اقتباسات جون ایلیا

AinAlif

محفلین
مجلہ۔ مشاعرۂ 90ء (جون ایلیا)
.________________________
._________آواز_________

اُن لوگوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھا جائے گا جو خود تو بولے چلے جاتے ہیں، لیکن دوسروں کو بولنے نہیں دیتے۔ انکا بولنا ناگوار ہی گزرے گا، چاہے وه ابدی سعادتوں کی بشارت ہی دینے والے کیوں نہ ہوں۔ دیکھو یہ زمین آج تک کسی ایسے گروہ کے تلوؤں سے مَس نہیں ہوئی ، جس نے اپنی جھولی میں دنیا کی ساری سچائیوں کو اکٹھا کر لیا ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو زمانے کی گرد بادمیں ڈولتا اور بکھرتا یہ انسان اس قدر محروم اور بد نصیب نہ ٹھہرتا ۔
یہ تو زندگی کی بد بختی ہے کہ اِسکی سچائیاں مختلف زمانوں، زمینوں، زبانوں اور ذہنوں میں بکھری ہوئی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا جو ساری صداقتیں مُحلّے کے اُس سن رسیدہ خردہ فروش کے یہاں مِل جایا کرتیں، جو دن بھر لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرتا ہے اور رات کو اپنی دکان کے سامنے بیٹھ کر اپنے ہم سِنوں کو بستیوں کے قصّے اور شہر بھر کی خبریں سناتا ہے۔
سب کو اجازت دو کہ وه معرضِِِ گفتار میں لفظ و بیان کی جھولیاں خالی کر دیں۔ تا کہ انکی متاع کو دیکھا جائے اور پرکھا جائے۔ اور کہنے والے یہ نہ کہ سکیں کہ "ہمارے موتیوں کو بھی کوئی مُشتری نہ ملا اور دوسروں کے مُونگے بھی موتیوں کے مول بِک گئے"۔ دانش اور بصیرت کی بہت ہی قلیل متاع ہمارے حصّے میں آئی ہے۔ اگر اُُس میں سے بھی کچھ حصّہ بے زبانی اور خاموشی کے کھاتے میں پڑا رہ جائے، تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔
ہاں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو صرف اس لئے بولتے ہیں کہ سماعتوں میں فساد پھیلائیں، پر یہ نہ بھولو کہ جو لوگ بھول کر فساد پھیلاتے ہیں وه اگر خاموش رہیں تو دس گنا فساد پھیلایں۔ روح کے تمام روزنوں اور روشندانوں کو کھلا رہنے دو۔ اظہار کو صحرا کی ہواؤں اور سمندر کے پانیوں کی طرح آزاد ہونا چاہیے۔ بولنے والے سکھانے والے ہیں اور چپ رہنے والے چھپانے والے ہیں۔ اور جو تمہارے ڈر سے چُپ ہو گئے ہیں وه کبھی نہ کبھی ضرور بولیں گے۔ اور اِس بار انکی زبانوں پر تمہارے خلاف کوئی بے زنہار حجت ہوگی۔ ۔پس بولنے والوں کو بولنے اور سننے والوں کو رولنے اور تولنے دو۔
 
Top