اگر کسی کو ترا نقش پا نہیں ملتا

ادریس آزاد

محفلین
احباب! تسلیمات!
اپنی بیاض میں سے ایک غزل تنقید کے لیے پیش کرتا ہوں۔

اگر کسی کو ترا نقش پا نہیں ملتا
اُسے جہاں میں کوئی راستہ نہیں ملتا

ہمارے واسطے کوثر ترے لبوں کی مٹھاس
بہشتِ عشق میں عاشق کو کیا نہیں ملتا

گنہ شناس نظر کو ثواب ملتا ہے
کوئی گناہ نہ ہو تو خدا نہیں ملتا

سبق جو تو نے دیا ہے بہ یک نگاہِ کرم
کسی کتاب میں لکھا ہو نہیں ملتا
 
Top