا۔
”مم……میرا نام ریحانہ ہے “لڑکی نے پریشانی سے آنکھیں کھولتے ہوئے کہا۔
”تمہارے ماں باپ کون ہیں؟……تم کہاں رہتی ہو؟“ایمن خان نے نہایت نرم لہجے میں کہا۔
”مم……مم……میرے ماں باپ کو چچ……چند غنڈوں نے جان سے مار دیا ہے ……میں اس دنیا میں تنہارہ گئی ہوں“یہ کہہ کر ریحانہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔آدم خان کمرے کے باہر کھڑا یہ ساری گفتگو حیرانگی کے ساتھ سن رہا تھا۔پھر ایمن خان نےلڑکی کے آنسوؤں کو پونچھ کر اس کا ذہن بٹانے کے لیے اسے ادھر اُدھر کی باتوں میں لگادیا۔ یہ دن اسی طرح گزر گیا۔ رات کو جب شہروز خان دفتر سے واپس آئے تو ایمن خان نے انہیں ساری بات بتادی۔ دونوں میاں بیوی نے فیصلہ کیا کہ اب وہ ریحانہ کی ذمہ داری خود اُٹھائیں گے اور کچھ سالوں میں اس کی اچھی جگہ شادی بھی کردیں گے۔ ریحانہ کے لیے انہوں نے ایک خاص کمرہ مختص کردیا۔ آدم خان اِن دنوں روز صبح نوکری کی تلاش میں نکل جاتا تھاا ور شام کا اندھیرا پھیلنے پر ہی واپس لوٹتا تھا۔اس کی ریحانہ سے صرف دعا سلام ہی ہوئی تھی۔ طویل بات چیت کرنے کا موقع انہیں نہیں مل سکا تھا۔ آخر اتوار کے دن جب ایمن خان اور شہروز خان اپنے کمرے میں بیٹھے گھر کے حساب کتاب میں مصروف تھے تو آدم خان ،ریحانہ کے کمرے میں پہنچ گیا۔ اسے اپنے کمرے میں آتے دیکھ وہ چونک اُٹھی:۔
”پریشان نہ ہوں……میں کافی بور ہورہا تھا……میرا کوئی بھائی بہن تو ہے نہیں ……اس لیے سوچا کہ آپ سے ہی بات چیت کرلی جائے…… میں بس ویسے ہی اِدھر اُدھر کی ہانکنے آیا ہوں“آدم خان نے شرارت بھرے انداز میں کہا جس پر ریحانہ ہنس پڑی۔ پھر ریحانہ دو گھنٹے تک آدم خان کی باتوں میں ڈوبی رہی۔ آدم خان اسے نہ جانے کہاں کہاں کی کہانیاں سنانے بیٹھ گیا تھا اور ریحانہ بڑے شوق سے اور مسرت بھرے انداز میں اس کے ہر ہر لفظ کو اپنے دماغ میں محفوظ کررہی تھی۔بیچ بیچ میں وہ لطیفے بھی سناتا رہا۔ کمرے سے باہر نکلنے پر آدم خان کو ریحانہ میں کافی اپنایت نظر آئی۔ ریحانہ بھی آدم خان کے کمرے سے نکلنے پر افسردہ سی ہوگئی۔ وہ اس کے چٹکلوں اور لطیفوں سے بڑی محظوظ ہورہی تھی۔اگلے دن صبح جب آدم خان گھر سے باہر نوکری کی تلاش میں نکل رہا تھا تو ریحانہ صدر دروازے پر آکھڑی ہوئی:۔
”آج آپ جلدی آجائیے گا……پھر ہم خوب باتیں کریں گے “ریحانہ نے آنکھیں بڑی کرکے چہک کرکہا۔
”کیوں نہیں !“آدم خان مسکرا دیا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ آج آدم خان دوپہرکوہی گھر لوٹ آیا۔ اس کی امی جان ایمن خا ن نے وجہ پوچھی تو آدم خان نے سردرد کا کہہ کر بہانہ بنا دیا۔ پھر آدم خان کھانا کھانے کے بعد ریحانہ کے کمرے میں چلا گیا۔ایمن خان سمجھ گئیں کہ آدم خان ایک یتیم ومسکین لڑکی کو اپنے والدین کی کمی محسوس نہیں ہونے دینا چاہتا ، اسی لیے وہ اس کا اتنا خیال رکھ رہا ہے۔یہاں آدم خان ریحانہ سےکہہ رہا تھا:۔
”جانتی ہو…… ایک شہزادہ اپنی شہزادی کا بہت خیال رکھتا تھا …… وہ ہر وقت اس کی دیکھ بھال میں مصروف رہتا تھا ……شہزادی تھی ہی اتنی معصوم اور پیاری…… اوروہ شہزادی کوئی اور نہیں تم ہو ریحانہ “آدم خان نے مسکرا کر کہا جس پر ریحانہ شرما گئی۔یہ ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔ آدم خان اور ریحانہ کی ملاقاتیں دو گھنٹے سے تین ،پھر چار گھنٹے تک پہنچ گئی ،یہاں تک کہ کبھی کبھی آدم خان بیماری کا بہانہ بنا کر نوکری کی تلاش میں ہی نہ جاتا اور سارا دن ریحانہ کے کمرے میں گزار دیتا۔ دونوں ایک دوسرے کی باتوں میں کھوئے رہتے تھے۔ اب زیادہ تر ریحانہ بولتی تھی اور آدم خان سنتا تھا۔آخر ہفتہ کے دن آدم خان بہانہ نہ بنا سکا اورنوکری کی تلاش میں نکل گیا تو اسے نوکری مل گئی۔جب وہ گھر آیا تو اس کے چہرے پر گہری مایوسی تھی۔ ایمن خان اور شہزوزخان حیرت زدہ تھے :۔
”کیا آج بھی نوکری نہیں ملی ؟“شہزوز خان نے تعجب سے کہا۔
”نہیں !……نوکری مل گئی ہے “آدم خان نے ایسے کہا جیسے اسے پھانسی کی سزا مل گئی ہو۔پھر وہ بناکچھ کہے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ دوسری طرف ریحانہ نوکری کا سن کر خوش بھی تھی اور اداس بھی۔ خوش وہ اس لیے تھی کہ اب آدم خان ایک کامیاب انسان بن سکے گا جبکہ اداس وہ اس لیے تھی کہ اب آدم خان کے پاس اس سے باتیں کرنے کا وقت نہیں ہوگا۔کمرے میں آدم خان کی امی جان ایمن خان اور اس کے پاپا شہروز خان حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے :۔
”آدم کا رویہ کچھ عجیب نہیں لگا؟“شہروز خان نے دبے انداز میں کہا۔
”ہاں !……نوکری ملنےپر وہ اس قدر مایوس کیوں تھا…… کیا جہاں نوکری ملی ہے وہ جگہ اچھی نہیں ہے یا کوئی اور بات ہے ؟“ایمن خان پریشان نگاہوں سے اپنے شوہر کو دیکھ رہی تھیں۔
”میرا خیال ہے بات کچھ اور ہے ……ہمیں آج ہی پتا لگانا ہوگا؟“شہروزخان نے کہا اور کمرے سے نکل کر کھانے کی میز کی طرف بڑھ گئے ۔ کھانا کھاتے وقت بھی آدم خان بالکل خاموش رہا۔ یہ خاموشی اس کے والدین کو اندر ہی اندر کھٹکتی رہی۔ وہ اس کی ایک ایک حرکت کا جائزہ لینے لگے۔ کھانا کھانے کے بعد جب اس کی امی جان اور ریحانہ برتن اُٹھا رہے تھے تو اس کے پاپا شہروزخان اپنے کمرے میں چلے گئے ۔ آدم خان کے لیے یہ موقع کافی تھا۔ اس نے اپنی امی جان سےنظر بچا کر ایک کاغد کا ٹکڑا ریحانہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ وہ حیران رہ گئی لیکن بولی کچھ نہیں۔ جب ایمن خان باورچی خانے میں چلی گئیں تو ریحانہ نے وہ صفحہ کھول کر دیکھا۔ لکھا تھا:۔
”آج ہم اپنی زندگیوں کا فیصلہ کرنے والے ہیں……کمرے میں ملاقات کرنے میں خطرہ ہے……تم رات گیارہ بجے چھت پر آجانا“۔تحریر پڑھ کر ریحانہ گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ اس نے وہ صفحہ اپنے کمرے میں آکر بستر پر رکھ دیا اور سوچ کے سمندر میں تیراکی کرنے لگی۔ تبھی اسے ایمن خان کی آواز آئی۔ وہ اسے کسی کام کے لیے بلارہی تھیں۔ ریحانہ جلدی سے اٹھی اور باورچی خانے میں پہنچ گئی۔ اِدھر آدم خان کے پاپا شہروز خان ریحانہ کے کمرے میں داخل ہوئے ۔ ان کی آنکھوں میں الجھن تھی۔ سامنے انہیں ریحانہ کے بستر پر ایک کاغد کا ٹکڑا نظر آگیا۔ دراصل آدم کی والدہ ایمن خان نے آدم خان کو ریحانہ کے ہاتھ میں وہ کاغذ کا ٹکڑا پکڑاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ انہوں نے جاکر اپنے شوہر کو یہ بات بتادی اور یہ بھی بتا دیا کہ ریحانہ وہ کاغذ کا ٹکڑا اپنے کمرے میں لے گئی ہے ۔پھر انہوں نے ریحانہ کو کسی کام کے بہانے باورچی خانے میں بلا لیا اور یہاں شہروز خان ریحانہ کے کمرے میں داخل ہوگئے تاکہ وہ اس کاغذ کے ٹکڑے کی تحریر کو پڑھ سکیں۔
رات گیارہ بجے آدم خان اپنےبستر سے اُٹھا اور چھت کی طرف قدم بڑھا دئیے ۔ تبھی اسے اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ریحانہ کھڑی تھی۔
”ریحانہ !……چھت پر آؤ …… میں آج تمہیں اپنے دل کی بات بتانا چاہتا ہوں “آدم خان نے جلدی سے کہا۔
”یہی نہ کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں …… میں بھی یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میں بھی آ پ سے بہت محبت کرتی ہوں “یہ کہتے ہوئے ریحانہ نے شرما کر اپنا چہرہ چھپا لیا۔ آدم خان مسکرا دیا۔
”ٹھیک ہے !…… ہمیں یہ بات امی جان اور پاپا کو بتانی ہوگی……یہ بات ہم کب بتائیں گے اس کا فیصلہ چھت پر ہوگا“آدم خان نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔
”ٹھیک ہے !…… آپ جائیے !…… میں بس ابھی آئی “ریحانہ یہ کہتے ہوئے شرم کے مارے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ آدم خان کی مسکراہٹ گہری ہوگئی اورپھر وہ چھت کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ جیسے ہی وہ چھت پر پہنچا ، اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ چھٹ پر چٹائی بچھائے اس کے والدین بیٹھے اسے بری طرح گھور رہے تھے۔ وہ بوکھلا گیا:۔
”آپپ ……آپ لوگ !…… چلو اچھا ہی ہوا کہ آپ لوگ یہاں موجود ہیں…… میں آپ کو بتانے ہی والا تھا کہ میں ریحانہ سے کتنی محبت کرتا ہوں…… میں تواس سے شادی کرناچاہتا ہوں “ آدم خان نے ہمت کرکے بول دیا جس پر شہروز خان کے چہرے پر غصے کی بجلیاں نظر آنے لگیں۔
”وہ لڑکی جس کے ماں باپ کاکچھ پتا نہیں …… جو ہمارے گھر میں صرف ایک بے سہارا بن کررہ رہی ہے ……اسے تم اپنی شریک حیات بنانا چاہتے ہو …… تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے “شہروز خان گرج کر بولے۔آدم خان کی والدہ ایمن خان خاموشی سے یہ منظردیکھ رہی تھیں۔ اتنے میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ریحانہ بھی وہاں پہنچ گئی اور پھر ایمن خان اور شہروز خان کو دیکھ کر اس کی حالت بھی وہی ہوئی جو ابھی کچھ دیر پہلے آدم خان کی ہوئی تھی۔آدم خان نے جلدی سے اسے گلے لگایااور اپنے ساتھ کھڑا کرلیا۔پھر اس نے اپنے والدین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں:۔
”آپ کچھ بھی کہیں پاپا…… یہ ہی آپ کی بہو ہے اور آپ کو یہ فیصلہ آج یا کل ماننے ہی پڑے گا “آدم خان نے سردآہ بھر کر کہا۔
”یہ کبھی نہیں ہو سکتا…… میں نے اپنے دوست شہریار سے اس کی بیٹی مانگ لی ہے …… وہی تمہاری بیوی اور میری بہو بنے گی …… سمجھ گئے “شہروز خان نے دھمکی دینے والے انداز میں کہا۔
”آپ نے یہ بات خود کی ہے …… مجھ سے پوچھ کر نہیں کی…… اس لیے میں آپ کے دوست کی بیٹی سے شادی کرنے کو قطعاً تیار نہیں …… آپ کو میری بات ماننے ہی ہوگی……میں ریحانہ سے بہت محبت کرتا ہوں…… ریحانہ ہی میری بیوی اور آپ کی بہو بنے گی “آدم خان نے اٹل لہجے میں کہا۔
”میں اس رشتے کے لیے کبھی نہیں مانوں گا“شہروز خان دھاڑ کر بولے۔
”آپ تو کیا آپ کا اچھا بھی اس رشتے کےلیے مانے گا “آدم خان نے سخت لہجے میں کہا۔
”اس لڑکی کی وجہ سے اپنے باپ سے بات کرنے کی تمیز بھی بھول گئے ہو …… پسند کی شادی کا سب سے پہلانقصان خود تمہارا سامنے ہے “شہروز خان نےطنز مارا۔
”آپ بھول رہے ہیں پاپا کہ آپ کی بہن اور میری پھوپھی جان …… میرے چچاجان …… یہاں تک کہ آپ خود بھی پسند کی ہی شادی کرکے بیٹھیں ہیں“آدم خان نے الزامی جواب دیا۔ ریحانہ غمگین عالم میں یہ سارا کچھ سن رہی تھی۔ اس کے گالوں پر آنسوؤں کی لہر تھی۔اوپر آسمان سے بارش کی بوندیں بھی گررہی تھیں۔
”آپ میری وجہ سے اپنے پاپا سے جھگڑا مت کریں “ریحانہ نے سسک کر آدم خان کی طرف دیکھا۔
”نہیں!…… ریحانہ تم دیکھو گی کہ ہم ان دونوں والدین کی رضامندی سے ہی شادی کریں گے “آدم خان نے اسے دلاسا دے کر کہا۔ا ن لمحات میں آدم خان کی امی جان ایمن خان بالکل چپ تھیں لیکن پھر اچانک چھت کے چاروں طرف سےآدم خان کو اپنی امی جان کی آواز سنائی دینے لگی:۔
”اٹھ جاؤ!…… ارے بھئی آدم بیٹے !……اٹھ جاؤ !……صبح کے د س بج چکے ہیں “ایمن خان پیار بھرے انداز میں کہہ رہی تھیں۔ آدم خان نے حیرت کے ساتھ چھت کے چاروں طرف دیکھا۔ اچانک اس نے اپنے آپ کو اپنے کمرے کے بستر پر پایا ۔ وہ حیرانگی کے عالم میں آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا بیٹھا۔سامنے اس کی امی جان کھڑی اسے جگا رہی تھیں:۔
”ہر بار تم اٹھ بجے نوکری کی تلاش میں نکل جاتے ہو ……آج دس بج گئے ہیں “ایمن خان نے گھڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
”امی جان !…… ریحانہ تو اپنے کمرے میں ہی ہے نہ “آدم خان گھبرا کر بولا۔
”کون ریحانہ !……یہاں تو کوئی ریحانہ نہیں ہے “اپنی امی جان کی بات سن کر آدم خان کی سسکیاں کمرے میں گونج اٹھیں۔آدم خان جان گیا تھا کہ یہ سب کچھ صرف ایک خواب تھا اور اس کی خوابوں کی شہزادی اس کا ساتھ چھوڑ چکی ہے۔ دوسرے ہی لمحے وہ بلک بلک کر رونے لگا جبکہ اس کی امی جان ایمن خان کے چہرے پر حیرت کا سمندر نظر آرہا تھا۔

٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭
 
Top