نیرنگ خیال

لائبریرین
آج نبیل بھائی کا ایک بیان پڑھ کر مجھے تزک نادری سے ہند پر حملے کی وجوہات یاد آگئیں۔ یوں تو ان دونوں باتوں کا بظاہر کوئی باہمی تعلق نہیں۔ مگر اب کچھ یاد آہی جائے اور کتاب بھی سامنے ہی دھری ہو تو چند سطریں لکھ کر بطور اقتباس شریک کرنے میں کیا مضائقہ ہے۔

سوچا اہل ہند سے اچھے سلوک کی توقع کرنا حماقت ہے کیوں نہ کسی بہانے اس ملک پر حملہ کر کے ان کی گوشمالی کریں۔ فرمانبردار خاں کو حکم دیا کہ حملے کی چند وجوہات سوچے، اس نے یہ فہرست پیش کی۔
  • ہم عوام کے مفاد کے لئے جنگی چالوں کی ایک کتاب "رہنمائے حملہ آورانِ ہند" لکھنا چاہتے ہیں۔
  • ہندی گویے ترانوں کو "نادرنادھیم" سے شروع کر کے ہماری توہین کرتے ہیں۔
  • تاریخ میں اس سے پہلے ایران نے ہند پر باقاعدہ حملہ نہیں کیا۔
  • ہند پر حملہ ہوئے کافی عرصہ گزر چکا ہے۔
  • یوں بھی ان دنوں ہند پر حملے کا رواج ہے۔
ایسی بےمعنی وجوہات معروض ہونے پر ہمیں غصہ آیا۔ ایک بھی بات خدا لگتی نہ تھی، قصہ ہوا کہ فرمانبردار خاں سے وہی پرانا سلوک کریں، دیکھا تو وہ کبھی کا غائب ہو چکا تھا۔ ہم نے خود ان سے بہتر وجوہات سوچنے کی دیر تک کوشش کی، جب کامیابی نہ ہوئی تو خوش ہو کر فرمانبردار خاں کو بحال فرمایا۔

اقتباس از تزک نادری
کتاب: مزید حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
 

رباب واسطی

محفلین
اقتباس
دنیا کا سب سے خطرناک ترین ہتھیار ہماری کھوپڑی میں نصب ہے. یہ آن کی آن میں
صحت مند کو مریض اور مریض کو صحت یافتہ کر دیتا ہے
پر امن ماحول کو خانہ جنگی سے بھرپور اور عالمی جنگ کو لمحوں میں سرد کرسکتا ہے
بس اپنی کھوپڑی میں نصب اس ہتھیار کو اس طرح استعمال کریں جیسے ایٹم سے بجلی بنا کر اندھیرے دور کیئے جاتے ہیں نہ کہ ایٹم سے ہیروشیما اور ناگا ساکی کو نیست و نابود کردیا جائے
سوچیں دماغ کی انگلیاں ہوتی ہیں اور دماغ ان کے زریعے انسان کو نچاتا ہے لہذا اپنے دماغ کو مثبت سوچوں سے اس طرح بھردیں کہ اس میں منفی سوچ کی گنجائش ہی باقی نہ رہے

محمد ریاض "سوچ ایک ہتھیار" (مطبع 1977)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھے یقین ہے کہ ہر رات ایک نئی کائنات تخلیق ہوتی ہے، جب انسان سو جاتے ہیں تو چاندنی میں پریاں اترتی ہیں۔ دنیا کا گوشہ گوشہ نقشے میں موجود ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک ایسا جزیرہ ضرور ہے جس میں انسان نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ اس جزیرے میں ایسے ایسے رنگ ہیں جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھے۔ طرح طرح کے خوشنما پرندے ہیں جن کے چہچہوں میں ایسی موسیقی ہے جس سے انسان ناآشنا ہے۔ اس کا کونہ کونہ پراسرار اور مسحور ہے اور وہ جزیرہ اس سیّاح کا منتظر ہے جو کسی دن کشتی لے کر چپکے سے آجائے گا۔
اقتباس از بےبی
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
 

سید عمران

محفلین
مجھے یقین ہے کہ ہر رات ایک نئی کائنات تخلیق ہوتی ہے، جب انسان سو جاتے ہیں تو چاندنی میں پریاں اترتی ہیں۔ دنیا کا گوشہ گوشہ نقشے میں موجود ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک ایسا جزیرہ ضرور ہے جس میں انسان نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ اس جزیرے میں ایسے ایسے رنگ ہیں جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھے۔ طرح طرح کے خوشنما پرندے ہیں جن کے چہچہوں میں ایسی موسیقی ہے جس سے انسان ناآشنا ہے۔ اس کا کونہ کونہ پراسرار اور مسحور ہے اور وہ جزیرہ اس سیّاح کا منتظر ہے جو کسی دن کشتی لے کر چپکے سے آجائے گا۔
اقتباس از بےبی
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن
چچا شفیق کی یہی فینٹسیاں ہمیں فیسینیٹ کرتی ہیں!!!
 

رباب واسطی

محفلین
اورنگزیب عالمگیربہت لائق بادشاہ تھا
دین اوردنیادونوں پرنظررکھتاتھا
اس نےکبھی کوئی نمازقضا نہ کی
اورنہ کسی بھائی کوزندہ چھوڑا

ابن انشا
 

رباب واسطی

محفلین
''برائی میں مقابلہ ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں جیتنے والا شخص ہارنے والے سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے‘‘

افتخار احمد جوئیہ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
رواں سال جب ہماری عمر رواں کو دائمی اسیری سے روشناس کرانے کی تقریبات درپیش تھیں تو ہمیں بھی یہ مشورہ دیا گیا کہ اپنا خیال رکھیے اور خود کو تھوڑا خوش وضع بنانے کی کوشش کریں۔ اگر ہمارے ساتھ یہ مسئلہ درپیش نہ ہوتا تو شاید ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ لوگ ایک مدتِ طویل و بسیط سے ہمیں خوش وضع سمجھنے سے عاری ہیں۔

اقتباس از
منہ دھو رکھیے
مصنف: محمداحمد
 

سیما علی

لائبریرین
شفیق الرحمٰن کے کام کو ہم مندرجہ ذیل چار کیٹیگریز میں تقسیم کرتے ہیں۔
  • عشقیہ افسانے( حور اور زیب النسا ٹائپ)
  • مزاحیہ مضامین
  • شیطان کے مزاحیہ قصے، ہمارے پسندیدہ
  • سفر نامے جن میں برساتی اور ڈینیوب ہمارے پسندیدہ ترین ہیں، جنھیں بارھا پڑھنے کے باوجود سیری نہیں ہوئی۔
بھائی !!!!!!
آپ نے بہت ٹھیک تقسیم کیا شفیق صاحب کے کام کو۔اس سے بہتر نہیں ہو سکتاہے۔سب ہی ہماری پسندیدہ ہیں۔جتنی مرتبہ پڑھیں سیری نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
رئیس صاحب کے قلم سے شعر ٹپکتے تھے۔ شہر کے نوجوان مشاعروں میں پڑھنے کے لئے ان سے غزلیں لکھوا کر لے جاتے تھے۔ ایک بار ایسے ہی ایک نوجوان نے، جو کسی طرح سے بھی شاعر نہیں لگتا تھا، پیچھے پڑ کر رئیس صاحب سے غزل لکھوا لی اور رات کو اسی مشاعرے میں سنانے پہنچ گیا جس میں رئیس صاحب بھی موجود تھے اور وہیں اسٹیج پر بیٹھے تھے۔
اس لڑکے نے غضب یہ کیا کہ غزل اپنے ہاتھ سے بھی نہیں لکھی بلکہ رئیس امروہوی صاحب کے ہاتھ کی تحریر لے کر پڑھنے لگا۔
پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ کچھ یوں پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے​
سارے مجمع پر سناٹا چھا گیا۔ کہیں سے آواز آئی، پھر سے پڑھیے میاں صاحب زادے۔ مصرعہ پھر سے پڑھا گیا۔
اے کہ تیری حَپّوں سےبرہمی برستی ہے​
اس بار کئی آوازیں ابھریں۔ واہ وا۔ مکرر ارشاد
اس نے پھر پڑھا اور زیادہ لہک کر پڑھا
اے کہ تیری حَپّوں سے برہمی برستی ہے​
بس پھر کیا تھا۔ مجمع نے یہ مصرعہ بار بار پڑھوانا شروع کیا اور شاعر کی سرشاری بڑھتی گئی۔ قریب ہی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے رئیس امروہوی صاحب پہلے تو کھنکھارتے رہے، آخر ان سے نہ رہا گیا اور مصرعے کو درست کرتے ہوئے بولے
اے کہ تیرے چتون سے۔۔۔۔ چتون سے۔۔۔۔
اس پر شاعر کی باچھیں کھل اٹھیں اور رئیس صاحب کی طرف منہ کر کے بولا۔ "رئیس صاحب، چتون بھی ٹھیک ہوگا مگر حَپّوں بھی مزا دے ریا ہے۔"

از "مشاعروں کی بودوباش"
تصنیف: اردو کا حال
مصنف: رضا علی عابدی
جناب نیرنگ !!!!
رضا علی عابدی
صحافیوں، ادیبوں اور براڈ کاسٹرز کی دنیا میں رضا علی عابدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے. لیکن لندن کے اکثر ادارے جو اردو کی نشونما اور اس کی تدریج کے خواہاں ہیں جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں معروف اردو دانوں کی قابلیت کی ویسی قدر نہیں کی جاتی جتنی مغربی ممالک میں ان کے صحافیوں، ادیبوں اور براڈ کاسٹرز کو ملتی ہے.رضا صاحب میری بہت پسندیدہ شخصیت ہیں اور دور حاضر میں محبت کی عجب تصویر ہیں۔انکی کتابیں جرنیلی سڑک، شیر دریا، کتب خانہ، ریل کہانی،انتہائی نادر ہیں۔۔۔۔۔۔اردو کا حال کی کیا بات ہے بار بار پڑھنے پہ بھی دل نہیں بھرتا۔۔۔۔۔۔۔
جیتے رہیے ۔۔۔ڈھیر ساری دعائیں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے یقین ہے کہ ہر رات ایک نئی کائنات تخلیق ہوتی ہے، جب انسان سو جاتے ہیں تو چاندنی میں پریاں اترتی ہیں۔ دنیا کا گوشہ گوشہ نقشے میں موجود ہے، لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کہیں نہ کہیں ایک ایسا جزیرہ ضرور ہے جس میں انسان نے آج تک قدم نہیں رکھا۔ اس جزیرے میں ایسے ایسے رنگ ہیں جو انسانی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھے۔ طرح طرح کے خوشنما پرندے ہیں جن کے چہچہوں میں ایسی موسیقی ہے جس سے انسان ناآشنا ہے۔ اس کا کونہ کونہ پراسرار اور مسحور ہے اور وہ جزیرہ اس سیّاح کا منتظر ہے جو کسی دن کشتی لے کر چپکے سے آجائے گا۔
اقتباس از بےبی
کتاب: حماقتیں
مصنف: شفیق الرحمن

ہائے!!! مجھے شفیق الرحمٰن کا یہ انداز بے حد، بے حد پسند ہے۔ ان کی نثر میں رومانیت کا یہ پہلو تو بس جان لے لیتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ بس پنکھ لگ جائیں اور ہم ان اجنبی دیسوں کی اور جائیں جہاں ایسے رنگ ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے۔ جہاں ایسے خوشنما پرندے ہیں کہ جن کے چہچہوں میں وہ موسیقی ہے جس سے ہم نا آشنا ہیں۔ کیا میں ہی وہ سیّاح ہوں!!!
ہاں میں کسی دن کشتی لے کے جاؤں گی چپکے سے اس اجنبی جزیرے پہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
ذوا لقرنین ، اگر شفیق الرحمٰن پر یہ مضمون اگلے ایک سال تک آپ کے قلم سے سرزد نہ ہوا تو میں رنگ کا ڈبہ اور برش لے کر شہر کی دیواروں پر کچھ نعرے لکھنے کے نکل کھڑا ہوں گا ۔ مجھے امید ہے کہ احمد بھائی بھی اپنی کُوچی لے کر میرا ساتھ دے رہے ہوں گے ۔

یاد دہانی:)
 

سیما علی

لائبریرین
ہائے!!! مجھے شفیق الرحمٰن کا یہ انداز بے حد، بے حد پسند ہے۔ ان کی نثر میں رومانیت کا یہ پہلو تو بس جان لے لیتا ہے۔
جی چاہتا ہے کہ بس پنکھ لگ جائیں اور ہم ان اجنبی دیسوں کی اور جائیں جہاں ایسے رنگ ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھے۔ جہاں ایسے خوشنما پرندے ہیں کہ جن کے چہچہوں میں وہ موسیقی ہے جس سے ہم نا آشنا ہیں۔ کیا میں ہی وہ سیّاح ہوں!!!
ہاں میں کسی دن کشتی لے کے جاؤں گی چپکے سے اس اجنبی جزیرے پہ۔
جاسمن جی !!!!!
دل سے کہی ہوئے ہر بات اثر رکھتی ہے آپ نے بڑی بے ساختگی سے اظہار کیا ہے ۔
شفیق الرحمنٰ صاحب کے افسانوں میں طنز کی بجائے ظرافت کے عناصر غالب ہیں وہ اپنی تحریروں میں مسکراہٹ ہی کے نہیں قہقہوں کے قائل نظر آتے ہیں۔ حجاب امتیاز علی کہتے ہیں:’’وہ (شفیق الرحمان) اپنی روانی میں بلاتکلف ننھی ننھی پُھل جھڑیاں چھوڑے چلے جاتے ہیں وہ ان کم یاب لوگوں میں سے ہیں جن کی خوشی طبعی اپنے اوپر بلاتکلف ہنس سکتی ہے۔‘‘
ٹھیک کہا آپ نے کہ انکی نثری رومانیت بے حد اثر انگیز ہے اور قاری کو پنکھ لگا دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
اردو ادیب کو اپنے ماضی سے قطع تعلق کر کے کم سے کم ایک بڑی قربانی تو دینی پڑی ہے۔ وہ بیک جنبش قلم الفاظ و تلمیحات اور حکایات و علائم کے ذخیرے سے، جو فن کار مصنف کو نازک اور کار آمد ترین آلات اظہار بخشتا ہے، محروم ہو گیا ہے۔ لفظ محض چند آوازوں اور لکیروں کا نام نہیں جو مٹ جانے کے بعد پھر پیدا کی جا سکیں۔ ان میں ہمارے پیشروؤں کی جذباتی وارداتیں اور نفسیاتی مشاہدات مضمر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک انسانی تجربے کی طیف میں ایک خط کا حکم رکھتا ہے۔ اگر طیف کا ایک خط گم ہو جائے تو ہم اس کی جگہ دوسرا خط نہیں کھینچ سکتے۔ اُسی پہلے خط کو پھر سے دریافت کرنا پڑے گا۔ آج کے لکھنے والے کو اس وجہ سے نئی چیزوں کو نئے نام دینے ہیں۔ اسے ان چیزوں کو جو پہلے معلوم و محسوس تھیں پھر سے جاننا اور پہچاننا ہے۔ ماضی سے دست بردار ہو کر اس نے اپنی تخلیقی شخصیت پہ ایک بوجھ ڈال دیا ہے جس سے اس کی فنی مشکلات دو چند ہو گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس کو بیک وقت نازک اور اکھڑ، واضح اور دھندلا، گومگو میں گرفتار اور ہزاروں معنوں میں مضطرب دیکھتے ہیں۔ لفظ جن سے اس نے پہلو تہی برتی تھی۔ اب اس سے پہلو چراتے ہیں۔ (سر) ڈینی سن روس نے، جو اس بات سے واقف تھے کہ زندہ زبانوں میں تلمیحات اور حوالوں کا ایک ذخیرہ مخفی ہوتا ہے جسے تعلیم یافتہ افراد اپنا کر اپنی تحریر و تقدیر میں رنگ اور زور پیدا کرتے ہیں، چند سال پہلے ایک کتاب کی صورت میں انگریزی زبان کے پس منظر کا نقشہ کھینچا تھا۔ ادبی حوالوں کے زیر عنوان انہوں نے بائبل کے مستند ترجمے کا، شکسپیئر کا اور بچوں کے گیتوں کا تذکرہ کیا تھا اور ’’انگریزی روایت‘‘ کے تحت قومی تہوار معروف شخصیتوں کے القاب و خطابات اور مشہور اشتہارات گنائے تھے حتیٰ کہ ایک جُز ’’گھسے پٹے جملوں‘‘ پر بھی لکھا تھا۔ آج سے پچاس برس پہلے، اسی انداز سے، اردو کا ناک نقشہ کتنی آسانی سے بیان ہو سکتا تھا! اور آج یہ کام کتنا مشکل ہے!


ہمارے زمانے کا اردو ادیب
پطرس بخاری
 
Top