ایک کہانی (شیخ بنوری ٹاون دویم) - قسط 28

سید رافع

محفلین
شیخ بنوری ٹاون دویم- ایک کہانی


لڑکا ایک صبح بنوری ٹاون کی ایک مسجد پہنچتا ہے۔

یہاں اس سے قبل بھی وہ آیا تھا لیکن اس وقت اس نے رفع رنجش کی دستاویز انگریزی میں لکھی تھی۔

استقبالیہ پر موجود ایک نو عمر شیخ نے انگریزی کی دستاویز پڑھی اور وصولی کی ایک رسید لڑکے کو دے دی۔

اس رسید کو دکھا کر لکھا ہو ا جواب کچھ دنوں بعد حاصل کیا جا سکتا تھا۔

آج لڑکا انگریزی سے اردو ترجمہ کر کے کم و بیش آدھی درجن لوگوں کے ساتھ دوبارہ استقبالیہ پر بیٹھا ہوا تھا۔

لڑکے کا نمبر آتا ہے اور قبائلی علاقہ جات سے آئے ہوئے نوعمرشیخ کو بعد از سلام لڑکا اپنا مدعا عرض کرتا ہے۔

شیخ کہتے ہیں ہم نے تو اس کا اردو ترجمہ کر لیا ہے جس پر جواب دیا جائے گا۔

لڑکا عرض کرتا ہے کہ اسکا ترجمہ استعمال کر لیا جائے تو کیا ہی اچھا ہو گا۔

شیخ اس بات کو کچھ رد وکد کے بعد قبول کر لیتے ہیں۔ ظاہر ہے ترجمہ کرنے میں ان کا وقت صرف ہوا تھا سو اب یہ نیا قصہ انکے لیے گراں تھا۔

آج کافی عرصے بعد وہ یہاں دوبارہ آیا تھا تاکہ اس اردو ترجمہ پر جواب حاصل کر سکے۔

نوعمر شیخ لڑکے کو شیخ بنوری ٹاون دویم کے سامنے لے جا کر بیٹھا دیتے ہیں۔

یہ با عمر شیخ تھے جن کو بعد میں طارق روڈ پر قتل کیا گیا۔

لڑکا شیخ کو سلام کرتا ہے۔ شیخ اپنی پیرانہ سالی کے باعث آہستہ حرکت کرتے تھے ۔ وہ ترمذی شریف اور ہدایہ کے استاذ تھے۔

ہدایہ حنفی مسلک کی ایک مقبول کتاب ہے جو امام مرغینانی نے تصنیف فرمائی۔ا امام مرغینانی ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی اولاوں میں سے تھے۔

کتاب عقلی دلیلوں سے بھری ہے۔حنفی اور دیگر ائمہ کے مقلدین پر عقلی دلیلوں کا غلبہ ابوالحسن اشعری کے معتزلہ کا فلسفیانہ فرقہ ترک کرنے اور شافعی مذہب اختیار کرنے سے ہوئی۔

معتزلہ حکومت میں رہے اور چاروں ائمہ کی زندگی تنگ کر کے رکھی یہاں تک کہ امام حنبل رحمہ اللہ کو خلق قرآن کی فلسفیانہ بحث پر کوڑے لگوائے۔

آج تمام حنفی مسلمان عقائد میں ابوالحسن اشعری شافعی رحمہ اللہ اور ابومنصور ماتریدی حنفی رحمہ اللہ سے لیتے ہیں اور فقہ میں امام ابو حنیفہ کی تقلید کرتے ہیں۔

شیخ سیدھی سادی طبعیت کے مالک تھے اور ہمیشہ لڑکے سے مسکرا کر بات کرتے۔

انکے آباو اجداد محمد بن قاسم کے ساتھ حجاز سے ہند آئے تھے اور پھر یہاں کے ہی ہو کر رہ گئے۔

محمد بن قاسم نے آج سے قریبا تیرہ سو برس قبل سمندری راستوں سے مسلمان مردوں اور عورتوں کو قید کرنے پر راجہ داہر سے جنگ کی۔

محمد بن قاسم محض سترہ برس کے تھے لیکن انکی ذہانت اوررواداری سے سندھ سے لے کر ملتان، سب مسلمانوں کے زیر اطاعت آ گیا۔

لڑکا بارہا شیخ سے ملا لیکن کبھی ان کو تندی کی حالت میں نہیں پایا۔

ایک دفعہ لڑکا انکے پاس سید اسماعیل شہید سے متعلق ایک باب پڑھ کر پہنچا۔

لڑکے نے سید اسماعیل شہید کی سیرت پر عمل کرنے کو کہا تو شیخ کچھ زیادہ خوش نہ ہوئے اور ان جذبات کو زمانے سے متعلق نہ پایا۔

ایک دفعہ لڑکا شیخ کی محفل میں داخل ہوتے ہوئے ذرا قدم اور نظروں میں توازن نہ رکھا سکا تو اپنے بجائے دوسرے کسی اورکی طرف بیٹھا دیا۔

یہ گویا سرزنش تھی۔

شیخ نے لڑکے کو مسکراتےہوئے سلام کا جواب دیا اور کہا آپ نے جو دستاویز لکھی ہے وہ ہم نے پڑھ لی ہے اور دعا ہے کہ اللہ آپ کو اسکا اجر دے۔

لڑکا اب تک مسئلے کو محض علماء کی علمی رنجش سمجھ رہا تھا حالانکہ یہ خشک سالی صدیوں سے دریا کے قطرہ قطرہ بھانپ بن کر اڑنے سے ہوئی تھی۔

جب لڑکا کئی دفعہ اصرار کرتا ہے اور شیخ وہی جواب دیتے ہیں تو بالآخر شیخ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ہمارے بڑے ہیں آپ ان سے مل لیں۔

یہ بات سن کر لڑکا نوعمر شیخ کو سلام کرتا ہے جو لڑکے اور شیخ کبیر کے درمیان نشست کیے ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی شیخ کبیر کو بھی رخصتی سلام ہوتا ہے اور یوں یہ مجلس اختتام کو پہنچتی ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک صبح شیخ بنوری ٹاون سویم کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
Top