امید سحر کی بات سنو: : زاہدہ حنا

امید سحر کی بات سنو
زاہدہ حنا
اتوار 25 اکتوبر 2020
2097525-zahidahinanewnew-1603607711.jpg

جنگ گزیدگی اورجنگی جنون نے انتہا پسندی کو جس طرح ہوا دی ہے، ہماری ثقافت کی بنت جس طور ادھیڑ دی ہے۔


یہ 1956کے اکتوبرکی بات ہے، میںنے اردو روانی سے پڑھنا اور لکھنا سیکھ لی تھی۔ ہم چند مہینوں پہلے اپنے خاندان سے اور اپنے آبائی شہرسے مل کر واپس آئے تھے۔

ادبی کتابوں میں مجھے مسدس حالی، شکوہ، جواب شکوہ اورمسجد قرطبہ پڑھائی گئی تھی اور مونگیر میں خالہ زاد بھائیوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری تھی اور ابن صفی کے ناولوںسے بھری الماری میرے لیے کھول دی تھی۔ یہ ناول میں نے مربھکوں کی طرح پڑھے تھے۔ 1956 کے وہ ابتدائی چار مہینے ایسے تھے جنھیں میں اپنی زندگی کا سنہری زمانہ کہتی ہوں۔

یہ وہ دور تھا جب میں سچی تاریخ پڑھنے سے محروم رہی تھی اور میری گزر بسر عبدالحکیم شرر،صادق حسین سردھنوی اور نسیم حجازی کے تاریخی ناولوں پر ہورہی تھی۔ ڈاکٹر مجیب کی روسی ادب کی تاریخ اور معین الحق صاحب کی ’’قدیم مشرق‘‘ کو میں کئی مرتبہ پڑھ چکی تھی اور ذہن میں سوال اٹھنا شروع ہوگئے تھے۔

ان ہی دنوں ایک سنہری صبح اردوکا اخبارکھولا تو اس سے معلوم ہوا کہ سوویت فوجیں ہنگری کی سرحدوں کو روندتی ہوئی، ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ اس وقت تک سوویت انقلاب میرے نزدیک بہت محترم تھا، لیکن ہنگری پر حملے کا پڑھ کر دل ڈوب گیا اور پھر دل میں نصب بت ایک ایک کرکے ٹوٹتے گئے۔ 4 نومبر 1956 اور بعض اخباری خبروں کے مطابق 10 نومبرکو سوویت ٹینکوں نے اس بغاوت کو بری طرح کچل دیا۔ ہزاروں نوجوانوں مارے گئے۔ سیکڑوں زخمی ہوئے اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ ترک وطن کرکے جدھر کو سینگ سمائے چل نکلے۔

اس کے وزیراعظم ناگے نے عوام کا ساتھ دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا اور وہ بغاوت جو 23 اکتوبر 1956 کو شروع ہوئی تھی، وہ 4 نومبر 1956 اور بعض وقایع نگاروں کے مطابق 10 نومبرکوکچل دی گئی۔ وزیر اعظم ناگے نے وار ساپیکٹ سے ہنگری کی علیحدگی کا بھی اعلان کیا۔ اس کا خیال تھا کہ نوجوانوں کی حمایت سے وہ ہنگری میں جمہوریت قائم کرسکے گا لیکن اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے سوویت سپاہی اس کے تعاقب میں تھے۔ اس نے یوگو سلاویہ کے بوڈاپسٹ سفارت خانے میں سیاسی پناہ لی لیکن وہ پناہ کسی کام نہ آئی۔ ناگے کو گرفتارکیا گیا، پھرقیدکیاگیا اور پھر 2 برس بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔

بالکل اسی طرح جس طرح افغانستان کے ڈاکٹر نجیب کو ایک سفارت خانے سے گھسیٹ کر نکالا گیا اورکھمبے سے لٹکا دیا گیا۔ کہنے کو یہ بہت پرانی بات ہوئی اور بھلا دی گئی لیکن وہ ملک جنھیں آج بھی اس بات کی آس ہے کہ ان کے یہاں جمہوریت آئے گی وہ کبھی مدھم اورکبھی تیز اورکبھی دھیمے سروں میں آزادی کی، انصاف اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ وہ لوگ جنھیں کھیلوں سے دلچسپی ہے وہ 1956کے اولمپک کھیلوں کو یاد کرتے ہیں جو میلبورن میں ہوئے تھے اور جن میں سوویت یونین اور ہنگری کی واٹر پولو ٹیمیں آمنے سامنے ہوئی تھیں۔ اس میچ کو ’’پانی میں خون‘‘ کا نام دیا گیا اورکھیلوں کی جدید تاریخ میں آج بھی حیرت اور صدمے سے یادکیا جاتا ہے۔

چونسٹھ برس پہلے کی یہ خبریں اور دھندلی پڑ جانے والی تصویریں یاد آتی ہیں تو اس لیے کہ چند دنوں پہلے کے جلسے کے مناظر اور وہاں لگائے جانے والے نعرے یاد آنے لگتے ہیں، جنھیں جمہوریت کے چاہنے والے لگا رہے تھے۔ ان کا مطالبہ اس کے علاوہ کچھ نہ تھا کہ کٹھ پتلیوں کو ہٹایاجائے اور شفاف انتخابات کے بعد ایک نمایندہ حکومت وجود میں آئے۔

ایک نمایندہ حکومت کے لیے ابھی ہمیں اور بہ طور خاص ہماری نوجوان نسلوں کو کتنی قربانیاں دینی ہیں، اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اب سے 20 برس پہلے میں نے جنگی جنون کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ روادار سماج جس میں شیعہ اور سنی اپنے اپنے عقائد پر سختی سے قائم رہنے کے باوجود ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے، اب عنقا ہے۔ شہروں کی دیواروں پر ’’فلاں کافر اور فلاں واجب القتل‘‘ جیسے نعرے لکھے جاتے ہیں۔ پاکستانی آئین تمام مذاہب اور فرقوں کی جان کی سلامتی، عبادت کی آزادی اور روزگارکے مواقع کی یقین دہانی کراتا ہے لیکن ہمارے بہت سے علماء بعض کمیونٹیز کو ملازمتوں سے نکالنے اور ان کی عبادتگاہوں کو مسمارکرنے کے بیانات دیتے ہیں۔ پاکستان کا ایک بہت بڑا تجارتی ادارہ جو لاکھوں کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کماتا ہے، اس کی مصنوعات دکانوں پر نہ رکھنے کی متشدد مہم صرف اس لیے چلائی جاتی ہے کہ وہ ادارہ ایک مخصوص خاندان کی ملکیت ہے۔ پاکستان کے نامور اورنوبل انعام یافتہ سائنسداں ڈاکٹر عبدالسلام موت سے پہلے وطن واپسی کے لیے ترستے رہے۔ اقلیتوں کو پاکستان کا غدارکہا جاتا ہے، ان پر روزگارکے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ مندر، چرچ اور دوسری اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں۔ بہت سی مساجد کی پیشانی پر اب وہ مسلک تحریرکیا جاتا ہے صرف جس کے ماننے والے ہی اس میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ جمعہ اور عیدین کی نمازیں فوج یا پولیس کے پہرے میں ادا ہوتی ہیں۔

ہمارے بہت سے لکھنے والے بھی جنگ گزیدگی کا شکار ہیں، وہ جنگی نعرے دیتے ہیں، جنگی ترانے لکھتے ہیں اور ہتھیاروں کی ستائش کرتے نہیں تھکتے۔ عورتیں سماج کا ایک ایسا گروہ ہیں جو معتوب ہیں اور شیطان کی نمایندہ ہیں۔ لاہور میں لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی غنڈہ گردی کے ایک اندوہ ناک واقع پر اس شہرکی تاریخی مسجد کا امام یوں تبصرہ کرتا ہے کہ جب لڑکیاں اورعورتیں بے پردہ نکلیںگی تو پھر یوں تو ہوگا۔ آج انتہا پسندوں اور جنونیوں کا سب سے آسان نشانہ عورت ہے۔ عصمت دری ڈیڑھ برس کی بچی کی ہوتی ہے اور ستربرس کی بڑھیا کی بھی۔ عورتوں کے قتل اور ان کے ساتھ ہونے والے تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سولہ سال کے بیٹے پچاس سال کی ماں کو بدچلن قرار دے کر قتل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

الیکشن کے ذریعہ برسراقتدار آنے کے لیے بیتاب چند جماعتیں یہ کہنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتیں کہ بے دینی اور فحاشی جمہوریت کی پیداوار ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برسراقتدار آکر وہ جمہوریت کا خاتمہ بالخیر کردیںگی۔ان کی طرف سے وکالت کا پیشہ ناجائز قرار دیا جا چکا ہے۔ زولوجی، بیالوجی اور اسی نوعیت کے دوسرے علوم اگر لڑکیاں حاصل کریں تو یہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہے۔ بسنت منانا غیر شرعی اور حرام ہے۔

کبوتربازی، پتنگ بازی،ویڈیو گیمز،شیطان کا پھیلایا ہوا جال ہیں، ٹیلی ویژن، فلم، موسیقی، آلات موسیقی سب حرام اورناجائز ہیں۔ این، جی، اوز مسلمانوں کو گمراہ کرنے والے ادارے ہیں اور یہود وہنود ونصاریٰ کی سازش ہیں۔ کرکٹ اور ہاکی فحاشی کے زمرے میں شامل ہیں۔ شمالی علاقوں میں دکانوں اورگھروں سے ٹی وی سیٹ، ڈش انٹینا، آڈیو اور ویڈیو کیسٹ، ٹیپ ریکارڈر نکال کر جلا دیے جاتے ہیں۔ مزاحمت کرنے والوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے اور ان پر جرمانے عائد کیے جاتے ہیں۔

جنگ گزیدگی اورجنگی جنون نے انتہا پسندی کو جس طرح ہوا دی ہے، ہماری ثقافت کی بنت جس طور ادھیڑ دی ہے، یہ اس کی مختصر ترین مثالیں ہیں۔ میرے خیال میں برصغیر اوربطور خاص پاکستان میں جنگ گزیدگی سے لڑنے کے لیے محض امن کا نام لے کر ہم ایک روادار اور رنگارنگ سماج کی طرف واپس نہیں جاسکتے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم پاکستان میں اقتدار پر قابض آمریت کے خلاف آواز اُٹھائیں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔

ایسے ہی مرحلوں پر فیضؔ یاد آتے ہیں، جنھوں نے کہا تھا۔

جگر دریدہ ہوں چاک جگرکی بات سنو

الم رسیدہ ہوں دامان ترکی بات سنو

زباں بریدہ ہوں زخم گلو سے حرف کرو

شکستہ پا ہوں ملال سفرکی بات سنو

مسافر رہ صحرائے ظلمت شب سے

اب التفات نگار سحرکی بات سنو

سحرکی بات، امید سحرکی بات سنو
 
Top