ایک غزل

عظیم

محفلین



جان بھی دے کر نہ خوش ہو پائیں گے
عشق والے خود سے بس شرمائیں گے

دیکھنے کو کیا نہیں دیکھا گیا
دیکھنا یہ ہے وہ کیا دکھلائیں گے

یوں نہ کہہ محشر میں ہو گا سامنا
چاہنے والے ترے مر جائیں گے

جیسے جیسے خاک ہوتا جاؤں گا
ویسے ویسے وہ بہت اترائیں گے

دور ہو کر بھی ہیں اتنا پاس جب
کیا غضب ہو گا وہ جب پاس آئیں گے

خاک سے ہلکا ہوا جاتا ہے جسم
مر گیا جب لوگ کیا دفنائیں گے

اب جو ہیں سانسیں مری وہ دیکھنا
ایک دن دھڑکن مری کہلائیں گے

ختم جب ہو گی کبھی اس کی تلاش
ہم نہ پھر خود کو کبھی مل پائیں گے

راضی رکھ محبوب کو ہر پل عظیم
سب کے سب طوفان خود ٹل جائیں گے

 
Top