شیفتہ اور اُلفت بڑھ گئی اس ستمِ ایجاد سے

اور اُلفت بڑھ گئی اس ستمِ ایجاد سے
ک نئی لذت جو پائی دل نے ہر بیداد سے
غیر کو اندوہِ فرقت اب مبارک ہو کہ یاں
دھیان جاتا ہی نہیں اُس کا دلِ ناشاد سے
عشق میں یہ مرحلہ بھی پیش آتا ہے ضرور
کس کو امیدِ اثر ہے نالہ و فریاد سے
مجھ سے کیا کیا شاد ہو گی روحِ قیس و کوہکن
پھر نظر آتے ہیں کوہ و دشت کچھ آباد سے
ہیں وہ قابو میں عدو کے بس یہ ہی تدبیر ہے
جائیں اُن کے پاس نالاں یار کی بیداد سے
رشک آذادی پہ ہے اسیروں کی مجھے
چھُٹ گئے ہیں جو جان دے کے پنجہِ صیاد سے
ڈوب مرنے کی جگہ ہے غسلِ صحت ہجر میں
روئے دیتا ہوں احباء کی مبارک باد سے
وہ قتیلِ تیشہ ہے میں کشتہِ آبروِ یار
یار بیجا مجھ کو نسبت دیتے ہیں فرہاد سے
چھوڑتے ہو کیوں مجھے جانے دو ان باتوں کو بس
تم بھلا جاتے رہو گے شیفتہ کی یاد سے؟
 
Top