انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
😍* پرانے دور میں لکھنؤ کے الیکشن اور تہذیب* 😍
,
لکھنؤ میں پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل کا فخر "دلربا جان'" چوک سے امیدوار بنیں۔

اس کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں ایک مشہور حکیم صاحب تھے - حکیم شمس الدین۔ چوک میں ان کی ڈسپنسری تھی۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ وہ بڑے باعزت و نیک نام تھے ۔ دوستوں نے انہیں زبردستی الیکشن میں "دلربا جان" کے مقابلے میں کھڑا کیا۔

" دلربا جان" کی تشہیر نے زور پکڑا۔ روزانہ سر شام چوک میں محفلیں سجنے لگیں۔ جدن بائی جیسی اپنے زمانے کی مشہور رقاصاؤں کے پروگرام ہونے لگے اور محفلوں میں بےتحاشہ بھیڑ جمع ہونے لگی ۔ اس وقت حکیم صاحب کے ساتھ چند دوست ہی ہوا کرتے تھے جنہوں نے انہیں الیکشن میں جھونک دیا تھا۔

اب حکیم صاحب کو غصہ آیا کہ تم لوگوں نے مجھے مار دیا ، میری شکست یقینی ہے۔ دوستوں نے ہمت نہیں ہاری' اور نعرہ دیا:

"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو
"دل دیجئے دلربا کو " ووٹ شمش الدین کو"

جواب میں "دلربا جان" نے یہ نعرہ دیا:

"ہے ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو"
"دلربا کو ووٹ دیجئے" نبض شمس الدین کو"

خوش قسمتی سے حکیم صاحب کا نعرہ کامیاب ہوا اور وہ الیکشن جیت گئے۔

لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق، "دلربا جان" نے حکیم صاحب کو گھر پر جاکر مبارکباد دیتے ہوئے کہا:
میں الیکشن ہار گئی، آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ' مگر آپ کی جیت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔!
🤣🤣🤣🤣 🤣

یہ تھا الیکشن لڑنے کا جذبہ۔ آج ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟
 

شرمین ناز

محفلین
سونا اور مٹی
انسانی تاریخ میں ہمیشہ سونے کو ایک قیمتی دھات سمجھا گیا ہے ۔ اس کی چمک دمک نے ہر دور میں انسانوں کی نظروں کو خیرہ کیا اور زنگ سے محفوظ رہنے کی صلاحیت نے ہمیشہ انسانوں کو اپنی طرف متوجہ کیے رکھا ہے ۔سونے کے برعکس انسانوں کے ہاں مٹی کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ ایک شخص سونے کی انگوٹھی کے بدلے میں مٹی کی انگوٹھی کبھی نہیں لے گا۔یہ تبادلہ شاید اس وقت ممکن ہوتا اگر مٹی کی انگوٹھی طویل مدت تک قابل استعمال رہتی اور سونے کی فوراً ٹوٹ کر ضائع ہوجاتی ۔ مگر سب جانتے ہیں کہ مٹی کی انگوٹھی اگر بنائی جائے تھوڑ ے ہی استعمال کے بعد ٹوٹ جائے گی اور سونے کی انگوٹھی طویل مدت تک قابل استعمال رہتی ہے ۔
جو فرق سونے اور مٹی کی انگوٹھی میں ہے وہی فرق دنیا اور آخرت میں ہے ۔آخرت سونے سے زیادہ قیمتی اور دلکش ہے اور اور دنیا اس کے مقابلے میں مٹی سے بھی کم ہے ۔ بات اگر اتنی ہوتی تب بھی آخرت اس قابل تھی کہ دنیا کے مقابلے میں اسے ترجیح دی جاتی، مگر اس سے بڑ ی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور اس کی زندگی مختصر اور فانی ہے جبکہ آخرت سونے سے زیادہ قیمتی ہونے کے باوجود ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ۔اس لیے کوئی معقول آدمی کبھی دنیا کے عوض اپنی آخرت کو گنوانے کی حماقت نہیں کرسکتا۔
مگر اس کے باوجود بیشتر انسان دنیا کی فانی اور حقیر لذتوں کو اپنی منزل بنائے رکھتے ہیں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اپنی زندگی آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل کے اصول پر گزارتے ہیں ۔یعنی دنیا کا حقیر نفع سامنے اور آخرت کی اعلیٰ نعمتیں نگا ہوں سے اوجھل ہوکر غیر اہم بن جاتی ہیں ۔تاہم جو شخص ایمان کی بینائی پیدا کر لے وہ کبھی سونا دے کر مٹی نہیں لے گا۔ وہ کبھی آخرت کی قیمت پر دنیا کو قبول نہیں کرے گا۔وہ کبھی فانی دنیا کے لیے ابدی آخرت کا نقصان نہیں اٹھائے گا۔
 

شرمین ناز

محفلین
باباجی نے رات سوال کیا تھا۔۔یار یہ نماز پڑھتے وقت اللہ سے رابطہ کیوں نہیں ہوتا؟؟سوال اتناالجھا ہوا تھا کہ ہم سے جواب نہ بن پڑا، ہم نے پوچھا باباجی آپ بتائیے؟؟اپنے موبائل کی اسکرین ہمارے طرف کرکے کہنے لگے۔۔وجہ میں بعد میں بتاتا ہوں پہلے ذرا وسیم صاحب کا یہ جو نمبر لکھا ہے،اسے تو پڑھ کر سناؤ۔۔ہم نے نمبر پڑھا۔۔ کہنے لگے۔ پھر پڑھو۔۔دوبارہ نمبر پڑھ کر سنایا۔۔باباجی ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔ وسیم صاحب سے رابطہ ہوگیا آپ کا؟؟۔۔ہم نے کہا۔۔باباجی،آپ نے تو نمبر پڑھنے کا کہا تھا، نمبر پڑھنے سے کہاں رابطہ ہوتاہے؟۔ نمبر ڈائل کروں گا تو رابطہ ہو گا نا۔۔۔کہنے لگے۔۔بس، ہمارے بڑوں سے یہی غلطی ہو گئی انہوں نے ہمیں نماز پڑھنے پر لگا دیا۔۔۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ کہتا ہے۔۔اور نماز قائم کرو۔۔رابطہ قائم کرو۔۔ آپ اور ہم بس نمبر کی طرح نماز پڑھتے ہی جا رہے ہیں۔۔ دیکھو آپ اپنے بچوں سے کہو کہ اللہ سے رابطہ قائم کریں، بچہ کوشش کرے گا رابطے کی۔۔۔ اور جب نہیں کر سکے گا تو بھاگتا ہوا آپ کے پاس آئے گا۔۔ کہ بابا اللہ سے رابطہ نہیں ہو رہا۔۔ آپ پوچھو گے بیٹا کہیں آپ جھوٹ تو نہیں بولتے، غیبت تو نہیں کرتے، حق تو نہیں مارا کسی کا؟؟ یہ سب چھوڑو گے تو اللہ سے رابطہ ہوگا۔۔ ہم کو کسی نے کہا ہی نہیں اللہ سے رابطے کا، بس پڑھنے کا کہا بس پڑھتے ہی جارہے ہیں۔۔ نماز قائم نہیں کریں گے تو رابطہ کیسے ہوگا

بلاگر: عمران علی جونیئر
 

سیما علی

لائبریرین
اگر آپ غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح نہیں کہہ سکتے تو پھر آپ کو خراب ملکی حالات اور خراب معاشی حالات اور مہنگائی کا رونا بھی نہیں رونا چاہئیے ....

یہ انتہائی غیر سیاسی پوسٹ ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں شعوری طور پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین
درست صد فی صد درست
آمین الہی آمین
 

سیما علی

لائبریرین
انسان کی خصلتوں میں سے تعصب ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بد خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے، مگر اس کا طریقہ یہ بات جتلاتا ہے کہ عدل وانصاف اس میں نہیں ہے۔ متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نکل نہیں سکتا، کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات سننے، سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔
- سر سید احمد خاں
 

سیما علی

لائبریرین
فیصلہ کرنے میں جذباتی جلدی نہ کیا کریں
۔
ایک معلمہ کہتی ہیں :
میں نے طالبات کی ایک ٹیم کو سال کے آخر میں ایک پروگرام میں انکی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنے کیلیے ٹرینڈ کیا تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آ گیا
نظم شروع ہوئی.
مگر انکی اس خوبصورت کارکردگی پر اسوقت پانی پھر گیا جب ایک بچی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھ رہی تھی اچانک اپنے ہاتھ، جسم اور انگلیوں کو حرکت دینے لگی اور اپنا منہ کسی کارٹون کے کردار کی طرح بنانے لگی.
اس کی ان عجیب وغریب حرکتوں کی وجہ سے دوسری تمام بچیاں پریشان ہو گئیں۔
معلمہ کہتی ہیں :
میرا جی چاہا کہ میں جاکر اس بچی کو ڈانٹ پلاؤں اور اسے تنبیہ کروں کہ وہ ڈسپلن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ میں اسے سختی کے ساتھ ان بچیوں سے کھینچ کر الگ کر دوں لیکن جوں جوں میں اس کے قریب جاتی وہ پارے کیطرح چھٹک کر مجھ سے دور ہو جاتی
اسکی یہ حرکتیں بڑھتی گئیں اور وہ سارے لوگوں کی نظر کا مرکز بن گئی
وہاں موجود تمام خواتین اسکی ان حرکتوں پر زور زور سے ہنس رہی تھیں
میری نظر پرنسپل پر پڑی جنکی پیشانی مارے شرمندگی کے پسینے سے شرابور تھی وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور مجھ سے کہنے لگیں :
اس بدتمیز اور بیہودہ لڑکی کو سکول سے نکالنا ضروری ھے میں نے بھی انکی اس بات کی تائید کی
لیکن ایک چیز نے ہم سب کی نظروں کو متوجہ کیا کہ اس پورے وقفے میں اس بچی کی ماں کھڑی ہو کر اپنی بچی کی ان حرکتوں پر تالی بجاتی رہی، گویا وہ اسکی حوصلہ افزائی کر رہی تھی کہ وہ اپنا یہ فضول کام جاری رکھے
جیسے ہی نظم ختم ہوئی میں جلدی سے اسٹیج کیطرف بڑھی اور اس لڑکی کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور بولی:
تم نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھنے کے بجائے یہ اول جلول حرکتیں کیوں کی؟
وہ بولی :
اسلیے کہ پروگرام میں میری ماں بھی موجود تھی مجھے اسکے اس ڈھٹائی بھرے جواب پر بڑی حیرت ہوئی.
لیکن مجھے اسوقت بڑا دھچکا لگا جب اسنے آگے یہ کہا:
میری ماں بول اور سن نہیں سکتی،
میں نے گونگے لوگوں کی زبان میں اس نظم کا ترجمہ اپنی ماں کے لیے پیش کیا تاکہ دیگر تمام بچیوں کی ماؤں کیطرح میری ماں بھی اپنی بیٹی کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کر سکے
جیسے ہی اسنے یہ وضاحت کی وہ دوڑ کر اپنی ماں کی طرف بڑھی اور اسکے گلے لگ کر زار و قطار رونے لگی.
جب وہاں موجود سارے لوگوں کو حقیقت معلوم ہوئی تو سارا ہال سسکیوں سے گونج اٹھا
واقعے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ھے کہ پرنسپل نے اس لڑکی کو اسکول سے نکالنے کے بجائے اسے انعام سے نوازا اور اسے "مثالی طالبہ"
کا خطاب دیا
وہ لڑکی جب وہاں سے نکلی تو سر اٹھا کر خوشی سے اچھلتے ہوئے جا رہی تھی
بعض مواقع پر جلدبازی میں رد عمل ظاہر مت کیجیے،
دوسروں پر حکم لگانے میں جلدی سے کام مت لیجیے
 

رباب واسطی

محفلین
ایک خاتون نے اپنی مہران گاڑی ایک دوسری خاتون کی برانڈ نیو ٹیوٹا کرولا میں ٹھوک دی
کرولا والی خاتون نے اتر کے مہران والی کو خوب باتیں سنائیں اور کہا کہ اس کے نقصان کا ہرجانہ بھرے
مہران والی باجی نے اپنے شوہر کو فون کیا تو جواب ملا کہ میں بہت مصروف ہوں اسلئے نہیں آسکتا لہذا اپنے طور پہ معاملہ طے کرلے اور مطلوبہ رقم دے دلا کے جان چھڑا لے
کرولا والی بے بی نے اپنے بوائے فرینڈ کو فون کیا کہ جانو وہ جو کرولا تم نے مجھے برتھ ڈے پہ گفٹ کی تھی وہ ایک مہران والی کمینی نے ٹھوک دی ہے لہذا جلدی پہنچو اور نقصان کے پیسے بتاؤ، مجھے بہت صدمہ اور غصہ آرہا ہے
تھوڑی دیر میں کرولا والی بے بی کا بوائے فرینڈ جائے وقوعہ پر پہنچا اور وہ انسان بدقسمتی سے مہران والی باجی کا شوہر نکلا
 

رباب واسطی

محفلین
بیوی بسترِ مرگ پر آخری سانسیں پوری کر رھی تھی
شوھر کے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رھے تھے
ڈاکٹر بولا ھم اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کار لا رھے ھیں مگر کوئی جھوٹی تسلی نہیں دینا چاہ رھےجسم ساکت پڑا ھے لگ رھا ھے مریضہ کومہ میں چلی گئی ھے
شوھر گِڑگڑایا ڈاکٹر خدا کے لئے اسے بچا لیجئے۔ میری فیملی کو اس کی سخت ضرورت ھے بچے چھوٹے ھیں اور ابھی اس کی عمر ھی کیا ھے صرف چھتیس سال پلیز اس کو بچا لو اسے
اچانک ایک کرشمہ ھوا
ایک جُنبش ہوئی
ای سی جی مشین پر لہروں نے مدوجزر کی سی صورت اختیار کر لی
اور اچانک خاتون نے اپناایک ھاتھ اوپر اٹھایا
لبوں کو حرکت دی اور بولی
ڈارلنگ میری عُمر چونتیس سال ھے چھتیس نہیں
 

رباب واسطی

محفلین
ایک میراثی کا بیٹا شہر میں پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن گیا
عرصہ بعد اس نے باپ کو ایک خط بھیجا
میراثی ان پڑھ تھا
لہذا اس نے ڈاکیے سے خط پڑھنے کو کہا
ڈاکیے نے خط کھولا تو اندر ایک خط اور ساتھ ایک سختی سے تہہ شدہ چھوٹا کاغذ تھا
خط میں اپنا حال احوال لکھنےکے بعد اس نے باپ کو شہر بلایا تھا
جبکہ دوسرے کاغذ کے متعلق لکھا تھا کہ
اسے کسی چیز کی ضرورت ہے لیکن یہ کاغذ بڑے میراثی کےعلاوہ کوئی نہ دیکھے.
بڑا میراثی ٹھہرا انپڑھ اسےخط پڑھنا تو آتا نہ تھا لہذا اس نے اندازے سے گاؤں کی سوغاتیں اکٹھی کرنا شروع کردیں
یعنی دیسی گھی، مکھن، مکئی کا آٹا، سرسوں کا تیل، سرسوں کا ساگ، بھٹے، غرض جو بھی اس کے ذہن میں آیا پوٹلی میں باندھ لیا لیکن تسلی نہ ہوئی
بالآخرمجبوراً ماسٹرجی کے پاس گیا اور رازداری کے وعدے پر چٹھی پڑھنے کی درخواست کی.
ماسٹرجی نےکاغذ کھولا کاغذ پر فقط ایک جملہ تحریر تھا:
ابا! آتے ہوئے ڈھولکی ضرور لانا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ایک ریٹائرڈ افسر ایک کریانہ کی دکان پر گیےاور کہا:
مجھے دال مسور کے 742 دانے دے دو.

دکاندار لڑکے نے بغیر کچھ کہے 200 گرام مسور کی دال تول دی ۔
ریٹائرڈ افسر نے حیرت سے پوچھا ، کیا واقعی یہ 742 دانے ہیں؟.

لڑکے نے کہا ، گھر جاکر گن لیں ۔ میرے والد صاحب نے اس کی گنتی 3710 دانے فی کلو گرام کی ہے ۔ یہ 200 گرام پورے 742 دانے ہوں گے۔

ریٹائرڈ افسر نے پوچھا ، بہت خوب ویسے تمہارے والد صاحب کیا کرتے ہیں؟.
لڑکے نے جواب دیا ،
آپ کی طرح ریٹائرڈ ہیں، بس اسی طرح وقت گذارتے ہیں.

(اپنے ریٹائرڈ دوستوں کے نام).
 

سیما علی

لائبریرین
ٹیچر نے بچوں سے کہا کہ کوئ ہے جو جنت کی مٹی لا سکتا ہے۔ دوسرے دن ایک بچہ کسی چیز میں تھوڑی سی مٹی لیکر آیا اور بولا میڈم کل آپنے جنت کی مٹی لانے کو کہا تھا یہ لیجئے - ٹیچر نے حیرانی سے پوچھا کہ یہ کہاں سے لائے ہو- بچے نے مسکرا کر جواب دیا
اپنی امی کے قدموں کے نیچے سے😇😇😇😇😇
 

سیما علی

لائبریرین
احترامِ اُستاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌹

شادی کی ایک تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس گئے اور پوچھا " کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے
" استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔!!! "
 

سیما علی

لائبریرین
خلیل جبران کی اپنی محبوبہ مے زیدہ سے محبت بغیر کسی ملاقات اور دیدار کے بیس سال تک چلتی رہی. جبران نیویارک میں تھا اور مے زیدہ قاہرہ میں. دنیا کے دو کونوں سے دونوں باہم خطوط کا تبادلہ کیا کرتے تھے.ایک خط میں جبران نے مے زیدہ کی تصویر مانگی تو مے زیدہ نے اس کو لکھا:

" سوچو ! تصور کرو !
میں کیسی دکھتی ہوں گی؟
"جبران : " مجھے لگتا ہے تمھارے بال چھوٹے ہوں گے جو تمھارا چہرہ ڈھانپ لیتے ہوں گے. "مے زیدہ نے یہ پڑھ کر اپنے لمبے بال کاٹ ڈالے اور ایک خط کے ساتھ اپنے چھوٹے بالوں والی تصویر بھیجی.
جبران: " تم نے دیکھا ؟ میرا تصور بالکل سچا تھا.

"مے زیدہ : " محبت زیادہ سچی تھی.....!! "
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
خلیل جبران کی اپنی محبوبہ مے زیدہ سے محبت بغیر کسی ملاقات اور دیدار کے بیس سال تک چلتی رہی. جبران نیویارک میں تھا اور مے زیدہ قاہرہ میں. دنیا کے دو کونوں سے دونوں باہم خطوط کا تبادلہ کیا کرتے تھے.ایک خط میں جبران نے مے زیدہ کی تصویر مانگی تو مے زیدہ نے اس کو لکھا:

" سوچو ! تصور کرو !
میں کیسی دکھتی ہوں گی؟
"جبران : " مجھے لگتا ہے تمھارے بال چھوٹے ہوں گے جو تمھارا چہرہ ڈھانپ لیتے ہوں گے. "مے زیدہ نے یہ پڑھ کر اپنے لمبے بال کاٹ ڈالے اور ایک خط کے ساتھ اپنے چھوٹے بالوں والی تصویر بھیجی.
جبران: " تم نے دیکھا ؟ میرا تصور بالکل سچا تھا.

"مے زیدہ : " محبت زیادہ سچی تھی.....!! "
شکر ہے جبران کو گنجی عورتیں پسند نہیں تھیں 😂😂😂
 

رباب واسطی

محفلین
احترامِ اُستاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔🌹

شادی کی ایک تقریب میں ایک صاحب اپنے جاننے والے آدمی کے پاس گئے اور پوچھا " کیا آپ نے مجھے پہچانا؟"
انہوں نے غور سے دیکھا اور کہا "ھاں آپ میرے پرائمری سکول کے شاگرد ھو۔ کیا کر رھے ھو آج کل؟"
شاگرد نے جواب دیا کہ "میں بھی آپ کی طرح سکول ٹیچر ھوں۔اور ٹیچر بننے کی یہ خواہش مجھ میں آپ ھی کی وجہ سے پیدا ھوئی۔"
استاد نے پوچھا "وہ کیسے؟"
شاگرد نے جواب دیا، "آپ کو یاد ھے کہ ایک بار کلاس کے ایک لڑکے کی بہت خوبصورت گھڑی چوری ھو گئی تھی اور وہ گھڑی میں نے چرائی تھی۔ آپ نے پوری کلاس کو کہا تھا کہ جس نے بھی گھڑی چرائی ھے واپس کر دے۔ میں گھڑی واپس کرنا چاھتا تھا لیکن شرمندگی سے بچنے کے لئے یہ جرات نہ کر سکا۔
آپ نے پوری کلاس کو دیوار کی طرف منہ کر کے ، آنکھیں بند کر کے کھڑے ھونے کا حکم دیا اور سب کی جیبوں کی تلاشی لی اور میری جیب سے گھڑی نکال کر بھی میرا نام لئے بغیر وہ گھڑی اس کے مالک کو دے دی اور مجھے کبھی اس عمل پر شرمندہ نہ کیا۔ میں نے اسی دن سے
" استاد بننے کا تہیئہ کر لیا تھا۔"
استاد نے کہا کہ "کہانی کچھ یوں ھے کہ تلاشی کے دوران میں نے بھی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں اور مجھے بھی آج ھی پتہ چلا ھے کہ وہ گھڑی آپ نے چرائی تھی۔!!! "
واقعی۔ بہت ہی زبردست
 
Top