ایک کہانی (شیخ اول بنوری ٹاون) - قسط 19

سید رافع

محفلین
شیخ اول بنوری ٹاون - سو لفظوں کی کہانی


ایک صبح لڑکا بنوری ٹاون میں موجود ایک مسجد پہنچتا ہے۔

لڑکا اپنے والدین سے علحیدہ طارق روڈ میں ایک مکان میں اپنی دلہن کے ساتھ منتقل ہوگیا تھا۔

نوکری اور عام مردوں سے تعلقات نے لڑکے پر یہ واضح کر دیا تھا کہ علم کی کمی لوگوں کو طرح طرح سے بھٹکا رہی ہے۔

چنانچہ اسکے ذہن میں کسی مدرسے میں منتقل ہونے کا خیال آیا۔

عام دینی مسائل کے حل کے لیے لڑکے کا بارہا اس مدرسے آنا ہوا تھا۔

مدرسے کا ماحول انتہائی سادہ تھا۔

کثیر علم سے لبریز علماء بھی زمین پر نشست و برخواست کرتے اور چند ہی لمحوں میں بڑی سے بڑی الجھن رفع کر دیتے۔

انکا انداز گفتگو دھیما، بے لاگ اور ڈر سے خالی ہوتا۔

اس مدرسے کے بانی سادات حسینی سے تھے۔

ان کا نسب سید آدم رحمہ اللہ اور امام حسین علیہ السلام سے ہوتے ہوئے جناب حیدر کرار علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتا۔

بے انتہا متوکل، سیاست اور شہرت سے دور علم حدیث سکھانے میں مشغول رہتے۔

لڑکا انکے بیٹے سے ملنے گیا تھا۔

یہ سب نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ تھے ۔

ان کا سلسلہ سید آدم رحمہ اللہ سے ہوتے ہوئے مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے جا ملتا۔سید آدم رحمہ اللہ مجدد الف ثانی کے اجل خلفاء میں سے تھے۔ مجدد الف ثانی بادشاہ اکبر کے دین اکبری کا رد و مقابلہ کرنے کے باعث مشہور ہوئے۔

بانی بنوری ٹاون نے سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے اکتساب فیض کیا تھا جن کا شجرہ امام حسین علیہ السلام سے جا ملتا تھا۔ سید حسین احمد مدنی اپنے شیخ محموالحسن رحمہ اللہ کے ساتھ برطانوی راج کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اسیر مالٹا ہوئے۔

لڑکا دار الفتاء سے چند قدم دور ایک بڑے کمرے میں شیخ بنوری ٹاون اول کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ اس کمرے میں مدرسے کے منتظمین تشریف رکھتے تھے۔

علماء کا یہ سلسلہ ایک تاریخ رکھتا ہے۔

عا لمی بینکرزبرطانیہ کیتھولک چرچ سے بغاوت کی پروٹیسٹنٹ تحریک کامیاب کرا چکے تھے۔

انقلاب فرانس کے ذریعے یہی کام فرانس میں مکمل ہوا۔اور پھر امریکہ میں۔

پروٹیسٹنٹ عیسائی دنیا کے وہابی ہیں۔

انہوں نے پوپ کے بوجھل تحریف شدہ دین سے بغاوت کردی تھی اور کتاب کی تشریح خود کرتے ۔

بینکرز نے ان منحرف لوگوں کو سائنسدان بنایا اور طرح طرح کی مشینیں اور ہتھیار بنانے میں استعمال کیا۔

ان اقوام کو دین سے مذید دور کرنے کے لیے جنس پرستی کو عام کیا گیا یہاں تک کہ ان ممالک کی اسی فیصد آبادی حرامزادوں پر مشتمل ہے۔

سو زنا اور قتل ان اقوام کا مزاج بن گیا ہے۔

ان اقوام میں ایسی عورتیں ہیں جو بے حیائی میں صف اول پر ہیں۔ اور ایسے مرد ہیں جو سنگ دلی سے قتل کرنے میں صف اول پر ہیں۔

بینکرز کو پتہ چل گیا تھا کہ جنگ اقوام کو سودی قرضوں میں پھسناتی اور انکا غلام بناتی ہے۔

سو جنگ عظیم اول شروع ہوئی۔

برطانوی راج جنگ عظیم اول میں بری طرح پھنس چکا تھا۔

قریبا ایک کروڑ لوگ جان بحق ہو چکے تھے۔

راج برطانیہ اور فرانس کی اتحادی افواج کو گندم اور افراد سارے ہند سے پہنچ رہے تھے۔ لیکن پنجاب اور بنگال میں راج کے خلاف تحریکیں چل رہیں تھیں۔

پنجاب میں صورتحال تیزی سے بگڑ رہی تھی۔

سرحدی علاقوں ، قبائل اور افغانستان کا حال یہ تھا کہ وہاں راج برطانیہ کی ایک نہ چلتی تھی۔

کمزور ہوتے راج برطانیہ نے ان تحریکوں کو قابو کرنے کے لیے کالا قانون نکالا جس کا نام رولٹ ایکٹ تھا۔

قانون کے تحت کسی کو غداری کے شک کی بنیاد پر جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔

اسی دوران پنجاب کے شہر امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جرنل ڈائر نے قریبا چار سو لوگوں کو ایک جلسہ گاہ میں قتل کیا۔

مسلمان، ہندو، سکھ، بچے، عورتیں، بوڑھے سب مارے گئے۔

آج بھی اگر پاک وہند کے لوگوں میں فاصلے کم ہوں تو انکے اصل دشمن راج برطانیہ سے مقابلہ ممکن ہو اور اس خطے کے خوشحالی کا دور دورہ ہو۔

اس بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے شیخ مولانا محموالحسن کے ساتھ مکہ گئے ۔

وہ سلطنت عثمانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہتے تھے جو کہ راج برطانیہ کا دشمن تھا۔

اپنے ایک رفیق عبد اللہ سندھی کو افغانستان بھیجا کہ فوجی امداد حاصل ہو۔ انہوں نے وہاں سے زرد رنگ کے تین ریشمی رمالوں پر خط ہند روانہ کیے۔

لیکن غداری ہوئی اور رمال پکڑے گئے۔

مکہ میں بھی عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کی۔

سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ اپنے شیخ مولانا محموالحسن بغاوت کے جرم میں پکڑے گئے اور مالٹاکے جزیرے بھیج دیے گئے۔

مالٹا آج کے گوانتاناموبے کے جزیرے کی طرح ہے۔

بانی بنوری ٹاون کی مردان کے نزدیک پیدائش ، پشاور میں تعلیم کے علاوہ سرحدی علاقوں اور افغانستان سے تعلق کی ایک وجہ یہ تاریخ بھی ہے۔

مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سےگہرے تعلق کی وجہ سے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص شغف تھا۔

اسکے علاوہ والد گرامی طبیب تھے اور خوابوں کی تعبیر کا علم جانتے تھے سو یہ علوم گھر سے ہی مل گئے۔

دس لڑکوں کے ساتھ قرضہ لے لے کر مدرسے کو شروع کیا تھا۔

شیخ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔

وہ ایک نوجوان تھے۔

لڑکے سے مصافحہ کرنے کے بعد کہا کہ آپ ملاقات کرنا چاہ رہے تھے۔

لڑکا کہتا ہے جی۔ بات یہ ہے کہ میں لوگوں سے تعلق میں دین کا نقصان پاتا ہوں۔

لڑکا مذید اپنے ذاتی اور نوکری کے حالات کا تذکرہ کرتا ہے ۔

لڑکا کہتا ہے کہ کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ میں درس نظامی کی تعلیم میں مصروف ہو جاوں تاکہ نیک صحبت میسر آئے۔

شیخ بے لاگ جواب فورا دیتے ہیں۔ یہاں بھی لوگ ویسے ہی ملیں گے۔

لڑکے کے پاس اب کہنے کو کچھ نہ تھا سو شیخ سے رخصت کا مصافحہ کیا۔



منظر تبدیل ہوتاے لڑ کا یہودی مستشرق ڈینیل پائپ کو رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ سے متعلق تفصیل سے لکھتا ہے۔

- میاں ظہوری
 
Top