ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی کچہری میں ایک مُنشی صاحب کام کرتے تھے۔

میٹرک فیل تھے مگر زبان و بیان کے دھنّی۔ جہاں بیٹھتے مجمع لگا لیتے۔ لوگ ان کی باتوں پر سر دھنتے اور تبحّرِ علمی کی داد دیتے۔ سو پشت سے پیشہء آباء فرنگ کی چاکری تھا۔

سیالکوٹ کا ایک پادری مسٹر بٹلر ایم - اے بھی ان کا شیدائی تھا- وہ گھنٹوں ان کے پاس بیٹھتا، دقیق علمی موضوعات کی حس لیتا، اور دادوتحسین کے ڈونگرے برسا کر رخصت ہوتا۔

اتفاق سے برطانوی انٹیلی جنس کے شعبہ ہائے ہند نے کمشنر سیالکوٹ کو پروجیکٹ اپاسٹلک پروفٹ (منصوبہء حواری نبی ) کا ٹاسک دے دیا۔ کمشنر نے یہ کام مسٹر بٹلر کے متھّے مارا۔ پادری نے کہا حضور بندہ تو گھر میں ہی بیٹھا ہے، منشی صاحب آخر کب کام آئیں گے۔ لیکن کمشنر بضد تھا کہ کم از کم چار آدمیوں کا انٹرویو کر کے ایک جینئس ، کرینکل اور ریڈیکولیس بندہ ڈھونڈو کہ معاملہ بہت اہم ہے۔

پادری کچھ دِن سیالکوٹ کی سڑکوں پر جوتیاں چٹخاتا رہا، اور بودے قسم کے مذہبی دانشور پکڑ پکڑ کے لاتا رہا بالاخر نگاہِ انتخاب منشی پر ہی آکر ٹھہری ۔ سالانہ چھٹیاں سر پر تھیں، طویلے کی بلاء سر سے جھاڑنا ضروری تھا۔ وطن واپس جانے سے پہلے پادری نے منشی سے تخلیہ میں طویل ملاقات کی اور کہا :

’’ اگر میرا گیان غلط نہیں تو یقین کر لو کہ خداوند نے تمہیں بدنصیب ہندوستانی قوم کا پیغمبر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

یہ فیصلہء آسمانی ہے، چوں چراں کی گنجائش نہیں۔ اس دورِ پُر آشوب میں نبوّت یکبارگی تو ملنے سے رہی۔ میرٹ کا زمانہ ہے، درجہ بدرجہ سیڑھیاں چڑھنا ہونگی۔

تم پہلے مجدّد بن کر اپنا سکّہ جماؤ۔ پھر مثیل مسیح بن کر پادریوں اور آریاسماج سے ٹکراؤ۔ پھر خنزیر کو قتل کر کے مسیح موعود کہلاؤ ۔ پھر مہدویّت کا زینہ چڑھ کر ایک امّت بناؤ۔ اس سے آگے پیغمبری کا تاج ہے۔ جو تم نے اپنے رسک پر پہننا ہے۔ دلائل اور معجزات بھی خود تراشنے ہیں اور مولیوں سے مقابلہ بھی خود کرنا ہے، ترقی کا انحصار کارکردگی پر ہے۔

’’ وہ سب تو ٹھیک ہے ، مگر خنزیر کیسے قتل ہوگا ؟؟ " وقفہء سوالات میں منشی نے پوچھا۔‘‘

اس کی فکر مت کرو، میرے جیسے کئی پھرتے ہیں، کسی مشہور عیسائی پادری سے مباہلہ رچاؤ، ہارو یا جیتو، اپنی کامیابی کا ڈنکا بجاؤ، پھر اس کی موت کی پشین گوئی فرماؤ ۔

"اور اگر وہ وقتِ معیّن تک نہ مرا تو ؟؟ "

" ٹپکا دینا، کیس ہم ختم کروا دیں گے !!! "

اس کے بعد پادری نے ڈپٹی کمشنر کو منشی کی سی وی جمع کرائی اور واپس انگلینڈ چلا گیا !!!

ہندوستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ ککڑی اور تمبے میں فرق کر لیتی ہے، لیکن مذہب کے نام پر اکثر دھوکا کھاتی ہے، وجہ اس کی عقیدت کا بخار اور شخصیّت پرستی کا خمار ہے۔ ہندوستان میں ان دنوں جگہ جگہ علمائے دین اور عیسائی مبلغین دست بدست تھے۔ اچھّا مناظر قوم کا ہیرو سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ منشی صاحب بھی کبڈی کبڈی کرتے اکھاڑے میں آن اترے اور آتے ہی چھا گئے۔

کہیں دلیل سے کام چلایا ، کہیں خصم کو ذلیل کرکے بھگایا۔ لفظوں کے مدّاری تھے، تاویلات کے گُرو، 10 سال کی محنتِ شاقہ کے بعد بالاخر 1870ء میں ایک روایت شکن مصلح ، بہترین مناظر اور پرجوش مذہبی لیڈر بن کر سامنے آئے ۔

دال گلتی دیکھ کر 1880ء میں صاحبِ کشف و الہام ہونے کا دعوی کر دیا۔ 1882ء میں مجدّد کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ 1888ء میں بیعت لینے بیٹھے اور 1891ء میں مثیل مسیح کا چوغہ پہن کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔

پادریوں کے ساتھ مناظروں میں آپ عیسائیت کو غلیظ سے غلیظ گالیاں دیتے رہے۔ حضرت عیسی علیہ سلام اور بی بی مریم علیہ سلام کی اہانت کرتے رہے، لیکن باوجود شکایات عیسائی حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی کہ وسیع تر قومی مفاد کا سوال تھا۔ البتہ جواب آں غزل پادریوں نے بھی حضور اکرم ﷺ کی توہین کو وطیرہ بنا لیا۔

اسی طرح آریا سماج جیسی ترقی پسند ہندو تحریک جب مرزا صاحب کے ہاتھوں ذلیل ہوئی تو انہوں نے بھی قران ، اسلام اور سرور کائنات ﷺ پر سب وشتم شروع کر دیا ۔ نتیجتاً مسلمان اور ہندو جو کبھی استعمار کے خلاف ایک تھے، آپس میں گتھم گتھا ہو کر رہ گئے اور انگریز قدرے اطمینان سے حکومت کرنے لگا ۔

1893ء میں مشہور عیسائی مبلغ ڈپٹی عبداللہ آتھم کے ساتھ 15 روزہ مناظرہ میں آپ نے شکست کھائی، اسلام کے نام پر بدنماء دھبّہ لگوا کر اور اپنی ناک کٹوا کر واپس آئے تو سال کے اندر اندر آتھم کی موت کی پشین گوئی فرما دی۔

عبداللہ آتھم پر امرتسر میں نامعلوم افراد نے گولی چلائی تو اس نے فیروز پور بھاگ کر جان بچائی وہاں چار حملے ہوئے دو بار کسی نے گولی چلائی، ایک بار کمرے میں کوبرا سانپ چھوڑا، لیکن بدبخت کو پھر بھی موت نہ آئی۔

جیسے تیسے کر کے پشین گوئی کا سال تمام ہوا تو عیسائیوں نے "فتحِ مقدّس" منائی۔ آتھم نے امرتسر آ کر مرزا صاحب پر ارادہء قتل کی رپٹ درج کرائی۔ لیکن انگریز کمشنر نے حساس اداروں کے دباؤ پر الٹا آتھم کو ڈانٹ پلائی کہ ڈھیٹ آدمی تجھے موت کیوں نہ آئی ؟

یوں خنزیر کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کے بعد مرزا صاحب نے "مسیح موعود" ہونے کا دعوی کر دیا- عوام سے لاکھوں کا چندہ بٹورا ، راج گیر بلائےاور قادیان میں مینارةالمسیح تعمیر کرایا۔ پھر اس پر چڑھ کر نقارہ بجایا کہ آج سے زمینی جہاد منسوخ ہو چکا۔ دین کےلئے لڑنا حرام قرار دے دیا گیا اور آج کے بعد جو دین کےلئے تلوار اٹھائے گا، خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہو گا۔

مرزائیت کی سخن گُسترانیاں قادیان کے چھاپہ خانوں سے نکل کر اردو ، ہندی ، عربی ، فارسی اور انگریزی میں ترجمہ ہوکر ہر اس ملک میں پہنچنے لگیں جہاں برطانوی راج تھا۔ بلادِ عرب ، بلادِ شام ، ترکی ، مصر اور افغانستان سے لیکر مکّہ اور مدینہ کی گلیوں تک " تنسیخِ جہاد" کے فتوے بٹنے لگے ۔

جہاد اور مناظروں کے محاذ پر ڈٹّے علماء ادھر متوجہ ہوئے تو مرزا استعمار کے گھوڑے کو چابک مار چُکا تھا۔ مقابلے میں اُٹھنے والے ہر مولوی کی انگریز بہادر کو شکایت لگانا اور "وہابی" کہہ کر اندر کروانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اس زمانے میں وہابی اور باغی مترادف الفاظ سمجھے جاتے تھے۔

مولانا محمد حسین بٹالوی سلفی المسلک تھے اور نزیر حسین محدّث دہلوی کے شاگرد۔ بحیثیّت مناظر وہ مرزا صاحب کے بڑے قدردانوں میں سے تھے- مرزا نے الٹی قلابازی لگائی تو سب سے پہلے انہوں نے ہی شرم دلائی۔ مرزا صاحب نے مولانا کے عزائم دیکھ کر حسبِ روایت "وہابی وہابی" کی رٹ لگائی- مولانا نے رفقاء سے مشورہ کر کے انگریز کمشنر کے پاس " منسوخئ جہاد" کا فتوی جمع کرایا۔ اپنی جماعت کو "اہلحدیث" کے نام سے رجسٹر کروایا اور اپنے رفقاء سمیت مرزا کے مقابل آن کھڑے ہوئے کہ یہی بہترین جہاد تھا۔

یوں رفتہ رفتہ مرزا صاحب کے گرد رونق بڑھتی گئی .... جہاد کی چوکیاں خالی ہوتی گئیں اور انگریز مزید اطمینان سے حکومت کرنے لگا ۔


۔۔۔۔
اقبتاس از عشق کے قیدی

ظفر اعوان
 
Top