واصف جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے- واصف علی واصفؒ

جذبات زیرِ گردشِ حالات سو گئے
چھائی گھٹا تو رندِ خرابات سو گئے

منزل سے دور جاگتی سوچیں تھیں ذہن میں
منزل پہ آ گئے تو خیالات سو گئے

تاروں نے ہم کو دیکھ کے شبنم سے یہ کہا
یہ بدنصیب وقتِ مناجات سو گئے

کیا دلگداز موسمِ گل کا تھا انتظار
فصلِ بہار آئی تو نغمات سو گئے

آنکھوں میں ہم نے کاٹ دی شامِ غمِ فراق
آیا کوئی جو بہرِ ملاقات سو گئے

اک خواب کے سوا ہے یہ ہستی تمام خواب
آئی ہے جن کے ذہن میں یہ بات سو گئے

آیا جو وقت معرکہِ حق و کفر کا!
کیوں صاحبانِ کشف و کرامات سو گئے
واصف علی واصفؒ
 
آخری تدوین:
Top