بلا عنوان ۔۔۔ دوئم ۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین


بلا عنوان


عید کی شاپنگ کے لئے بازار میں مٹر گشت کرتے کرتے مجھے معلوم ہی نہیں پڑا کہ میں بنا سحری کے روزے میں کم و بیش ڈھائی گھنٹے پیدل مارچ کر چکی ہوں، کبھی ایک دکان پر تو کبھی دوسری دکان پر، مگر مطلوبہ چیزوں کی فہرست میں کمی ہونے کے بجائے فہرست طویل پر طویل ہوتی جا رہی تھی۔ اس کی وجہ سادہ سی تھی، انھیں رمضان میں کمپنی کی جانب سے اعلی پرفارمنس پر اسپیشل بونس ملا تھا اور محبت کے ہاتھوں اور میری اداﺅں کے آگے بندی بن کر انھوں نے تقریبا تمام کا تمام ہی بونس میری اجلی ہتھیلی پر رکھ دیا تھا اور میرے پاس تو جیسے ایسا لگنے لگا تھا کہ گھر میں کچھ رکھا ہی نہیں ہے، نہ اعلی کپڑے، نہ آرائش و زیبائش کا سامان اور نہ ہی گھر کی سجاوٹ کے لئے کچھ موجود ہے گھر میں۔ میں نے دوسرے ہی دن شاپنگ پر جانے کا پروگرام ترتیب دیا اور اپنی چھوٹی بہن یعنی ان کی لاڈلی سالی افشین کو ساتھ لیکر طارق روڈ جا پہنچی۔ ڈرائیور ہمیں مین مارکیٹ پر اتار کر گاڑی ذرا فاصلے پر کھڑی کرکے انتظار کی گھڑیاں کاٹنے لگا۔ ہم دونوں بہنیں جیولری اور کپڑوں پر تبصرے کرتے ہوئے خوشی خوشی کبھی ایک دکان پرتو کبھی دوسری دکان پر جا پہنچتیں۔ ہمارے ہاتھوں میں وقت کے ساتھ ساتھ شاپنگ بیگ بڑھتے جا رہے تھے، آخر جب شاپنگ بیگ ہمارے ہاتھوں میں زیادہ ہوگئے تو میں نے ڈرائیور کو موبائل فون کرکے اس کو شاپنگ سینٹر تک بلایا تاکہ تمام سامان اس کے ہاتھ گاڑی میں رکھوا دیا جائے اور ہم بہنیں ایک مرتبہ پھر ہلکی پھلکی ہوکرخریداری میں لگ جائیں۔اس کام سے فارغ ہو کر ہم پھر شاپنگ میں مصروف ہو گئے، عصر گزر چکی تھی اب افطار کا وقت قریب آتا جا رہا تھا، ہم جیولری سے لیکر صوفوں کے کشن کور تک سب کچھ لے چکے تھے۔ عید آ نے سے قبل ہمارے چہروں پر عید کی خوشی دیدنی تھی۔ واپسی کا ارادہ ہوا تو ہم دونوں اس مخصوص جگہ پہنچ گئے جہاں ہم نے ڈرائیور کو بلانا تھا جو گاڑی کے پاس ہمارا انتظار کر رہا تھا۔

میں نے موبائل فون سے اس سے رابطہ کیا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگی۔ میری چھوٹی بہن کچھ تھکی تھکی نظر آ رہی تھی۔ شاید کمزوری کی وجہ سے، اس کا روزہ بھی تو نہیں تھا، یہ خیال آتے ہی میں نے پرس کھولا۔ اتنے میں ڈرائیور بھی گاڑی لیکر آ گیا۔ پاس ہی مٹھائی کی دکان سے گرم گرم سموسوں کی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے نگاہ دوڑائی تو مجھے دکان میں کولڈ ڈرنک سے بھرا ہوا فریج بھی نظر آیا اور میں کھل اٹھی۔ میں نے پرس میں سے سو سو کے نوٹ نکال کر ڈرائیور کودئیے اور اس کو گھر میں افطار کے لئے اور افشین کے لئے کچھ سموسے وغیرہ اور پینے کے لئے کولڈ ڈرنکس لانے کا کہا اور خود افشین کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ مٹھائی کی دکان پر رش تھا۔ میں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سائیڈ گلاس نیچے گرا دئیے تا کہ گاڑی سے گرم ہوا پاس ہو جائے اور پھر گاڑی کا اے سی چلایا جا سکے۔ ابھی پل ہی ہوئے تھے سکھ کا سانس لئے کہ گاڑی کی کھڑکی میں ایک میلی ہتھیلی آ ٹکی۔
”باجی بھوک لگی ہے۔۔۔ کچھ کھلا دو“
اور اس آواز کے ساتھ ہی میری خوشگوار سوچوں میں ناگوار احساس ابھر آ ئے، میں نے اپنے چہرے پر سجائے بلیک گلاسسز کو اپنی انگلیوں سے تھوڑا نیچے کرتے ہوئے تیز نظروں سے ہتھیلی پھیلانے والے کو دیکھا، وہ کوئی بارہ ،چودہ سال کا میلا ، کالا کلوٹا بچہ تھا۔ جس کا چہرہ لگتا تھا برسوں سے دھلا نہیں ہو۔ میں نے ذرا سختی سے کہا
” چلو ہاتھ پیچھے کرو، جہاں موقعہ ملتا ہے پہنچ جاتے ہو تم لوگ۔۔۔۔ ساری شاپنگ کا مزا خراب کر دیا، بھاگو یہاں سے۔۔۔“
میری بات سن کر اس نے اپنی ہتھیلی کو تھوڑا پیچھے کر لیا، اس سے قبل میں اس کو مزید ڈانٹتی ، افشین کو شوخی سوجھی اس نے اس کو مخاطب کیا
” اے ۔۔۔۔ شرم نہیں آ تی افطار سے پہلے کچھ کھائے گا، ایسا کیا تو یہاں جتنے بھی لوگ ہیں بہت مار لگائیں گے تجھے، پھر تو کہے گا باجی مار لگی ہے، اسپتال لے جاﺅ۔۔۔“
میں اس کی بات سن کر ایسے ہنس پڑی جیسے کوئی بہت عمدہ لطیفہ سنا ہو،اتنی دیر میں ڈرائیور بھی مطلوبہ سامان لیکر آ گیا ۔ اس نے سامان ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر رکھا اور بیک مرر سے میری جانب ایسے دیکھا جیسے گاڑی چلانے کی منظوری چاہ رہا ہو۔ میں اس کے اس انداز پر جھنجھلا گئی
”ارے۔۔۔ چلو ناں، اب کیا افطار یہاں ہی کروانا ہے“
میرے تیز لہجے پر اس نے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی اور ایک جھٹکے سے آگے بڑھائی، اس کے ساتھ ہی گاڑی کی کھڑکی سے اندر جھانکتے ہوئے ہاتھ کو ایک جھٹکا لگا، تکلیف سے نیم بند ہوئی ہتھیلی مکمل کھل گئی، اس بچے کے منہ سے آہ نکلی، جس کو نہ میں نے سنا اور نہ میری بہن نے۔ میرے کانوں میں تو اپنی چہیتی بہن کی آواز گونجی
”آپی سموسہ ، کولڈ ڈرنک تو دے دیں بھوک پیاس سے جان نکل رہی ہے“
اور میں نے یہ سنتے ہی اگلی سیٹ پر رکھے شاپر کی جانب ہا تھ بڑھا دئیے۔


س ن مخمور
امر تنہائی

 
Top