ایک کہانی -(رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ )- قسط 20

سید رافع

محفلین
رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ - سو لفظوں کی کہانی


لڑکا یقین رکھتا تھا کہ سورہ الحجر کے لَحَافِظُوْنَ سے قرآن کی حفاظت ہوئی تو سورہ الکوثر کے انا شائنک ھو الا بتر سے اللہ نے رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو برباد کرنے کا وعدہ لیا۔

سو لڑکے کا کام اب محض اس نعمت اسلام میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ لینا رہ گیا۔

جن کاموں کی ذمہ داری اللہ نے لی وہ کیونکر اپنے ذمے لے سکتا تھا۔

ہاں البتہ یاد دھانی اس کی ذمے داری ٹہری۔

لڑکا ڈینیل پائپ کوتفصیلی لکھتا ہے کہ وہ کیسے سوچتا ہے۔

ڈینیل نے ملکہ برطانیہ کے رشدی کو سر کا خطاب دینے کی تائید کی اور کہا کہ وہ ایک عمدہ ناول نگار ہے۔

لڑکا اپنا تعارف کراتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ کراچی پاکستان سے تعلق رکھتا ہے۔

وہ طالب علم ہے اور اس موضوع پر بات کرنے کا اہل نہیں لیکن اس کااس واقعے پر ا یک نقظہ نظر ہے جس سے اس سمیت دنیا بھر کے مسلمان غم زدہ ہوئے۔

لڑکا ابتدائی وضاحت کرتا ہے۔

میری سطحی مسئلے اور چہروں پر بات کی ذرا بھی خواہش نہیں۔

مثلا رشدی، تسلیمہ نسرین، امینہ ودود، جے لینڈ پوسٹن اور پوپ بینڈکٹ۔

لیکن میں شدید خواہش مند ہوں کہ ہم مسئلے کی جڑ پر بات کریں تاکہ سمجھیں اور حل کریں۔

لڑکا اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ بہت سے انسان شیطانی اغواء کا شکار ہوگئے ہیں سو وہ اسکے برعکس اغواء کی جدوجہد کر رہا ہے۔

وہ کہتا ہے ،اور میرا مقصد محفوظ طریقے سےعلمی اغواء کرنا ہے۔

لڑکا تشدد کو یکسر مسترد کرتے ہوئے علمی بحث کرنے کا اظہار کرتا ہے۔

میرے نقطہ نظر میں، جیسا کہ دنیا میں کہیں بھی انصاف کا کوئی نظام نہیں ہے. لہذا قتل کے بجائے، میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ یہ چہرے اور مسائل محفوظ طریقے سے مغرب سے علمی اغواء کر لیےجائیں ۔

لڑکا لگی لپٹی رکھے بغیر اپنا مقصد بیان کرتا ہے۔

کہ وہ ایک سچائی کو تسلیم کریں ۔

اللہ۔

میں اللہ سے مدد کرنے کے لئے دعا کرتا ہوں. مجھے امید ہے کہ آپ اس علمی اغواء کرنے میں میری مدد کریں گے۔

لڑکا ڈینیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آئیے ہر انسانی روح کی بنیادی ضرورت سمجھتے ہیں. ہر انسانی روح سرتسلیم خم کرنا چاہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مذاہب موجود ہیں۔

لڑکا مغرب کی آزادی پر چوٹ کرتا ہے۔ اور آزادی کی اہمیت بھی تسلیم کرتا ہے۔ ساتھ ہی راستے کی بھی خبر دیتا ہے۔

انسان سر تسلیم خم کیے بغیر خوش اور مطمئن زندگی نہیں گزار سکتا، اور انسان آزادی کے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔

یہ دو متضاد نظریات ہیں۔

لیکن یہ حالت حاصل کرنا ممکن ہے۔

کیسے؟

انسان کو سرتسلیم خم کرنا چاہئے لیکن کسی دوسرے انسان کے سامنے نہیں، بلکہ صرف سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ غالب خدا کے سامنے ۔

یعنی اللہ ۔۔۔تاکہ اسکی آزادی کی حفاظت ہو۔

لڑکا مذید وضاحت کرتا ہے کہ جس طرح غذا اور پانی نہ ملنے سے جسم کمزور ہو جاتا ہے اسی طرح روح کی غذا نہ ملنے سے روح غصیلی، غم زدہ اور متشدد ہو جاتی ہے۔

لڑکا اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ روح کو ایسی صحیح غذا ایسے مردوں سے ملتی ہے جن کے قلوب خود صحت مند ہوں اور بے غرض ہوں۔

لڑکا موضوع کو ایک اور سمت سے واضح کرتا ہے۔

جن ارواح کو ایک طویل مدت سے انکی غذا نہ ملی ہو وہ غیر مطمئن ہو جاتی ہیں اورایسی روحیں اللہ کے سامنے صحیح طور پر سر تسلیم خم کرنے میں مدد نہیں کر سکتیں۔

ہاں اگر کوئی صاف دل ان سے بات کرے اور انکو محبت دے۔

لڑکا تسلیمہ نسرین کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کیسے اسکے ساتھ بچپن میں کیا جانے والے ریپ نے اسکو متشدد بنایا۔ تسلیمہ مسلمان گھرانے سے تھی لیکن اسکے ایک رشتے دار نے بچپن میں اسے ریپ کیا۔اس واقعہ کا اسکی بقیہ زندگی پر اثر رہا اور وہ ملحد محض بن کر رہ گئی۔ میں تسلیمہ کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

کیسے مصر کے غیر منصفانہ ماحول نے امینہ ودود کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا کہ ایک عورت زندگی کے تمام خوشگوار پہلوں کو بھول کر محض اپنے بدن کے تحفظ میں متشدد ہو کر رہ گئی۔وہ نیویارک میں 2005 میں مسلمان مردوں کی جماعت کی امام بنی۔مصر ناانصافیوں سے بھرا پڑا ہے اور اس پر آواز اٹھانا اسکو متشدد بناتا چلا گیا۔ میں امینہ کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

رشدی ایک مسلم گھرنے میں پیدا ہوا لیکن تعلیم ایک عیسائی جان کونن اسکول میں حاصل کی۔ میرے لیے یہ ایک واضح اشارہ ہے کہ وہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان الجھ کر رہ گیا۔وقت گذرتا گیا اور وہ متشدد ہو گیا اور پھر کیا سو جو کیا۔ لڑکا رشدی کو پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تمہارا ناول بھوک سے تڑپتی روحوں کے لیے غذا کا کوئی سامان نہیں۔ معاشروں میں تبدیلی ایک نازک عمل ہے۔ مذہب سے گرد ہٹانا اس سے بھی نازک ترین کام ہے۔تم اپنے ناول پر نظر ثانی کرو اگر تم واقعی انسانی روحوں کا خیال کرتے ہو۔ میں رشدی کو بات چیت کے لیے مدعو کرتا ہوں کہ وہ واپس اللہ سے جڑ جائے۔

لڑکا پاپ بینڈکٹ کو دعوت گفتگو دیتا ہے کہ وہ پوپ کی اس بات کے متعلق دریافت کرے کہ جب اس نے کہا کہ مجھے صرف دکھائیں کہ اسلام میں آپ کو صرف برائی اور غیر انسانی چیزیں ملیں گی، جیسے تلوار کی طرف سے پھیلانے کا حکم ۔لڑکا کہتا ہے کہ میں یہاں کھڑا ہوں اور میں پوپ سے بھی کہتا ہوں. ہم دونوں زبردست طاقتور اللہ کے سامنیں جھکیں اورانسانی روحوں کو آرام کرنے میں مدد دیں۔

لڑکا ڈینیل سے کہتا ہے ایسے غیر منصفانہ ماحول میں افراد کے ذہن اپنے جسم کے تحفظ کے لیے چلتے ہیں۔ اور انکے اندر کے رونے کی آوازوں کی گونج طرح طرح متشدد راستے نکال لیتی ہے۔

اب یہ زخمی روحیں کیونکر اللہ کا راستہ دکھا پایں گی! ہمیں پیار و محبت سے ان تڑپتی روحوں کو تھپکی دینی ہو گی۔

سوال یہ ہے کہ اسقدر روحیں متشدد کیوں ہوتی جا رہیں ہیں؟

ایک لفظ میں اسکا جواب ہے۔ سود۔

جی سود۔

اس خونخوار سودی بینکنگ نے خاندانوں سے مل بیٹھ کر خوش ہونے کی جگہیں محدود سے محدود کر دیں ہیں۔ سو متشدد روحوں کی کثرت ہوگئی ہے۔

مغربی بینک زمین کھود کھود کر نئی نئی اشیاء بنانے کے لیے رقم فراہم کرنے میں سرگرم ہیں تاکہ جسم آرام حاصل کریں لیکن اس روحوں کی غذا کا کوئی سامان ہی نہیں۔

میں اپنے دل میں کھٹک کے بغیر کہتا ہوں کہ سود ہٹا دیں انسانی روحوں کو غذا ہوا اور پانی کی طرح ملنی شروع ہو جائے گی۔



منظر تبدیل ہوتا ہے لڑ کا اس مسجد عشاء سے قبل پہنچتا ہے جہاں جانے کو شیخ اول بنوری ٹاون نے کہا تھا۔

- میاں ظہوری
 
Top