کاشفی

محفلین
غزل
(محبوب خزاں)
جنوں سے کھیلتے ہیں آگہی سے کھیلتے ہیں
یہاں تو اہل سخن آدمی سے کھیلتے ہیں


نگار مے کدہ سب سے زیادہ قابل رحم
وہ تشنہ کام ہیں جو تشنگی سے کھیلتے ہیں


تمام عمر یہ افسردگان محفل گل
کلی کو چھیڑتے ہیں بے کلی سے کھیلتے ہیں


فراز عشق نشیب جہاں سے پہلے تھا
کسی سے کھیل چکے ہیں کسی سے کھیلتے ہیں


نہا رہی ہے دھنک زندگی کے سنگم پر
پرانے رنگ نئی روشنی سے کھیلتے ہیں


جو کھیل جانتے ہیں ان کے اور ہیں انداز
بڑے سکون بڑی سادگی سے کھیلتے ہیں


خزاںؔ کبھی تو کہو ایک اس طرح کی غزل
کہ جیسے راہ میں بچے خوشی سے کھیلتے ہیں
 
Top