حضرت صاحبزادہ خواجہ غلام نظام الدین کے منتخب نثر پارے

خواجہ طلحہ

محفلین
سوسائٹی اور مذہب لازم و ملزوم ہیں۔ مذہب کسی منجمد تصور کا نام نہیں، بلکہ مذہب اور سوسائٹی دونوں ایک ادارے یا جسم نامی یا ایک درخت کی طرح ارتقاء اور انحطاط سے اثر پذیر ہیں، جس طرح شجر کا بیج لگائیں تو وہ پھوٹ نکلتا ہے،پھر بڑھنے لگتا ہے، پھر جوان ہوکر پھلتا پھولتا ہے،کئی سال اس سلسلہ برگ و بار کا پر بہار منظر پیش کرتے کرتے پھر بتدریج کمزور ہوتا چلا جاتا ہے،حتٰی کہ ایک زور دار جھکڑ میں اسکی جڑیں زمینی پیوند سے دامن چھڑا چکی ہوتی ہیں۔ پچاس فٹ کی بلندی پر فضا میں جھومنے والی شاخیں سطح زمین پر افسردہ و پژمردہ پڑی ہوتی ہیں اور ننھے بچے اس مرحوم پیٹر کے ساتھ کھیل رچا رہے ہوتے ہیں، اسی طرح ہر مذہب اور سوسائٹی اپنے آغاز ،ارتقاء عروج او کہولت اور پھر کہنگی و مردنی کی طرف افلاس حیات یا منازل زوال و انحاط کا مرحلہ بہ مرحلہ سفر، ایک زور دار قانون طبیعت کے تحت لا شعوری طور پر خود بخود انجام دے رہی ہے۔، یکساں اور ہموار رفتار کے ساتھ بالاستقلال اور بلا ستمرار اگر کوئی حقیقت پائیدار و استوار ہے تو فقط مشیت ربانی کا بہتا ہوا دھارا ہے اور ہر چیز قطعا زوال پذیر ہے۔
"دیباچہ ہو المعظم ﴿ص30- 31﴾" نگارش سے اقتباس
 

خواجہ طلحہ

محفلین
علامہ اقبال کو اولیا ء اللہ سے بے حد عقیدت تھی۔ بانگ درا میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے دربار پر حاضری کے وقت علامہ اقبال نے جو نظم پیش کی ہے،اس میں جھلکتی ہوئی عقیدت اور جوش تمنا کے ساتھ ،داخلی سوزوگداز اور محبت کا والہانہ انداز ایک بہار دکھا رہا ہےاور قاری اس روحانی منظر و ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
﴿ص125﴾دیباچہ ھو العظم ﴿نگارش﴾سے اقتباس
 

خواجہ طلحہ

محفلین
-اخلاق عا لیہ کی مستند کتابوں میں مزاج کی سب سے بڑی خوبی ،اعتدال بتائی گئی ہے۔
آگے اس اعتدال کی کیفیت کو جب تشبیہ کے ذریعے سمجھانے کی ضرورت پیش آئی ،تو ایرانیوں کی خوش ذوقی نے کمال کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مزاج کا اعتدال ایسے ہے،جیسے گل و شبنم کا اجتماع یعنی گلاب کا تازہ کھلا ہوا پھول اور اس پر شبنم کے مہین قطرے،پھول کے رنگ و بو میں رچے بسے تبسم کی تازگی کو جھلکا رہے ہیں۔
جب آدمی مسکراتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر لعاب دہن کی ہلکی سی نمی یوں ہولے سے پھیلتی ہے،جیسے افق پر صبح صادق کے دھندلکے کی تہ بیٹھ جاتی ہے۔
گلاب جو ورق در ورق ہو کر سینہ چاک ہوا ہے،اس کے خندہ ناز کی تازگی کی تصدیق مزید، اوس کے ننھے قطروں کی موجودگی سے ہوتی ہےکہ شگفت گل کا بدیع و بکر معجزہ عالم فطرت میں ابھی ابھی اپنی بلوغت کو پہنچا ہے۔
نہ تو پھول کے چہرے پر ملال یا اداسی ہے اور نہ فطرت کا یہ عمل خیر باسی ہے۔
فراق گور کھپوری نے اپنے محبوب کے پیکر ناز اور اس کی داخلی مجبوریوں کو یکجا دکھانے کے لیے یہی شبنم و گل کا تلازمہ اختیار کیا ہے اور یہ جمالیاتی تلازمہ رمزو ایما کی معنوی شوخی کو اور بھی بھڑکارہا ہے۔
تمام شبنم و گل ہے وہ سرے سے تابہ قدم
رکے رکے سے کچھ آنسو،رکی رکی سی ہنسی

 

خواجہ طلحہ

محفلین
شباب کی شورشیں،جوانی کی لغزشیں اور مستانہ انحراف ،ہر کسی کو یہ مراحل پیش آتے ہیں۔سعادت جن کی دستگیری کرے،وہ گرادابوں کی کشاکش کو آہستگی اور بے نیازی سے کاٹ کر،ساحل عافیت پر جا اترتے ہیں اور اگر سعادت رفیق راہ نہ بنے تو کتنے بے چارے متاع ہوش و تمکیں سے مرحلہ اول ہی میں سبک بار ہو بیٹھتے ہیں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
جدید سماجیات میں فرائڈ اور رسپوٹین کی وجہ سے جنسی حوالوں سے گفتگو کرنا جوان نسل کا مرغوب موضوع ہے۔لڑکے ہمیشہ لڑکیوں کے بارے میں سوچتے ہیں،اسی طرح لڑکیاں جب مل بیٹھتی ہیں تو وہ لڑکوں کے بارے میں سوچتی ہیں،معیاری حسن وہی ٹھہرتا ہے،جو صنف مخالف کو حددرجہ کشش کرسکے،خواہ انفرادی خدوخال کیسے ہی ہوں۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
ممکن ہے بعض حضرات کی رائے میں،میری تحریر انیسیویں صدی کے عیش پرست نوابی دور کی فرسودہ ذہنی لغویات کی ،صدا ئے باز گشت ہو اور میرا اسلوب کھوکھلی لفاظی اور مبالغے کے آزادانہ استعمال سے فکرو خیال کے لیے مغالطہ انگیز بھول بھلیوں اور پر فریب گنجلکوں کے بے سروپا تشکیل وپر داخت کے علاوہ کچھ نہ ہو۔ یہ سب بجا سہی إ لیکن جیسا کہ میں اپنے پہلے خطوط میں بھی عرض کرچکا ہوں ،میرا طبعی جھکاو تاثراتی اسلوب کی طرف ہے،نیز جہاں تک موضوع کا تعلق ہے میں نہ تو ،صد پند سودمند اور نہ ہی توشہ آخرت یا تنبیہ الخافلین یا ہدایت السالکین قسم کی کوئی چیز لکھ رہا ہوں۔

چاندنی کاشہر /جھلک سے اقتباس۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
چند اشکِ سَرِ چشم ہُوئے صَرفِ نگارش
باقی ہے وہ خوننابہ جو دامن میں بھَراہے


از غلام نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ
 
Top