امن وسیم

محفلین
[ یہ آرٹیکل " ترجمہ قرآن ( فتح محمد جالندھری ) کے عرض ناشر ( ناصر محمود غنی ) سے لیا گیا ہے ]

الله تعالی قران کو بغیر سمجھے پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا ، اس بارے میں ایسی قرانی آیات پیش کی جاتی ہیں جن میں اس بات کو کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے:

ہر قوم میں اسی قوم کی زبان بولنے والا رسول بھیجا گیا تاکہ الله کا پیغام اچھی طرح سمجھا دیا جائے -

"اور ہم نے اپنا پیغام دینے کے لئے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے اس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے تاکہ وہ انہیں اچھی طرح کھول کر بات سمجھائے " ( ابراہیم ٤ )

" نماز اس وقت پڑھو جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو " ( النساء ٤٣ )

قران کریم کو سمجھ کر پڑھنے پر زور دینے کے لئے ایک لفظ (تقریبا ٢٠٠ سے زیادہ) بار دہرایا گیا ہے - اس لفظ کا مادہ ( ب - ی - ن ) ہے ، اس مادہ سے تین لفظ ایسے بنتے ہیں جن سے یہ بات بلکل واضح ہوجاتی ہے کہ قران کو بغیر سمجھ کر پڑھنا الله تعالی کی بہت بڑی نافرمانی ہے - وہ تین لفظ یہ ہیں

١- یبین : کھول کھول کر بات بتانا
٢- بینه : روشن
٣- مبین : واضح - کھلا

ان الفاظ کے حوالے سے چند آیات کے تراجم نوٹ فرمالیں تاکہ قران کو بغیر سمجھ کر پڑھنے والوں کو اس بات کا احساس ہو سکے کہ الله تعالی تو آپ کو بہت کچھ سکھانا اور بتانا چاہتا ہے اور آپ ہیں کہ کچھ سیکھنے اور سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں

"الله تمھارے لئے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے " ( النساء ١٧٦ )

"اور اس طرح ہم اپنی نشانیاں کھول کھول کر پیش کرتے ہیں تاکہ مجرموں کی راہ بالکل نمایاں ہو جائے " ( الا نعام ٥٥ )

قران تو ساری اقوام کے لئے ہدایت اور نصیحت کے طور پر نازل کیا گیا ہے ، لیکن ہے عربی زبان میں لہذا ہر قوم کو اس کی زبان میں ترجمه شدہ قران دینا اور خود اپنی زبان میں ترجمه شدہ قران پڑھنا الله تعالی کے قانون کے عین مطابق ہے۔

میں قران کریم کے ایک اور لفظ "قل" کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں - اس لفظ کے معانی ہیں "کہو ، بتا دو، اعلان کردو ، آگاہ کر دو، کہہ دو اور فرما دو

اور یہ لفظ قران کریم میں اس شکل میں ٣٣٢ بار آیا ہے اور تقریبآ ہر بار کوئی اہم حکم یا حکمت کی بات ، یا کسی اہم خبر سے آگاہ کیا گیا ہے ، نمونے کے طور پر چند آیات ملاحظہ فرمائیں ؛

"اے نبی ان سے کہو میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس الله کے خزانے ہیں - نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں - میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے - پھر ان سے پوچھو کیا اندھا اور آنکھوں والا دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ کیا تم غور نہیں کرتے " الانعام ٥٠

" (ان سے) کہو یہ ایک بڑی خبر ہے ، جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو " (ص ٦٨ - ٦٧)

"کہو الله ہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا ، تم کو دیکھنے اور سننے کی طاقتیں دیں اور سوچنے سمجھنے والے دل دیئے مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو " ( الملک ٢٣ )

کیا جو لوگ قران کو بغیر سمجھے پڑھ رہے ہیں وہ واقعتا الله نے "دیکھنے اور سننے اور سوچنے سمجھنے کی جو نیمتیں دی ہیں ان کی ناشکری نہیں کر رہے - اور الله تعالی نے جو اپنے نبی کو بار بار یہ کہا ہے کہ ان کو بتا دو ، ان سے کہہ دو، ان کو خبر دار کر دو". تو جو لوگ قران کریم کو سمجھ کر ہی پڑھنے کے لئے نہیں مانتے ، وہ دراصل الله تعالی نے جو اپنے نبی کی پیغام پہنچانے کی ڈیوٹی لگائی تھی اس کو پورا ہونے دینے میں رکاوٹ بن گئے ہیں، اور سمجھ یہ رہے ہیں کہ وہ قران کو بغیر سمجھ کر پڑھ کر بڑا ثواب کما رہے ہیں - جبکہ الله تعالی کا فرمان ہے کہ ؛

"اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم کی آگ کے لئے پیدا کیا ہے - (کیونکہ ) ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں - ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں - ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں - وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے یہوہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھو گئے ہیں " ( الاعراف ١٧٩ )

ابھی آپ نے لفظ قل کے بارے میں آیات کے تراجم ملاحظہ فرمائے جن میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کو لوگوں کو اپنا کلام سنانے کا حکم دیا ، اب آپ ایک دوسرے لفظ کے بارے میں اس بات کو جانیں کہ لوگ بھی آپ سے سوال کرتے تھے، جن باتوں کا آپ کو علم نہ ہوتا الله تعالی وحی کے ذریعے اس کا جواب نازل فرماتا - ان آیات کا آغاز اس لفظ سے ہوتا ؛ یسلونک ( آپ سے پوچھتے ہیں یا سوال کرتے ہیں )

"اور پوچھتے ہیں : (الله کی راہ میں) کیا خرچ کریں کہو جو تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو (وہ خرچ کردو) اس طرح الله تمھارے لئے صاف احکام بیان کرتا ہے ، شاید کہ تم (دنیا اور آخرت دونوں کی) فکر کرو " ( البقرہ ٢١٩ )

"یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ (کہو) اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے - اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا - آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا - وہ تم پر اچانک آجائے گا - یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تم اس کی کھوج میں لگے ہو - کہو اس کا علم تو صرف الله تو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں " ( الاعراف ١٨٧ )

اب ہم قران کریم کی چند مزید صفات کے حوالے سے اس بات کو اجاگر کرتے ہیں کہ قران کو بغیر سمجھے پڑھنا کتنا خسارے کا معاملہ ہے -

الفرقان : حق اور باطل میں فرق کرنے والا
"نہایت بابرکت ہے وہ الله جس نے یہ فرقان (حق اور باطل میں فرق کرنے والا قران) اپنے بندے (محمد) پر نازل کیا تا کہ سارے جہان والوں کے لئے خبردار کردینے والا ہو " ( الفرقان ١ )

الہدیٰ : مکمل رہنمائی و ہدایت

"حقیقت یہ ہے کہ یہ قران وہ راہ دکھاتا ہے جو بلکل سیدھی ہے جو لوگ اسے ماں کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے - اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں خبر دیتا ہے کہ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے -" ( بنی اسرائیل ٩ - ١٠ )

احسن الحدیث : بہترین کلام یا خوب صورت بات چیت

"الله نے بہترین کلام اتارا ہے، ایک ایسی کتاب جس کے تمام اجزا ہم رنگ ہیں اور جس میں بار بار مضامین دہرائے گئے ہیں - اسے سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے جو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں ، اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر الله کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں " ( الزمر ٢٣ )

احسن تفسیرا : بہترین انداز میں اپنی بات کھولنے والی کتاب - بہترین تفسیر

"اور منکرین کہتے ہیں کہ اس شخص پر سارا قران ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا ؟ ہاں ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمھارے ذہن نشین کرتے رہیں ، اور اسی غرض کے لئے ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی اور اس میں یہ مصلحت بھی ہے کہ جب کبھی وہ تمھارے سامنے کوئی نرالی بات یا عجیب سوال لے کر آئیں تو اس کا ٹھیک جواب بروقت ہم نے تمہیں دے دیا اور بہترین طریقے سے بات کھول دی " ( الفرقان ٣١ - ٣٣ )

الذکر : نصیحت ، یاد دہانی

" یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تا کہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے نصیحت حاصل کریں " ( ص ٢٩ )

الامثال : تمثیلی انداز میں باتیں بتانا تا کہ لوگ غور کریں

" یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لئے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت) پر غور کریں " ( الحشر ٢١ )

زادتھم ایمانا : ایمان میں اضافہ کرنے والا

"سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل الله کا ذکر (قران) سن کر لرز جاتے ہیں - اور جب الله کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر توکل و بھروسہ کرتے ہیں " ( الانفال ٣٠ )

ذرا چند ساعت اس بات پر غور فرمائیں کہ کیا بغیر سمجھے قران پڑھتے ہوئے کبھی آپ میں یہ کیفیت پیدا ہوئی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے ؟ رمضان المبارک میں پورا قران سنا اور سنایا جاتا ہے مگر آپ جانتے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والوں میں سے کسی میں بھی نہ ایمان کا اضافہ ہوتا ہے اور نہ کسی میں الله کا خوف پیدا ہوتا ہے ، الا ماشاء الله

یسرنا القران للذکر : نصحت حاصل کرنے کے لئے قران بلکل آسان ہے

"اور بلا شبہ ہم نے اس قران کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان ذریعہ بنا دیا ہے ، پھر کیا کوئی ہے نصیحت قبول کرنے والا ؟ ( القمر ١٧، ٢٢، ٣٢، ٤٠ )

اس آیت پر بھی اچھی طرح غور فرمائیں کہ الله تعالی تو اس بات کا اعلان چار بار فرما رہا ہے کہ قران سمجھنے کے لئے بلکل آسان ہے اس سے نصیحت حاصل کرنا کچھ دشوار نہیں ہے - مگر اس کے باوجود ایک کثیر مذہبی طبقہ ایسا ہے جو لوگوں کو قران کا ترجمہ پڑھنے سے بڑی شدت کے ساتھ منع کرنے پر ڈٹا ہوا ہے ، کیونکہ ان کے "بزرگ" ان کو اسی بات کا حکم دیتے ہیں - اور ان کتابوں پر جمے ہوئے ہیں جو ان کے "بزرگوں" نے لکھ رکھی ہیں، کیا ان لوگوں پر قران کی یہ آیت صادق نہیں آتی -

"انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو الله کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے " ( التوبہ ٣١ )

یعنی جس کو وہ حلال کہہ دیں وہی ان کے لئے حلال ہے اور جس کو وہ حرام کہہ دیں وہی ان کے لئے حرام ہے، الله تعالی کا حلال اور حرام کے بارے میں کیا حکم ہے اس کو وہ خاطر میں نہیں لائیں گے - (ایک حدیث کا مفہوم )

ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے -

"کیا ان لوگوں نے قران پر غور و فکر نہیں کیا ، یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں" ( محمد ٢٤ )

ذکر کم - اس میں انسان کا ذکر ہے قران کا موضوع انسان ہے

"لوگو ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے" ( الانبیا ١٠ )

کتنی عجیب بات ہے کہ الله تعالی اپنی کتاب کا مرکزی موضوع انسان کو قرار دے رہا ہے، یہ الله تعالی کی انسان سے محبت کی انتہا کا بیان ہے اور اس سے بھی نرالی بات یہ ہے کہ انسان اس کتاب کو بغیر سمجھے ہوئے پڑھے جا رہا ہے جس میں اسی کے بھلے اور فائدے کی باتیں ہیں - اور وہ ان کو جاننے کی خواہش بھی دل میں پیدا نہیں ہونے دیتا - ایسے ہی لوگوں کے بارے میں انسان سے بے انتہا محبت کرنے والا الله فرماتا ہے کہ ؛
"جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے الله ان پر گندگی ڈال دیتا ہے" ( یونس ١٠٠ )

آخر ہم اپنی عقل کو قران مجید سمجھنے کے لئے کیوں استعمال نہیں کرتے ؟ جب کہ دنیا کے فائدوں کے معاملے میں ہم مشکل زبانوں میں بڑی موٹی موٹی کتابوں پر بہت سا مال لگا کر بھی یہ جان لیتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے اور پھر بڑی محنت کر کے ان کا امتحان بھی دیتے ہیں

اتل ما اوحی الیک ؛ پڑھ کر سناؤ جو تمہاری طرف وحی کیا گیا ہے

"اور (اے نبی) تمھارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو کوئی اس کی باتوں کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے اور تم اس کے سوا کہیں کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے - ( کہف ٢٧ )

پڑھ کر وہی تحریر سنائی جاتی ہے جو سمجھ میں آتی ہو، اگر آپ کسی مجمع یا محفل میں ایسی زبان میں تقریر شروع کردیں جو حاضرین کو نہ آتی ہو تو وہ آپ کی طرف توجہ نہ دیں گے اور محفل سے اٹھ کر چلے جائیں گے -

مزید دیکھیں کہ الله تعالی اپنے رسول کو کس قدر تاکید کے ساتھ سارے کا سارا کلام لوگوں کو سنا دینے کا حکم فرما رہا ہے اور ساتھ ہی اس کلام کی دو صفات کا ذکر فرما رہا ہے ، ایک یہ کہ اس کی باتیں تبدیل نہیں ہوسکتیں یعنی جو وعدے اس میں کیے گئے ہیں وہ لازمی طورپر پورے ہونگے ، دوسری یہ کہ ہدایت کے لئے قران کے سوا ہمیں اور کہیں بھی پناہ نہیں مل سکتی - جب صورت حال یہ ہے تو پھر ہمیں سب سے پہلے قران کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کا آغاز کردینا چاہیے ورنہ ایسا نہ ہو کہ روز قیامت ہمارا شمار ان لوگوں میں ہو جن کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے؛

"ہر بار جب کوئی گروہ اس میں ڈالا جائے گا، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ' کیا تمھارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ وہ جواب دیں گے ' ہاں خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیا تھا مگر ہم نے اسے جھٹلا دیا اور کہا الله نے کچھ نہیں نازل نہیں کیا ،، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو، اور وہ کہیں گے ' کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں شامل نہ ہوتے" ( الملک ٨ - ٩ )

"یہاں تک کہ جب سب آجائیں گے تو (ان کا رب ان سے) پوچھے گا کہ تم نے میری آیات کو جھٹلا دیا تھا حالانکہ تم نے اس کا علمی احاطہ نہ کیا تھا ؟ اگر یہ نہیں تو پھر تم کیا کر رہے تھے " ( النمل ٨٣ )

"جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، حالانکہ ہم انہیں سب انسانوں کی رہنمائی کے لئے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں یقین جانو کہ الله بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں ، البتہ جو اس روش سے باز آجائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے ، اسے بیان کرنے لگیں ، ان کو میں معاف کردونگا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں " ( البقرہ ١٥٩ - ١٦٠ )

"اور جو (شخص) رحمن کے ذکر (قران) سے غفلت برتتا ہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے ، اور یہ شیاطین ایسے لوگوں کو سیدھی راہ پر آنے سے روکتے ہیں اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہدایت یافتہ ہیں ، آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب جتنی دوری ہوتی تو تو بدترین ساتھی نکلا " ( الزخرف ٣٦ - ٣٨ )

مسلمانوں کے لئے قران مجید دنیا میں سب سے قیمتی سرمایہ ہے

الله کی آیات کو مال کمانے کی غرض سے نہ چھپاؤ

"تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو اور میری نافرمانی سے بچو ، باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو " ( البقرہ ٤٠ - ٤١ )

اس وقت قران کی تعلیم میں رکاوٹ بننے والا سب سے بڑا طبقہ نام نہاد اور جعلی مولویوں اور پیروں کا ہے جو لوگوں کو قران کا ترجمہ پڑھنے سے روک رہا ہے - ایسے کیوں ہے ؟ اس کا جواب آپ الله کے قران سے ملاحظہ فرمالیں ؛

"ایے لوگو جو ایمان لائے ہو حقیقت میں اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں الله کی راہ سے روکتے ہیں، دردناک سزا کی خوشخبری دو ان کو جو سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں الله کی راہ میں خرچ نہیں کرتے" ( التوبہ ٣٤ )

الله کی راہ سے روکنے سے مراد ہے کہ الله کے کلام کی طرف آنے ہی نہیں دیتے، سو سو طرح کے وسوسے ڈالتے ہیں، اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو پڑھنے پر زور دیتے ہیں، اور قران کو سمجھ کر پڑھنے سے روکتے ہیں - آج ہر طرف ہزاروں روپے دے کر مولوی صاحب کو تقریر کے لئے بلایا جاتا ہے اور مولوی صاحب اپنے مسلک کے مطابق تقریر سنا کر اپنی جیب گرم کرتے ہیں اور لوگوں میں مزید تفرقہ ڈال کر اپنی راہ پکڑتے ہیں - جبکہ قران تفرقہ بازی ختم کرنے کے لئے نازل ہوا تھا اور حکم ہوا تھا کہ،
"سب مل کر الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقے میں نہ پڑو - کہیں تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے اور کھلی کھلی واضح ہدایت پانے کے بعد پھر اختلافات میں مبتلا ہوئے جنھوں نے یہ روش اختیار کی وہ اس روز سخت سزا پائیں گے" ( آل عمران ١٠٣ - ١٠٥ )

اگر ہم نے قران کو مضبوطی کے ساتھ نہ پکڑا اور اس کی تعلیمات کو خود اور اپنی نسل اور قوم کو یاد نہ کروایا تو ہمارا انجام دنیا اور آخرت میں بد سے بدتر ہوتا جائے گا - اور روز قیامت الله کے رسول ہمارے اس حال کی صرف ایک ہی وجہ بتائیں گے اور وہ یہ ہوگی ؛

"اور پیغمبر فرمائیں گے کہ ' اے میرے رب یقینآ میری قوم کے لوگوں نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا " ( الفرقان ٢٩ )

الله تعالی ہم سب کو قرآنی تعلیمات کو سمجھنے اس پر عمل کرنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے ۔

آمین
 
آخری تدوین:
Top