ایک کہانی (شیخ احسن رب میڈیکل ) - قسط 24

سید رافع

محفلین
شیخ احسن رب میڈیکل - ایک کہانی


شیخ احسن ہر سال کی طرح عمرہ کر کے آ چکے ہوتے ہیں اور شعبان سے ہی تین گھنٹے کا درس قرآن روز دے رہے تھے۔

وہ مولانا بنوری کے شاگرد اور مولانا انور شاہ کشمیری کی طرز پر یہ درس دیتے۔

لڑکا کئی سال ان دروس میں شریک رہا۔

کئی ہزار طالب علم اور شہری اس درس میں شریک ہوتے۔

اونگتے ہوئے طالب علم کی کمرپر مسجد میں گھومتے نگران دوہتھڑرسید کرتے۔

دینی، سیاسی اور عام زندگی کے مسائل سبھی قرآن کی تفسیر کے ذیل میں آ جاتے۔



عام دنوں میں شب جمعہ کو بعد از عشاء تصوف کی تعلیم دیتے اور نوک والی خانقاہی ٹوپی پہنتے۔

وہ افغان جہاد کے حامی، مزاروں پر کی جانے والی ناشائستہ حرکتوں کے خلاف اور ظاہر شریعت میں حد درجے شدت رکھتے تھے۔

برملا اسلامک بینکنگ، سیاسی لوگوں اور اپنی دینی تعبیر سے مختلف لوگوں کا تمسخر اڑاتے۔

چند مسائل میں عام علماء سے مختلف رائے تھی۔ الٹے ہاتھ پر تسبیح سے منع کرتے۔

مغرب کی سنتوں سے پہلے کسی کو تسبیح پڑھتا دیکھ لیں تو سختی سے منع کرتے، بے داڑھی والے کو پہلی صف سے پیچھے بھیج دیتے ۔

قمیض کے کاج انگریزوں کی مخالفت میں دائیں کو بائیں تہہ کے اوپر رکھنے پرگرفت کرتے۔

وہ بعد از نماز جمعہ لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے۔ لڑکے نے بھی بارہا کاغذ کی پرچی پر سوال لکھ کر دیے اور جواب حاصل کیے۔

کیونکہ ایک طبقہ سے سخت مخاصمت تھی سو انکے مدرسے کے کئی طالب علم اور استاذہ قتل ہوئے۔

خوابوں کی تعبیر بھی بتاتے سو ایک دفعہ لڑکے نے ایک خواب کی تعبیر بھی ڈرتے ڈرتے بل مشافہ پوچھی۔وہ جلد غصہ میں آجانے والے تھے۔

وہ اکثر اظہار کرتے کہ لوگوں کی تربیت سخت مشکل کام ہے۔ دین کے بلند احکامات میں نرمی کے ساتھ چلنا انکو سخت دشوار معلوم ہوتا۔



شیخ سادہ طبعیت کے تھے۔

کبھی اپنی مسجد کے چوکیدار کے بارے میں کہتے کہ یہ آٹھ گھنٹے سوتا ہے۔کبھی طالب علم کے لائے ہوئےقندھاری سے دو گلاس جوس نکالنے کا تذکرہ ۔کبھی طالب علم کے لائے ہوئے پچیس کلو شہد کا تذکرہ۔ ایک ارب پتی صنعت کار سے مہر کروڑہا روپے طے کرائے ۔ اکثر عرب شریف میں اپنے دیوانوں کا تذکرہ جو عمرے کے لیے بلاتے۔ اپنی جوانی اور طالب علمی کے دور کا محض کتابوں میں گزر جانے کا تذکرہ کرتے کہ اپنے اصل وطن سے دور اور کراچی کے رشتے دار انکے آنے سے زیادہ خوش نہ ہوتے۔

لڑکا بعداز سلام شیخ کی خدمت میں ایک ہاتھ سے لکھا ورق حوالے کرتا ہے۔

شیخ سے مصافحے کی نوبت کبھی نہ آئی۔

جوں جوں شیخ تحریر پڑھتے جاتے انکی ناگواری بڑھتی جاتی۔

لڑکے نے کاغذ پر تقویۃ الایمان کے دفاع سے دستبردار ہونے کے لیے کہا تھا اور اس پر وزارت مذہنی امور سے پابندی لگوانے میں معاونت کو کہا تھا۔

شیخ دائیں جانب ہوا میں ورق کوپھینکتے ہیں۔

لڑکے سے لاعلمی میں غلطی ہوئی کہ محض ایک کتاب جو وجہ نزع ہے صرف اسکا نام تحریر کیا۔

شیخ کی شریعت میں اس سختی کی ایک تاریخ ہے۔



شیخ نقشبندیہ سلسلے سے تھے جو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تک جاتا ہے۔

ابتداء میں صدیقیہ کہلاتا تھا یہاں تک کے سات سو برس قبل خواجہ بہاؤالدین نقش بندرحمہ اللہ ظاہر ہوئے اور یہ سلسلہ نقشبندیہ کہلایا۔

باقی باللہ رحمہ اللہ تعالی نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ تھے اور مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی کے شیخ تھے۔

باقی باللہ کابل میں پیدا ہوئے ۔

وہی کابل جہاں شیخ احسن نے کلاشنکوف سے حد جاری کرتے دیکھا تو منع کیا اور تلوار سے یہ کام بطریق سنت اپنی موجودگی میں کرایا۔

آج سے چار سو برس قبل بوجہ دین اکبری کے باقی باللہ نے مجدد الف ثانی اور شاہ عبدالحق محدث دہلوی کو تیار کیا کہ وہ شریعت کو واضح کریں جو معدوم ہوتی جا رہی تھی۔

اکبر نے سجدہ تعظیمی اختیار کیا، ہندو عورتوں سے شادی کی، سورج، درختوں اور جانوروں کی عبادت کو توحید کے ساتھ خلط ملط کیا اور جانوروں کو بطور غذا استعمال کرنا ممنوع ہوا۔

ہندوں اکثریتی علاقے پر مسلمان بادشاہ کو ہندووں کو راضی کرنا ضروری تھا۔

مجدد الف ثانی نے گوالیار میں قید ہونا منظور کیا لیکن بادشاہ جہانگیر کو سجدہ تعظیمی نہ کیا اور دین اکبری کا رد کیا۔

جہانگیر راہ راست پر آیا جس کی ماں جودھا بائی ایک ہندو عورت تھی۔ جہانگیر نے مجدد الف ثانی کو آزاد کیا۔

پھر شاہجہاں بادشاہ بنا اسکی ماں شہزادی مانمتی بھی ایک ہندو عورت تھی۔اسکے دور میں سکوں پر کلمہ لکھا جاتا، خوبصورت مقبرے بنائے جاتے۔

یہاں تک کہ اسکا بیٹا اورنگزیب بادشاہ ہوا۔

اس نے سجدہ ختم کیا اور سلام کا اسلامی طریقہ رائج کیا، فتوی عالمگیری شایع کرایا، خوبصورت مقبروں کی تعمیر روکی اور اسی نوع کی دیگر اسلامی اقدامات کیے۔

آج سے قریبا تین سو برس قبل ا ورنگ زیب کا بیٹا بہادر شاہ ظفر بادشاہ بنا لیکن اب مغلیہ سلطنت ختم ہونے جارہی تھی۔

مغل رشتے دار اور بھائی آپس میں بادشاہ بننے کے لیے خونریزجنگیں لڑتے سو اب زاول شروع ہوا۔

ہر طرف افراتفری تھی۔

کبھی سکھ، کبھی مرہٹے اور کبھی نواب مغل حکومت کو کمزور کرتے جا رہے تھے۔

حالات یہاں تک خراب ہوئے کہ مرہٹ ہندوں نے پاک و ہند کے اکثر علاقے فتح کر لیے اور ارادہ ظاہر کیا کہ شاہی مسجد دہلی کے منبر پر رام کی مورتی لگائیں گے۔

اس دور میں ایک اور نقشبدی بزرگ شاہ ولی اللہ ظاہر ہوئے۔

انہوں نے ایک افغانی بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو خط لکھا جس پر اس نے مرہٹوں کو شکست فاش دی۔

یعنی اب دور ایسا تھا کہ کفار ہر سو مسلمانوںپر حملہ آور تھے۔

شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ اسماعیل دہلوی نے ہی یہ کتاب تقویۃ الایمان لکھی تھی۔اس کتاب نے حنفی علماء کو دو واضح گروہوں میں منقسم کر دیا۔

شاہ اسماعیل دہلوی نے اپنے شیخ سید احمد بریلوی کے ساتھ مل کر سکھوں کے خلاف جہاد شمال مغربی سرحدی صوبے سے کیا۔

بہت سے علاقے فتح ہوئے اور وہاں اسلامی قوانین نافذ ہوئے۔

بالآخر آپ دونوں حضرات بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

مغلیہ سلطنت اور کمزور ہوئی یہاں تک کے انگریزوں کی آمد ہوئی۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں نے ڈیڑھ لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا۔

انگریز میجر ہڈسن نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے سب بچوں کے سر قلم کر کے تھال میں رکھ کر ان کے سامنے پیش کیے گئےاورگرم خون چلو بھر پیا۔

اسی سلسلے کے بزرگوں مولانا محمود الحسن اور مولانا سید حسین احمد مدنی نے انگریزوں کے خلاف تحریک ریشمی رومال شروع کی اور افغان فوجی مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن غداری ہوئی اور آپ دونوں بزرگوار مالٹا کے جزیرے میں اسیر کیے گئے۔



شیخ احسن اسی افغانی ، پشتون نقشبندیہ سلسلے کی ایک کڑی تھے۔

شیخ اپنے ایک مصاحب سے کہتے ہیں کہ یہ لڑکا ایجنٹ ہے۔

لڑکا پرچہ زمین سے اٹھاتا ہے اور مسجد سے باہر کی راہ لیتا ہے۔

بعد میں لڑکاکئی بار شیخ کے نائب سے ملتا ہے جو لڑکے سے محبت فرماتے۔

بالآخر لڑکے کو شیخ دوم کورنگی اسی دستاویز کے جواب میں ایک خط لکھتے ہیں جس میں وہ لڑکے کی خیر خواہی کے لیے لکھتے ہیں۔

اس کی ایک کاپی لڑکا شیخ احسن تک ان کے نائب کے توسط سے پہنچاتا ہے۔

اس خط کے بعد شیخ لڑکے سے راضی ہوکر اپنے ساتھ بیٹھاتے ہیں اور ہر سوال کا خوشی خوشی جواب دیتے ہیں۔

لڑکا شیخ سے دستاویز کے علاوہ دیگر موضوعات جیسے خطابت کے متعلق دریافت کرتا ہے تو فرماتے ہیں کہ قلب میں قوت ہونی چاہیے۔

دستاویز کی بابت وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ عالم نہیں سو شیخ ایف بی ایریا 15 سے کہیں کہ وہ یہاں آجائیں تا کہ بات علماء کے درمیان ہو جائے۔

لڑکا شیخ ایف بی ایریا 15 کا کلام پہلے ہی سن چکا ہوتا ہے کہ شیخ گارڈن سے رجوع کریں کہ وہ ہمارے بڑے ہیں۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا ایک شام شیخ گارڈن کے پاس پہنچتا ہے۔

میاں ظہوری-
 
Top