حسرت موہانی ترے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے۔ حسرت موہانی

ترے درد سے جس کو نسبت نہیں ہے
وہ راحت مصیبت ہے راحت نہیں ہے

جنون محبت کا دیوانہ ہوں میں
میرے سر میں سودائے حکمت نہیں ہے

ترے غم کو دنیا میں اے جان عالم
کوئی روح محروم راحت نہیں ہے

مجھے گرم نظارہ دیکھا تو ہنس کر
وہ بولے کہ اس کی اجازت نہیں ہے

جھکی ہے ترے بار عرفاں سے گردن
ہمیں سر اٹھانے کی فرصت نہیں ہے

یہ ہے ان کے اک روئے رنگیں کا پرتو
بہار طلسم لطافت نہیں ہے

ترے سرفروشوں میں ہے کون ایسا
جسے دل سے شوق شہادت نہیں ہے

تغافل کا شکوہ کروں ان سے کیونکر
وہ کہہ دیں گے تو بے مروت نہیں ہے

وہ کہتے ہیں شوخی سے ہم دل ربا ہیں
ہمیں دل نوازی کی عادت نہیں ہے

شہیدان غم ہیں سبک روح کیا کیا
کہ اس دل میں بار ندامت نہیں ہے

نمونہ ہے تکمیل حسن سخن کا
گہرباریٔ طبع حسرتؔ نہیں ہے

حسرت موہانی
 
Top