خلش ۔جدون ادیب

اسلم رضا غوری

لائبریرین
خلش
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں شہر کے سب سے اچھے اسکول میں پڑھتا تھا، میرے اندر پڑھنے اور آگے بڑھنے کی بھوک تھی، اس سے قبل پانچویں جماعت تک ہمیشہ فرسٹ پوزیشن حاصل کرتا رہا، پہلی جماعت سے مجھے مانیٹر بنادیا گیا اور پانچویں جماعت میں مجھے پورے اسکول کا ہیڈ پری فیکٹ بنادیا گیا۔
مجھے نیا اسکول اور نئی جماعت میں شامل ہونے کے بعد پتا چلا کہ اس جماعت میں کم از کم تیس بچے اپنے اپنے اسکولوں سے فرسٹ، سیکنڈ اور تھرڈ پوزیشن لے کر آئے ہیں اور یہ سیکشن دراصل ہے ہی پوزیشن لینے والے طلبا کے لیے، اسسے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے کتنی جدوجہد کرنی تھی اور مقابلہ کتنا سخت تھا۔
شروع کے دن تعارف اور نظم وضبط کی تلقین میں گزرے، میں نے اپنے تعارف میں واضح کردیا تھا کہ میں کلاس کنٹرولنگ کا تجربہ رکھتا ہوں اور اس سیٹ کا خواہاں بھی ہوں، مگر میری خواہش کے برعکس اظفر کو مانیٹر بنادیا گیا اور سچی بات ہے میں اسی دن سے اظفر سے حسد کرنے لگا تھا۔
بدمزگی کے اس عالم میں شش ماہی امتحان کا نتیجہ آیا تو میں نے پانچویں پوزیشن حاصل کی، میرے دوستوں میں فراز اور نبیل شامل تھے، جو نالائق ثابت ہوئے تھے، میں نے فوری طور پر فرسٹ آنے والے عارفین، سیکنڈ آنے والے عظمت اور تھرڈ آنے والے ساجد سے دوستی کرلی، میرے ابو نے مجھے نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ خود سے اچھے لوگوں سے دوستی رکھنی چاہیے اور میری عادت تھی کہ میں بڑوں کی نصیحت پر ضرور عمل کرتا تھا، تاہم میں حسد کے نقصانات سے اچھی طرح آگاہ ہونے کے باوجود خود کو اس کا شکار بننے سے نہیں روک سکاتھا اور اظفر کو بہت تنگ کرتا تھا، اس کے اختیارات کو چیلنج کرنے والا واحد میں ہوتا تھا اور سب یہ سمجھتے تھے کہ یہ چلبلاپن میری شخصیت کا حصہ ہے، سالانہ امتحانات میں ، میں نے تیسری پوزیشن حاصل کرلی، عارفین پھر اول آیا تھا اور اس نے سر سے غیر متوقع طور پر مانیٹر بننے کی خواہش ظاہر کی تو سر نے اظفر کو معطل کر کے اسے مانیٹر بنادیا۔ عارفین تب تک میرا گہرا دوست بن چکا تھا، اس لیے مجھے اس پر بہت خوشی ہوئی، مگر ایک مہینے بعد ہی وہ بور ہوگیا، اس نے مجھ سے پوچھے بغیر سر سے اپنی دست برداری کی خواہش ظاہر کی اور ساتھ ہی مانیٹر کے طور پر میرا نام دے دیا۔
میرا مسرت کے مارے برا حال تھا، مجھے لگ رہا تھا کہ میرا خواب پورا ہونے والا ہے مگر سر نے کلاس سے رائے لی کہ کسے مانیٹر ہونا چاہیے، میرے دوستوں نے میری حمایت کی، مگر اکثریت کی، مگر اکثریت نے اظفر کے حق میں ووٹ دیا اور ایک بار پھر اسے مانیٹر بنادیا گیا، تب میرے اندر کے منفی جذبات توانا ہوگئے اور میں انتقام کی آگ میں جلنے لگا، اس حسد نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا اور میں ذہین طالب علم سے اوسط درجے کا طالب علم بن کر رہ گیا۔
اظفر کا کلاس کنٹرولنگ کا طریقۂ کار یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے سب کا جائزہ لیتا رہتا اور جو لڑکے اسے تنگ کر تے، سر کی آمد سے ذرا پہلے وہ وہائٹ بورڈ پر ان کے نام لکھ دیتا اور سر آکر انھیں سزا دیتے تھے، میں سزا پانے والوں میں سرفہرست ہوتا تھا اور ایک بار سروے ہوا تو پوری جماعت نے مانیٹر کو تنگ کرنے والے طلبا میں سے مجھے شدید ترین طالب علم قرار دیا۔
میں اسکول کی فٹ بال ٹیم میں کھیلتا تھا، ایک دن کھیل کے دوران میں اظفر امپائر تھا، اس نے دانستہ یا نا دانستہ میرے خلاف فیصلہ دیا تو میں نے غصے میں آکر اسے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کردیا۔
یہ ایک افسوس ناک،بل کہ شرم ناک حرکت تھی اور اس بات پر میں آج تک شرمندہ ہوں، مجھے پتا ہے کہ اظفر ایک فراخ دل انسان تھا اور اس نے مجھے معاف بھی کردیا تھا اور ہم اچھے دوست بھی بن گئے تھے، مگر اُس وقت مجھے اس حرکت کا خمیازہ بھگتنا پڑا تھا۔
میں دو دن تک اسکول نہیں آیا، مگر تیسرے دن جانا پڑا اور سر مجھے پرنسپل صاحب کے پاس لے گئے، انھوں نے مجھے سخت بے عزت کیا اور سر کو اجازت دی کہ میری خاطر تواضع کریں پھر سر نے مجھے میری جماعت کے سامنے جانے کیا کیا کہا، میں سب کی نظروں میں گر گیا تھا اور اب ہر وقت افسردہ رہنے لگا، اظفر سمیت سب نے میری دل جوئی کی کوشش کی، مگر میں بالکل بدل کر رہ گیا اور سالانہ امتحانات کے فوراً بعد اسکول بدل لیا، مگر میرے اندر کی شوخی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔
میرا خیال ہے کہ اگر آپ کی بے عزتی ہوئی ہو اور اس بے عزتی کے بتانے میں کسی کا بھلا ہوجائے تو اسے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آج بیس سال بعد اظفر کا چہرہ میرے سامنے آتا ہے تو میرا روآں روآں شرمندگی میں ڈوب جاتا ہے۔ توبہ۔۔۔! اس کی آنکھوں میں کتنا تحیر، بے چارگی اور افسوس تھا، اس کی بھیگی بھیگی آنکھیں اور گال پر ہاتھ رکھنامجھے آج بھی یاد ہے! میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بچے ایسی کوئی غلطی نہ کریں کہ وہ میری طرح ساری زندگی پچھتاتے رہیں۔
ایک کہانی تو یہاں پر ختم ہوجاتی ہے، دوسری کہانی جب شروع ہوتی ہے جب میں خود ایک استاد بن کر ایک اسکول میں جاتا ہوں۔ میں پہلے دن اپنی جماعت میں داخل ہوا تو میں نے اپنے تعارف کے بعد بچوں کا تعارف لیا اور انھیں حسد کے نقصانات سے آگاہ کرنے کے لیے ایک مختصرتقریر کی اور پھر جماعت کا مانیٹر بنانے کے لیے بچوں سے رائے لی، تقریبا بارہ بچے ایسے تھے جن کے نام ان کے دوستوں نے پیش کیے تھے، میں نے بچوں کو بتایا کہ یہ سب لوگ فرداً فرداً مانیٹر بنائے جماعت کا مانیٹر بنانے کے لیے بچوں سے رائے لی، تقریبا بارہ بچے ایسے تھے جن کے نام ان کے دوستوں نے پیش کیے تھے، میں نے بچوں کو بتایا کہ یہ سب لوگ فرداً فرداً مانیٹر بنائے جائیں گے اور پھرحتمی مانیٹر کا تعین میں خود کروں گا۔
بچے بہت خوش اور پر جوش تھے۔ ایک مہینے بعد اکثر بچے اپنی خواہش سے دست بردار ہوگئے تھے۔ میدان میں صرف دو بچے رہ گئے تھے، راجا ذوالقرنین اور سکندر انصاری۔
اس موقعے پر ایک بار پھر مجھے اظفر یاد آیا، مجھے لگا کہ راجا اور سکندر، اظفر اور میں ہوں اور اگر میں نے غلط فیصلہ کیا تو ایک بچہ میری طرح منفی خیالات کے زیر اثر اپنی پڑھائی اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹ جائے گا۔
میں نے فیصلہ کرنے میں کافی دن لگا دیے۔جماعت اب واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوچکی تھی۔ آدھے بچے راجا کو مانیٹر دیکھنا چاہتے تھے اور آدھے سکندر کو، فیصلہ بہت مشکل ہوچکا تھا۔
آخر بہت سوچنے کے بعد میں نے راجا اور سکندر کا تعلیمی ریکارڈ چیک کیا تو پتا چلا کہ سکندر، راجا سے بہتر طالب علم ہے، مگر دونوں ہی ذہین طالب علم تھے۔ میں نے بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ کی اور پھر اچانک پوچھا کہ اگر سکندر مانیٹر ہو اور راجا اس کا معاون تو کیا یہ فیصلہ سب کے لیے قابل قبول ہوگا؟
پوری جماعت خوش ہوگئی اور سب نے میرے فیصلے کی تائید اور حمایت کی۔ میں نے سکندر اور راجا دونوں کو مانیٹر کے بیج لگادیے۔
اس دن میں بہت خوش تھا۔ ایک عرصے بعد مجھے خوشی نصیب ہوئی تھی۔ چھٹی کے بعد میں نے ایک خوب صورت منظر دیکھا۔ سکندر اور راجا ایک ساتھ ہنسی خوشی جارہے تھے۔ اس لمحے میرے دل میں ایک خواہش، بل کہ خلش نے سر اٹھایا کہ کاش! میرے معاملے میں بھی کسی نے ایسا دانش مندانہ فیصلہ کیا ہوتا۔
مجھے سکندر اور راجا پر بہت پیار آیا۔ میں نے دونوں کو روک کر مبارک باد دی اور پھر نہ جانے کیوں میرے منہ سے نکلا:
’’راجا! سکندر کا ہمیشہ خیال رکھنا۔ اس سے کوئی بدتمیزی مت کرنا۔‘‘
دونوں مجھے حیرت سے دیکھنے لگے اور میں نے اپنے آنسو ؤں کو چھپانے کے لیے منہ موڑ لیا۔
 
Top