ایف ایم ریڈیو کے تماشے۔۔۔۔۔۔از گلِ نوخیز اختر

عاطف ملک

محفلین
ایف ایم ریڈیو کے تماشے۔۔۔۔۔۔از گلِ نوخیز اختر

رات کا ایک بج چکا تھا‘لائٹ تین گھنٹے سے غائب تھی‘ یو پی ایس بھی جواب دے گیا تھا‘ سب سوئے ہوئے تھے‘ مجھے نیند نہیں آرہی تھی لہٰذا موبائل پر ہینڈز فری لگائی اور ایک ایف ایم ریڈیو چینل آن کرلیا۔میزبان صاحب خمار آلود آواز میں عجیب وغریب فلسفہ بیان کر رہے تھے‘ میں نے کچھ دیر اُن کی بات پر غور کیا ‘ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو مزید غور کیا ۔۔۔وہ فرمارہے تھے’’انسان ریت کی مانند ہے‘ جب ریت سمندر کے کناروں تک پہنچتی ہے تو وقت کے ساحل سے افق کا راستہ صاف ہوجاتا ہے اور دھند میں لپٹی تمام آزمائشیں اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگتی ہیں‘‘۔ اتنی گہری اور تہ در تہ بات سن کر سخت سردی میں بھی میرے پسینے چھوٹ گئے۔اُن کی دانشورانہ آواز پھر گونجی۔۔۔’’چاندکے سائے تلے گھوڑے کی ٹاپوں سے الجھتی ہوئی پہاڑوں کی سانسیں جب آتش فشاں کی رگوں میں برف پھینکتی ہیں تو پھر دل کی بالکنی سے شام کی دلہن کچھ اس طرح گنگناتی ہے‘‘ ۔۔۔اس کے بعد گانا چل پڑا’’پیار کی پُنگی بجا کر‘‘۔

ایف ایم ریڈیو چینلز کے آنے سے ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ وہ لڑکیاں جو بیچاری گھروں میں بیٹھی رہتی تھیں اور ماں باپ کے ڈر سے کسی غیر مرد سے بات نہیں کرتی تھیں‘ اب رات کو اطمینان سے کسی’’جنید بھائی‘‘ سے آن ایئر بات بھی کرتی ہیں ‘ آواز کی تعریف بھی کرتی ہیں اور پسند کا گانا بھی سن لیتی ہیں۔’’جنید بھائی ‘‘ بھی آواز کا زیروبم مزید خمارآلود بناتے ہوئے پندرہ سو روپے میں رات دو گھنٹے تک آہیں بھرتے ہیں‘ بے وزن شعر گنگناتے ہیں اوریہ ثابت کرنے میں پوری طرح کامیاب رہتے ہیں کہ وہ ایک رومانٹک شخصیت کے مالک ہیں اور ساغر صدیقی سے ناصر کاظمی تک ان کے نہایت قریبی مراسم رہے ہیں۔رات کے میزبانوں کو وحید مراد اور دن کے میزبانوں کو شوخ و چنچل شاہ رخ بننے کا جنون ہوتاہے۔ دن کے وقت یہ مائیک منہ کے اندر ڈال کر اتنی خوش خوش اور تیز بات کرتے ہیں کہ کوئی مائی کا لال اندازہ نہیں لگا سکتا کہ بیس منٹ پہلے یہ ڈالے کے پیچھے لٹک کر سٹوڈیو پہنچے ہیں۔

کئی میزبان لڑکیوں کی تو بات بات پہ اتنی ہنسی چھوٹتی ہے کہ ریڈیو سننے والا دانت پیس کر اپنی بیوی کو کوسنے لگتاہے۔اِن میں زیادہ تر وہ ہوتی ہیں جن کی شکل ان کی آواز کے بالکل مخالف ہوتی ہے۔گھر میں شوہر ان سے ڈرتے جھجکتے تھوڑی سی بھی پیار کی بات کرے تو پنجے جھاڑ کے پیچھے پڑ جاتی ہیں لیکن آن ایئر اتنی محبت سے کالز کا جواب دیتی ہیں کہ ’’چوبرجی کے اجمل‘‘ کی ایک دفعہ بھی کال مل جائے تو سارا دن اپنے پان کے کھوکھے پر بیٹھا حسین خیالوں میں کھویا رہتاہے۔

ایف ایم ریڈیو کی وجہ سے حکیموں کی بھی چاندی ہوگئی ہے‘ حکیموں نے پورے پورے پروگرام نشر کرنا شروع کردیے ہیں‘ اِن ’’حکیمی پروگراموں‘‘ میں اکثر ایک حکیم صاحب اور’’صائمہ جی‘‘ دور دراز کے ’’مایوس مریضوں ‘‘کو نہ صرف دوائی پارسل کرتے ہیں بلکہ انشاء اللہ ‘ انشاء اللہ کہتے ہوئے بواسیر سے ہارٹ اٹیک تک کا آن ائیر علاج بھی تجویز کردیتے ہیں۔صائمہ جی خود بھی حکیم صاحب سے حد درجہ متاثر نظر آتی ہیں ‘ گاہے گاہے اپنی بیماریوں کا علاج بھی پوچھتی ہیں اور فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر بار بار اعتراف بھی کرتی ہیں کہ ’’حکیم صاحب تسی تے میرا مسئلہ ای حل کر دِتا اے‘‘۔

ایف ایم ریڈیو کی بدولت اب گاڑیوں میں ٹیپ کی بجائے ریڈیو زیادہ سنا جاتاہے‘ گانے بھی اچھے لگتے ہیں‘ لیکن حرام ہے جو کوئی گانا پورا سنوادیا جائے‘ آدھے سے زیادہ گانے میں میزبان اپنی انٹری ڈال کر گانے کا ستیاناس کر دیتے ہیں‘ کئی شوقین قسم کے میزبان تو گانے کے ساتھ ساتھ اپنی گلوکاری کا مظاہرہ بھی کرنے لگتے ہیں ‘ نتیجتاً سونو نگم بھی برا لگنے لگتا ہے۔ایف ایم نے میوزک کا ایسا نیا ٹرینڈ متعارف کرایا ہے کہ اب گفتگو کے دوران بھی ہر خالی جگہ پر میوزک بجنا شروع ہوجاتاہے‘ اس کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ میزبان چھ لائنیں بھی یاد کرکے بیٹھا ہو تو گفتگو میں آدھا گھنٹہ بآسانی گزر جاتاہے۔ایک بات کو میوزک ڈال کر اتنا لمبا پھیلا دیا جاتا ہے کہ پوری بات سننے کے لیے کان ترس جاتے ہیں۔۔۔مثلاً اگر آپ نے دن کے وقت ایف ایم ریڈیو آن کیا ہے تو گفتگو کچھ اس قسم کی ہوگی۔۔۔’’جی لسنر(میوزک) میں ہوں آپ کا دوست(میوزک) آپ کا بھائی(میوزک) آپ کا بھتیجا(میوزک) آپ کا بھانجا(میوزک) آپ کا تایا (میوزک) آپ کا خالو(میوزک) آپ کا پھوپھا (میوزک) آپ کاچاچا (میوزک) اور آپ کا کزن (میوزک)۔۔۔لسنرز (میوزک) آج بڑا (میوزک) خوشگوار(میوزک) دن ہے(میوزک) اور اسی دن کی (میوزک) مناسبت سے (میوزک) میں نے(میوزک) آج یہ (میوزک) فیصلہ کیا ہے(میوزک) کہ(میوزک) ۔۔۔اور اتنی دیر میںآفس یا گھر آجاتاہے اور آپ کو مجبوراً گاڑی کا اگنشن آف کرنا پڑ جاتاہے۔

ایف ایم پر ہر وہ بندہ کامیاب ’’ڈی جے‘‘ بن سکتا ہے جس نے ڈیڑھ دو سال لاری اڈے پر ’’اے پنڈی اے ‘ پنڈی اے‘‘ کی آوازیں لگائی ہوں یا بسوں میں چورن بیچا ہو۔سانس لیے بغیر بولنے کا فن ایف ایم کے میزبان سے اچھا کسی کو نہیں آسکتا۔میرے کئی دوست ایف ایم ریڈیو میں’’ڈی جے‘‘ ہیں اوربے تحاشا بولنے کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ دومنٹ کے لیے خاموش ہوجائیں تو لگتا ہے مر گئے ہیں۔دھڑا دھڑ آنے والے ایف ایم ریڈیوچینلز نے’’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘‘ جیسی خوبصورت آواز بھی مدھم کر دی ہے۔ اب عشق کرنے کے طریقے‘ روٹھی ہوئی لڑکی کو منانے کے طریقے اوردل کا حال شعروں کی صورت بتانے کی ذمہ داری ایف ایم ریڈیوز نے اٹھالی ہے۔گھریلو پابندیوں میں جکڑے لڑکے لڑکیاں جی بھر کر اپنی پسندیدہ شخصیت سے گفتگو کرتے ہیں اور بعض اوقات تو لگتاہے کال کرنے والے کو بھول گیا ہے کہ یہ کال آن ایئر بھی جارہی ہے۔ان تمام باتوں کے باوجود ایک بات کا کریڈٹ ایف ایم ریڈیوچینلز کو ضرورجاتا ہے کہ انہوں نے پھر سے ریڈیو کو زندہ کر دیا ہے ورنہ ریڈیو پاکستان کا کام صرف اتنا رہ گیا تھا کہ منڈیوں کے بھاؤ‘ حکومتی موقف پر مشتمل ٹاک شوز اور خشک قسم کے گانے بار بار سنوا دیے جائیں۔

میں نے اپنے ایک ’’ڈی جے‘‘ دوست سے پوچھا کہ تم روزانہ ساڑھے چھ کلومیٹر بولتے ہو‘ تھکتے نہیں؟؟؟ اطمینان سے بولا ’’جب گھر میں کوئی نہ بات سنتا ہو تو اپنا ٹیلنٹ آزمانے کے لیے ایف ایم کا ڈی جے بننے سے زبردست کام کوئی نہیں‘‘۔
میرا خیال ہے ٹھیک ہی کہتا ہے‘ روزانہ پندرہ بیس خوبصورت آوازوں سے گپ لگانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔دنیا ترقی کرگئی ہے‘ ا ب گھر بیٹھے بھی دنیا کی گہما گہمی میں شامل ہوا جاسکتا ہے اور ’’جنید بھائی‘‘ سے نہ صرف خود بات کی جاسکتی ہے بلکہ باجی کی بات بھی کروائی جاسکتی ہے۔رات کو کسی لمحے ذرا ایف ایم چینل ٹیون کیجئے اور کالرز کی گفتگو سنئے‘ آپ کو لگے گا جیسے ڈی جے اورخاتون کالر باغِ جناح میں فروٹ چاٹ کھاتے ہوئے دل کی باتیں کر رہے ہیں‘رات ایک خاتون کسی میزبان کو کہہ رہی تھی’’پیارے بھائی۔۔۔اب تو آپ کی آواز نہ سنوں تو نیند ہی نہیں آتی‘‘۔
 
’’انسان ریت کی مانند ہے‘ جب ریت سمندر کے کناروں تک پہنچتی ہے تو وقت کے ساحل سے افق کا راستہ صاف ہوجاتا ہے اور دھند میں لپٹی تمام آزمائشیں اپنے اپنے مدار میں گردش کرنے لگتی ہیں‘‘۔ اتنی گہری اور تہ در تہ بات سن کر سخت سردی میں بھی میرے پسینے چھوٹ گئے۔اُن کی دانشورانہ آواز پھر گونجی۔۔۔’’چاندکے سائے تلے گھوڑے کی ٹاپوں سے الجھتی ہوئی پہاڑوں کی سانسیں جب آتش فشاں کی رگوں میں برف پھینکتی ہیں تو پھر دل کی بالکنی سے شام کی دلہن کچھ اس طرح گنگناتی ہے‘‘
یہ ہمارے آج کے ادب کا المیہ ہے۔ ایف‌ایم تو صرف نقل کر رہا ہے۔
برا ہو مغرب میں ایلیٹ جیسے ناقدین کا اور ہمارے ہاں غالبؔ کے شارحین کا کہ عمدہ خیالات کی سب سے بڑی پہچان مغلق اور ناقابلِ فہم ہونا طے پا گئی ہے۔ سادہ اور سریع‌الفہم مگر گہری باتوں اور محاورے کی قدر کے قیمتی زمانے لد گئے۔
اِن میں زیادہ تر وہ ہوتی ہیں جن کی شکل ان کی آواز کے بالکل مخالف ہوتی ہے۔
ریڈیو کے پورے تجربے میں کم‌از‌کم مجھے کوئی خوش‌شکل لڑکی نظر نہیں آئی۔ کچھ کو پرکشش البتہ کہا جا سکتا ہے۔ ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ ریڈیو پاکستان پر اکثر چنچل قسم کی میزبانوں کے پاؤں قبر میں دیکھے گئے ہیں۔
ویسے میرا خیال یہ ہے کہ خوب‌صورت ترین آوازوں کی حامل عورتیں اکثر خاصی بد‌صورت ہوتی ہیں۔ یہاں خوب‌صورت آواز سے مراد آواز کا خالص زنانہ ترنم ہے۔ اس کے برعکس نیم‌مردانہ یا سرگوشی‌آمیز (husky) آوازوں والی خواتین غیرمعمولی طور پر دل‌کش ہو سکتی ہیں۔
’’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘‘
یہ آواز بھی اب پہلے جیسی مدھر نہیں رہی۔ ریڈیو پاکستان عوام اور فن‌کاروں دونوں کے لیے ایک اکادمی کی سی حیثیت کا حامل ہوا کرتا تھا مگر ایف‌ایم کے شیوع کے بعد سے وہ گراوٹ آئی ہے کہ پہلے سے معیار کا عشرِ عشیر بھی باقی نہیں رہا۔ ریڈیو نے اپنے قیمتی ترین فن‌کاروں کی قدر‌افزائی میں بھی خاصی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی سزا اب بہرحال اسے بھگتنی ہے۔
---
ایک مزاحیہ تحریر پر اس سنجیدہ تبصرے کی معذرت۔ مگر میری رائے میں ڈاکٹر یونس بٹ اور گلِ نوخیز اختر جیسے مزاح‌نگاروں کو ان کی حسِ مزاح کی داد دینے میں بھی نقصان ہے۔ اس قسم کے مزاح اور اس کی مقبولیت کو بھی زوال ہی کی علامت سمجھنا چاہیے۔
 

فرقان احمد

محفلین
آج کل ایف ایم کی شاید یہ حالت ہو گئی ہو؛ کسی زمانے میں ایف ایم 100 اور ایف ایم 101 پر رات کو اچھے پروگرام چلا کرتے تھے؛ مجھے یاد ہے، کہ مرحوم جمیل ملک (صداکار، اداکار، پروڈیوسر) ایف ایم 101 سے وابستہ نوآموز میزبانوں کو صداکاری کی باقاعدہ تربیت بھی دیا کرتے تھے۔ تاہم، اب تو ایک زمانہ گزرا، ایف ایم کی دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں؛ معلوم نہیں، آج کل کیا چل رہا ہے؟
 
Top