الم کی حد ہے کہاں، بے کسی کہاں تک ہے - احساس مراد آبادی

الم کی حد ہے کہاں، بے کسی کہاں تک ہے
ہمارے غم میں تمہاری خوشی کہاں تک ہے

بجا کہ پھول کی دو روزہ زندگی ہو گی
کلی سے کوئی یہ پوچھے کلی کہاں تک ہے

فرشتے سجدۂ تعظیم پر ہوئے مجبور
مرا نیاز، مری بندگی کہاں تک ہے

نظر کا قصد ہی کب تھا ترے جمال کی دید
یہ دیکھنا تھا فقط روشنی کہاں تک ہے

درندگی کا مسلسل محاذ ہے قائم
یہ دیکھنے کے لئے آدمی کہاں تک ہے

تمہارے نام سے دنیا مجھے پکار اٹھی
تمہاری ذات سے وابستگی کہاں تک ہے

نیاز مندی کو احساس دیکھنا یہ ہے
مزاجِ حسن کی آشُفتگی کہاں تک ہے

احساس مراد آبادی​
 
Top