عدم جام شرمائے، صراحی کو پسینہ آگیا - عبد الحمید عدم

جام شرمائے، صراحی کو پسینہ آگیا
آپ کو بھی بات کرنے کا قرینہ آگیا

آ ترے ایمان کو پھولوں کے رس میں غسل دوں
محتسب! برسات کا رنگیں مہینہ آگیا

مڑ کے دیکھا تھا کہ دریا ایک قطرہ بن گیا
آنکھ جھپکی تھی کہ ساحل پر سفینہ آگیا

ہائے اُن مخمور آنکھوں کی پشیمانی کا حسن
میں نے یہ سمجھا بہاروں کو پسینہ آگیا

ہوگئی پیوست دل میں اس طرح اسکی نظر
جس طرح خالی انگوٹھی میں نگینہ آگیا

ہو نہیں سکتا کہ شیشہ آئے اور صہبا نہ آئے
مے بھی آئے گی عدمؔ جب آبگینہ آگیا
عبد الحمید عدمؔ
 
Top