تفہیم القرآن، جلد چہارم۔۔۔ ترجمہ

الف عین

لائبریرین
سورۂ لقمان
ا ل م ۔ یہ کتاب حکیم کی آیات ہیں (۱) ، ہدایت اور رحمت نیکو کار لوگوں کے لیے (۲) ، جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں(۳)۔ یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور یہی فلاح پانے والے ہیں۔ (۴)
اور انسانوں ہی میں سے کوئی ایسا بھی ہے (۵) جو کلام دلفریب(۶) خرید کر لاتا ہے تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے علم کے بغیر (۷) بھٹکادے اور اسے راستے کی دعوت کو مذاق میں اُڑادے (۸)۔ ایسے لوگوں کے لیے سخت ذلیل کرنے والا عذاب ہے (۹)۔ اسے جب ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ اس طرح رخ پھیرلیتا ہے گویا کہ اس نے انہیں سنا ہی نہیں، گویا کہ اس کے کان بہرے ہیں۔ اچھا، مژدہ سُنا دو اسے ایک درد ناک عذاب کا۔ البتہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، اُن کے لیے نعمت بھری جنتیں ہیں (۱۰) جن میں وہ ہمیشہ رہیںگے۔ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے (۱۱)۔
اس (۱۲) نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں (۱۳)۔ اُس نے زمین میں پہاڑجمادیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے (۱۴)۔ اس نے ہر طرح کے جانور زمین میںپھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اُگادیں ۔ یہ تو ہے اللہ کی تخلیق ،اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟(۱۵) اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں(۱۶) ۔ع
ہم(۱۷) نے لقمان کو حکمت عطاکی تھی کہ اللہ کے شکر گزار ہو (۱۸)۔ جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لئے مفید ہے ۔ اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور آپ سے آپ محمود ہے(۱۹) ۔
یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کررہا تھا تو اُس نے کہا ’’ بیٹا ! خُدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا،(۲۰) حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے(۲۱) اور(۲۲) حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اُس کی ماں ضعف پر ضعف اُٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میںلگے (۲۳)۔ (اِسی لئے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا ، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے ۔ لیکن وہ اگر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا (۲۴) تو ان کی بات ہرگز نہ مان ۔ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے،(۲۵) اُس وقت میں تمہیںبتا دوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو(۲۶)۔
(اور لقمان(۲۷) نے کہاتھا کہ) ’’بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یازمین میں کہیں چھُپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا(۲۸)۔ وہ باریک بیں اورباخبر ہے۔ بیٹا، نماز قائم کرنیکی کا حکم دے، بدی سے منع کر، اور جو مصیبت بھی پڑے اس پر صبر کر (۲۹)۔ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے(۳۰)۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر(۳۱) ، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خو پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا(۳۲)۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر(۳۳)، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے(۲۳)۔ ع
کیاتم لوگ نہیں دیکھتے کہ اللہ نے زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں تمہارے لیے مسخر کررکھی ہیں(۳۵) اور اپنی کھُلی اور چھُپی نعمتیں (۳۶) تم پر تمام کردی ہیں؟ اس پر حال یہ ہے کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ ہیں جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں (۳۷) بغیر اس کے کہ ان کے پاس کوئی عِلم ہو، یا ہدایت، یا کوئی روشنی دکھانے والی کتاب (۳۸)۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ پیروی کرو اُس چیز کی جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو اُس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ انہی کی پیروی کریںگے خواہ شیطان اُن کو بھڑکتی ہوئی آگ ہی کی طرف کیوں نہ بلاتا رہا ہو (۳۹)؟
جو شخص اپنے آپ کو اللہ کے حوالہ کردے (۴۰) اور عملاً وہ نیک ہو (۴۱)، اس نے فی الواقع ایک بھروسے کے قابل سہارا تھام لیا، اور سارے معاملات کا آخری فیصلہ الہ ہی کے ہاتھ ہے۔ اب جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں غم میں مبتلا نہ کرے (۴۳)، انہیں پلٹ کر آنا تو ہماری ہی طرف ہے، پھر ہم انہیں بتادیں گے کہ وہ کیا کچھ کرکے آئے ہیں۔ یقینا اللہ سینوں کے چھُپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ ہم تھوڑی مدت انہیں دُنیا میں مزے کرنے کا موقع دے رہے ہیں، پھر ان کو بے بس کرکے ایک سخت عذاب کی طرف کھینچ لے جائیںگے۔
اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے، تو یہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو الحمدُ لِلّٰہ۔ مگر ان میں سے اکثر لوگ جنتے نہیں ہیں(۴۵)۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ (۴۶) ہی کا ہے، بے شک اللہ بے نیاز اور آپ سے محمود ہے (۴۷)۔ زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب کے سب قلم بن جائیں اور سمندر (دوات بن جائے) جسے سات مزید سمندر روشنائی مہیا کریں تب بھی اللہ کی باتیں (لکھنے سے) ختم نہ ہوںگی (۴۸)۔ بے شک اللہ زبردست اور حکیم ہے۔ تم سارے انسانوں کو پیدا کرنا اور پھر دوبارہ جِلا اُٹھانا تو (اُس کے لیے) بس ایسا ہے جیسے ایک متنفس کو (پیدا کرنا اور جِلا اُٹھانا)۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ سب کچھ سُننے اور دیکھنے والا ہے (۴۹)۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ رات کو دن میں پرورتاہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ اُس نے سُورج اور چاند کو مسخر کر رکھا ہے (۵۰)، سب ایک وقت مقرر تک چلے جارہے ہیں، اور (کیا تم نہیں جانتے) کہ جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ اللہ ہی حق ہے (۵۲) اور اسے چھوڑ کر جن دُوسری چیزوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب باطل ہیں (۵۳) ، اور (اس وجہ سے کہ) اللہ ہی بزرگ و برتر ہے (۵۴)۔ ع
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ کشتی سمندر میں اللہ کے فضل سے چلتی ہے تاکہ وہ تمہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائے (۵۵)۔ درحقیقت اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کے لیے جو صبر اور شکر کرنے والا ہو (۵۶)۔ اور جب (سمندر میں) اِن لوگوں پر ایک موج پہاڑوں کی طرح چھا جاتی ہے تو یہ اللہ کو پکارتے ہیں اپنے دین کو بالکل اسی کے لیے خالص کرکے ، پھر جب وہ بچاکر انہیں خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو ان میں سے کوئی اِقتصاد برتتا ہے (۵۷)، اور ہماری نشانیوں کا انکار نہیں کرتا مگر ہر وہ شخص جو غدّار اور ناشکرا ہے(۵۸)۔
لوگو! بچو اپنے رب کے غضب سے اور ڈرو اُس دن سے جبکہ کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے بدلہ نہ دے گا اور نہ کوئی بیٹا ہی اپنے باپ کی طرف سے کچھ بدلہ دینے والا ہو (۵۹) ہوگا۔ فی الواقع اللہ کا وعدہ (۶۰) سچا ہے۔ پس یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈالے (۶۱) اور نہ دھوکہ باز تم کو اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے پائے (۶۲)۔
اُس گھڑی کا علم الہ ہی کے پاس ہے، وہی بارش برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہاہے، کوئی متنفس نہیںجانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کس سرزمین میں اس کی موت آنی ہے، اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے (۶۳)۔ ع
سورۃ السجدۃ
 
Top