مجاز ایک دوست کی خوش مذاقی پر ۔ اسرار الحق مجاز

فرخ منظور

لائبریرین
ایک دوست کی خوش مذاقی پر

ہو نہیں سکتا تری اس "خوش مذاقی" کا جواب
شام کا دلکش سماں اور تیرے ہاتھوں میں کتاب
رکھ بھی دے اب اس کتابِ خشک کو بالائے طاق
اُڑ رہا ہے رنگ و بُو کی بزم میں تیرا مذاق
چھُپ رہا ہے پردۂ مغرب میں مہرِ زرفشاں
دید کے قابل ہیں بادل میں شفق کی سرخیاں
موجزن جوئے شفق ہے اس طرح زیرِ سحاب
جس طرح رنگین شیشوں میں جھلکتی ہے شراب
اِک نگارِ آتشیں ہر شے پہ ہے چھایا ہوا
جیسے عارض پر عروسِ نو کے ہو رنگِ حیا
شانۂ گیتی پہ لہرانے کو ہیں گیسوئے شب
آسماں پر منعقد ہونے کو ہے بزمِ طرب
اڑ رہے ہیں جستجو میں آشیانوں کے طیور
آ چلا ہے آئنے میں چاند کے ہلکا سا نُور

دیکھ کر یہ شام کے نظارہ ہائے دل نشیں
کیا ترے دل میں ذرا بھی گدگدی ہوتی نہیں؟
کیا تری نظروں میں یہ رنگینیاں بھاتی نہیں؟
کیا ہوائے سرد تیرے دل کو تڑپاتی نہیں؟
کیا نہیں ہوتی تجھے محسوس مجھ کو سچ بتا
تیز جھونکوں میں ہوا کے گنگنانے کی صدا؟

سبزہ و گُل دیکھ کر تجھ کو خوشی ہوتی نہیں
اُف ترے احساس میں اتنی بھی رنگینی نہیں
حسنِ فطرت کی لطافت کا جو تُو قائل نہیں
میں یہ کہتا ہوں تجھے جینے کا حق حاصل نہیں

(اسرار الحق مجاز)
 
Top