ایک احمقانہ غزل

امین شارق

محفلین
ظلمتوں کے ہیں اندھیرے نُور کی ہے روشنی
دشمنی کی ہے عداوت یا رفاقت دوستی

مشکلِ دشوار میں ہے زیست کی یہ زندگی
سہلِ آسانی نہیں مرجائے بندہ آدمی

ہوں
زمینِ ارض پر یا آسمانِ فلک پر
غُل یہ کیسے شور کا ہے کیا سکوتِ خامشی

ناؤ کی کشتی پھنسی طوفان کے منجھدار میں
بحر کے دریا کے خنداں ہونٹ پر ہے اک ہنسی

اشک کے آنسو نہیں اب چشمِ نازک آنکھ میں
اب مجھے ہے
غم الم کا نہ مسرت کی خوشی

کر
برائی کی بدی یا نیکی کی اچھائی کر
اک
جہنم کی ہے دوزخ ایک جنت خلد کی

عشق کی الفت میں بھٹکا راہگزر کی راہ میں
دشت کے صحرا میں ہوں اور پیاس کی ہے تشنگی

یہ
نصیبوں کا مقدر ہے رئیسوں کا امیر
قسمتِ تقدیر ہے غرباء کی مفلس جھونپڑی

خواستارِ طالب میں بھی ہوں رحم کے کرم کا
دیکھ
نگاہ کی نظر سے سن لو صدا آواز کی

روند ڈالے کیوں مسل کر پت جھڑوں کی یہ خزاں
گُل نہیں میں پھول کا نہ باغِ گلشن کی کلی

یہ
گزارش عرض ہے شارق کے دل کے قلب کی
ہو دیدارِ دید ہے آرزوئے خواہش آخری
 
Top