"الفاروق " از شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حیات مقدس اور عظیم الشان کارنامے


الفاروق


شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی رحمتہ اللہ

عظیم اینڈ سنز پبلشرز
اردو بازار ، لاہور فون : 7241806
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
تمہید|18||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنی کا نام و نسب|33
تاریخ کا عنصر ہر قوم میں موجود ہوتا ہے|18||سن رشد و تربیت|
عرب کی خصوصیت|18||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے جد امجد اور ان کو جو مرتبہ حاصل تھا|34
عرب میں تاریخ کی ابتدا|19|||
سیرت نبوی میں سب سے پہلی تصنیف|19||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے برادر عم زاد زید|34
قدیم تاریخیں|20||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے والد خطاب|35
قدمأ کی جو تصنیفات آج موجود ہیں|21||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد|36
متاخرین کا دور|23||سن رشد|36
متاخرین نے قدمأ کی خصوصیتیں چھوڑ دیں|23||نسب دانی کی تعلیم|36
تاریخ کی تعریف|24||فن پہلوانی کی تعلیم|37
تاریخ کے لیے کیا چیزیں لازم ہیں؟|24||شہسواری کی تعلیم اور مقرر ہونا|37
قدیم تاریخوں کے نقص اور اس کے اسباب|24||لکھنےکی تعلیم|37
واقعات کی صحت کا معیار|26||فکر معاش|38
روایت|26||تجارت کے لئے سفر|38
درایت|26||قبول اسلام - ہجرت|39
الفاروق میں قدیم تاریخوں کی کمی کس طرح پوری کی گئی|29||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہجرت|41
درایت کے اصول جن سے الفاروق میں کام لیا گیا|29||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ جن لوگوں نے ہجرت کی|41
اصول روایت سے جن امور کا پتہ لگ سکتا ہے|29||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہاں قیام کیا؟|41
|||مہاجرین اور انصار میں اخوت|42
اصول روایت کے موجب واقعات کی صحت کے مراتب|30||اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق قائم ہوا|43
تاریخ کا طرز|30||سن 10 ہجری (623ء) تا وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم|44
تاریخ اور انشاپردازی کا فرق|31|||
یورپ کی بے اعتدالی سے احتراز|32|||
ترتیب کے متعلق چند امور قابل لحاظ|32||غزوہ بدر|45
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
قیدیوں کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے|47||یزدگرد کی تخت نشینی اور ایرانیوں کی نئی تیاریاں|
غزوہ سویق|48||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خود سپہ سالار بن کر مدینہ سے نکلنا|
غزوہ احد سن 3 ہجری|48||سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سپہ سالاری|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واقعہ احد میں ثابت قدم رہنے کی بحث|48||فوج کی ترتیب اور ایک ایک حصہ فوج کے افسر کو|
حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عقد حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ|52||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہدایتیں|
واقعہ بنو نضیر سن 4 ہجری (627ء)|52||تبلیغ اسلام کے لئے ناموران عرب کا انتخاب|
جنگ خندق یا احزاب سن 5 ہجری (627ء)|53||یزدگرد کے ساتھ سفرائے اسلام کا سوال و جواب|
واقعہ حدیبیہ سن 6 ہجری (628ء)|54||ربعی کا سفیر بن کر رستم کے پاس جانا|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اپنی بیویوں کو طلاق دینا|56||مغیرہ کی سفارت|
جنگ خیبر سن 7 ہجری (629ء)|56||قادسیہ کی جنگ اور فتح محرم سن 14 ہجری (635ء)|91
غزوہ حنین|59||فوج کی ترتیب|
قرطاس کا واقعہ|61||فوج کے جوش دلانے کے لئے فصحائے عرب کی آتش بیانی|
سقیفہ بنی ساعدہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا استخلاف|65||ابو محجن ثقفی کی ایک پرجوش واقعہ|
سقیفہ بنی ساعدہ کے متعلق جو غلط فہمی چلی آتی ہے اس کی مفصل بحث|65||ایک عورت کا اپنے بیٹوں کو اپنی پرزور تقریر سے جوش دلانا|
خلافت اور فتوحات|72||اخیر معرکہ|
عراق و شام پر اسلامی حملہ کے اسباب|72||رستم کا مارا جانا|
فتوحات عراق|75||فردوسی کی غلط بیانی کا اظہار|
عراق پر لشکر کشی|75||سعد بن وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ پر لوگوں کا طعن|
واقعہ خیبر اور مسلمانوں کی شکست|38||انتظار فتح مین حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیتابی|
واقعہ بویب رمضان سن 14 (635ء)|80||بابل کی فتح|
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
مدائن کی فتح|||جزیہ کے متعلق نہایت نتیجہ خیز واقعات|
اسلامی فوج کا عجیب و غریب بہادری سے دریا عبور کرنا|||ایک عیسائی قاصد کا مسلمان ہونا|
ایوان کسریٰ کی تصویروں کا قائم رکھنا|||خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سفیر بن کر آنا|
خزانہ نوشیروان کی عجیب و غریب یادگاریں|||خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تقریر|
جلولاسن 16 ہجری (637ء)|104||حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نئے قاعدے سے فوج کو لڑانا|
فتوحات شام|105||خطیبوں کا فوج کو جوش دلانا|
شام پر لشکر کشی کے ابتدائی حالات|||عورتوں کا لڑنا|
فتح دمشق|107||عیسائیوں کا حملہ|
حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا عجیب و غریب بہادری سے شہر پر چڑھنا|||معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ کی عجیب ثابت قدمی|
فحل ذوقعدہ سن 14 ہجری (635ء)|108||خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عکرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حملہ|
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سفارت|||مسلمان افسروں کی دلیری اور ثابت قدمی|
حمص سن 14 ہجری (635ء)|112||ایک عجیب واقعہ|
حماۃ وغیرہ کی فتح|||عیسائیوں کی شکست اور ان کے مقتولوں کی تعداد|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سفر کی سادگی|||قیصر کا قسطنطنیہ کو بھاگنا|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی بیت المقدس میں داخلہ|||حلب کی فتح|
حضرت بلال رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نماز کے وقت اذان دینا|||انطاکیہ وغیرہ کی فتح|
صخرہ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا برتاؤ|||بیت المقدس 16 ہجری (637 ء) |125
یرموک 5 رجب 15 ہجری (636 ء)|114||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیت المقدس کو روانہ ہونا|
ذمیوں کے ساتھ مراعات کی ایک عجیب مثال|||حمص پر عیسائیوں کی دوبارہ کوشش 17 ہجری (638 ء)|128
|||عیسائیوں کی طرف سے حملہ آوری|
|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہر طرف سے فوجوں کو بھیجنا|
|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا خود دمشق کو روانہ ہونا|
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
عیسائیوں کی شکست|||اہواز کی فتح|
حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا معزول ہونا|129||جو لوگ لونڈی غلام بنائے گئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے ان کا رہا ہونا|
حضرت خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معزولی کے متعلق تمام مؤرخوں کی غلطی|||ہرمزان کی تیاریاں|
معزولی کے اسباب|||ہرمزان کا امان طلب کرنا|
معزولی کی پراثر کیفیت|||ہرمزان کی شان و شوکت کے ساتھ مدینہ میں داخل ہونا اور اہل عرب کی حیرت|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ مشتہر کرنا کہ خالد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی معزولی خیانت کی وجہ سے نہ تھی|||ہرمزان کا اسلام لانا|
عمواس کی وباء سن 18 ہجری (639 ء)|131||عراق عجم سن 21 ہجری (642 ء)|139
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا شام کی طرف روانہ ہونا|||یزدگرد کا نئے سرے سے مسلمانوں پر حملہ کے لئے فوجوں کا فراہم کرنا|
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ پر آزادانہ معترض ہونا|||ڈیڑھ لاکھ فوجوں کا فراہم کرنا|
معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کی وفات|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اس مہم میں تمام صحابہ سے مشورہ کرنا|
عمرو بن العاص کا حسن تدبیر|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے پر عمل کرنا اور تیس ہزار فوج روانہ کرنا|
لاذقیہ کی فتح کی ایک عجیب و غریب تدبیر|||مغیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سفیر بن کر جانا|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا قائم مقام کر کے شام روانہ ہونا|||جنگ کی تیاریاں|
سفر کی سادگی|||ضبط و استقلال کی عجیب مثال|
مناسب انتظامات|||عجم کی شکست|
قیساریہ کی فتح شوال سن 19 ہجری (640 ء)|134||ایران پر عام لشکر کشی سن 21 ہجری (642 ء)|143
جزیرہ سن 16 ہجری (637 ء)|135||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ خود حملہ کرنا نہیں چاہتے تھے|
تکریت کی فتح|||لشکر کشی کی وجہ|
جزیرہ کے اور مقامات کی فتح||||
خوزستان|136|||
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
اصفہان کی فتح|||اسکندریہ کی فتح 21 ہجری (42 – 641 ء)|155
ہمدان وغیرہ کی فتح|||قبطیوں کا مسلمانوں کو مدد دینا|
آذر بائیجان 22 ہجری (643 ء)|145||اسلامی فوج کا قلعہ میں گھسنا|
طبرستان 22 ہجری (643 ء)|146||عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مقید ہونا اور حکمت عملی سے بچ کر نکل آنا|
آرمینیہ، فارس 23 ہجری (644 ء)|147||عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سپہ سالار بن کر حملہ کرنا|
فارس پر حملہ کرنے کا اتفاقی سبب اضلاع فارس کا مفتوح ہونا|147||قاصد کے ذریعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اسیران جنگ کو اختیار دینا کہ جس مذہب کو چاہیں قبول کریں|
کرمان 23 ہجری (644 ء)|149||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت، 26 ذولحجہ 23 ہجری (644 ء) (کل مدت خلافت 10 برس 6 مہینہ 4 دن)|159
سیستان 23 ہجری (644 ء)|149||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے اجازت طلب کرنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کئے جائیں|
معاہدے کی پابند کی ایک عجیب مثال||||
مکران 23 ہجری (644 ء)|150||خلیفہ کے انتخاب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تردد اور اس کا سبب|
خراسان کی فتح اور یزدگرد کی ہزیمت 23 ہجری (644 ء)|151||خلافت کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گفتگو|
یزدگرد کا خاقان چین سے مدد طلب کرنا|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سب سے بڑھ کر مستحق خلافت سمجھنا|
خاقان چین کی مدد سے یزدگرد کا مسلمانوں کے خلاف معرکہ|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا وفات کے وقت وصیتیں کرنا|
یزدگرد کی ہزیمت|||غیر مذہب والوں کے ساتھ ہمدردی|
مصر کی فتح 20 ہجری (641 ء)|153||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قرضہ کا بندوبست|
فسطاط کا محاصرہ||||
حضرت زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جانبازی اور فسطاط کی فتح||||
عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ اور عیسائیوں کی باہمی دعوتیں||||
 

شمشاد

لائبریرین
فہرست مضامین
الفاروق حصہ دوم

مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
فتوحات پر ایک اجمالی نگاہ|163||ملک کی تقسیم صوبجات اور اضلاع عہدہ داران ملکی|177
فتوحات فاروقی کی وسعت|163||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مقرر کردہ صوبے|178
فتح کے اسباب یورپین مؤرخین کی رائے کے موافق|||نوشیروانی عہد کے صوبے|
یورپین مؤرخین کی رائے کی غلطی|164||صوبوں کے افسر|178
فتوحات کے اصلی اسباب|165||عہدیداروں کے انتخاب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جوہر شناسی|179
سکندر وغیرہ کی فتوحات سے موازنہ|167||عہدیداروں کے مقرر کرنے کے لئے مجلس شوریٰ|181
فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اختصاص|168||تنخواہ کا معاملہ|181
نظام حکومت |170||عاملوں کے فرامین میں ان کے فرائض|182
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکومت شخصی تھی یا جمہوری؟|||عاملوں سے جن باتوں کا عہد لیا جاتا تھا|183
جمہوری اور شخصی حکومت کا موازنہ|170||عاملوں کے مال و اسباب کی فہرست|183
عرب و فارس وغیرہ میں جمہوری حکومت نہ تھی|||زمانہ حج میں تمام عاملوں کی طلبی|184
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت میں مجلس شوریٰ (کونسل)|172||عاملوں کو تنبیہ|184
مجلس شورا کے اراکان اور اس کے انعقاد کا طریقہ|172||عاملوں کی تحقیقات|185
مجلس شوریٰ کے جلسے|172||کمیشن|186
ایک اور مجلس|173||عاملوں کے ناجائز افعال پر نہایت سختی کے ساتھ گرفت|186
حکومت میں رعایا کی مداخلت|||عاملوں کی تنخواہوں کا بیش قرار ہونا|
خلیفہ کا عام حقوق میں سب کے ساتھ مساوی ہونا|||عمالان فاروقی کی فہرست|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ملکی انتظامات کے لیے الگ الگ صیغے قائم کرنا|||صیغئہ محاصل (خراج)|190
|||خراج کا طریقہ عرب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایجاد کیا|
|||ممالک مفتوحہ کا اصلی باشندوں کے قبضہ میں چھوڑنا اور اس امر میں صحابہ رضوان اللہ تعالٰی عنہم کا اختلاف|
|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا استدلال|191
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
عراق کا بندوبست|191||صیغہ عدالت|204
عراق کا کل رقبہ|192||محکمہ قضاء|
لگان کی شرح|193||رومن امپائر کے قواعد عدالت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قواعد سے موازنہ|205
عراق کا خراج|193||قواعد عدالت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تحریر|
زمیندار اور تعلقہ دار|193||قضاۃ کا انتخاب|
پیداوار اور آمدنی میں ترقی|194||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں حکام عدالت و قضاۃ کا امتحان کے بعد مقرر ہونا|208
ہر سال مال گزاری کی نسبت رعایا کا اظہار لیا جانا|194||رشوت سے محفوظ رکھنے کے وسائل|209
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ میں جس قدر خراج وصول ہوتا تھا، زمانہ بعد میں کبھی نہیں ہوا|194||انصاف میں مساوات|
خراج کا دفتر فارسی اور رومی زبان میں تھا|||آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا|210
مصر میں فرعون کے زمانہ کے قواعد مال گزاری|195||ماہرین فن کی شہادت|
رومیوں کا اضافہ|195||عدالت کا مکان|211
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قدیم طریقے کی اصلاح کی|196||محکمہ افتاء|
شام میں خراج کا قدیم طریقہ|198||محکمہ افتاء کی ضرورت|
قانون مال گزاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اصلاحات|198||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے کے مفتی|212
اس اصلاحات کا ملکی اثر|||ہر شخص فتویٰ دینے کا مجاز نہ تھا|
بندوبست مال گزاری میں ذمیوں کی رائے لینا|200||فوجداری اور پولیس|213
ترقی زراعت|201||جیل خانہ کی ایجاد|
محکمہ آبپاشی|201||جلاوطنی کی سزا|214
خراجی اور عشری زمین کی تفریق|202||بیت المال پہلے نہ تھا|
مسلمانوں کے ساتھ عشری زمین کی تخصیص کی وجہ|||بیت المال کس سن میں قائم ہوا؟|
اور قسم کی آمدنیاں|203||بیت المال کے افسر|
گھوڑوں پر زکوٰۃ|203||بیت المال کی عمارتیں|
عشور|203|||
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
جو رقم دارالخلافہ کے خزانہ میں رہتی تھی|216||فوج کے رجسٹر کا مرتب ہونا|
پبلک ورکس یا (نظارت نافعہ)|217||باقاعدہ فوج اور والنٹیر|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نہریں تیار کرائیں|||فوجی صدر مقامات|
نہر معقل|||صدر مقامات میں فوج کے لئے جو انتظامات تھے ان کی تفصیل|231
نہر سعد|218||فوجی باریکیں|
نہر امیر المومنین|218||گھوڑوں کی پرداخت|232
نہر سویز کی تیاری کا ارادہ|||فوج کا دفتر|233
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے عہد میں مختلف صیغوں کی عمارتیں|219||رسد کا غلہ|
دارالامارۃ|||فوجی چھاونیوں کا قائم کرنا اور ان کا بندوبست|
دفتر|||فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم تھیں|235
خزانہ|||فوجی دفتر کی وسعت|236
قید خانے|||ہر سال 30 ہزار نئی فوج تیار ہوتی تھی|
مہمان خانے|||حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فوجی انتظام کس زمانہ تک قائم رہا اور اس کے تغیر کے نتائج|
سڑکوں کا انتظام|220||فوج میں عجمی، رومی، ہندوستانی اور یہودی بھی داخل تھے|237
مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں|||تنخواہوں میں ترقی|238
شہروں کا آباد کرنا|221||رسد کا انتظام|
بصرہ|||رسد کا مستقل محکمہ|
کوفہ|222||خوراک، کپڑا اور بھتہ|
فسطاط|224||تنخواہوں کی تقسیم کا طریقہ|240
فسطاط کی وسعت آبادی|225||تنخواہوں کی ترقی|
موصل|||اختلاف موسم کے لحاظ سے فوج کی تقسیم|241
جیزہ|226||بہار کے زمانے میں افواج کا قیام|
صیغہ فوج|227||آب و ہوا کا لحاظ|
قدیم سلطنتوں کے فوجی، انتظامات غیر مکمل|||کوچ کی حالت میں فوج کے آرام کا دن|242
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فوجی انتظام کی ابتدا|228||رخصت کے قاعدے|
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر||مضمون|صفحہ نمبر
فوج کا لباس|||حدیث کی تعلیم|257
فوج میں خزانچی و محاسب و مترجم|243||فقہ|
فن جنگ میں ترقی|||مسائل فقہ کی اشاعت کی مختلف تدبیریں|258
فوج کے مختلف حصے|244||پہلی تدبیر|
ہر سپاہی کو جو (ضروری) چیزیں ساتھ رکھنی پڑتی تھیں|||دوسری تدبیر|
قلعہ شکن آلات|||تیسری تدبیر|
سفر مینا|245||چوتھی تدبیر|
خبر رسانی اور جاسوسی|246||فقہ کی تعلیم کا انتظام|158
پرچہ نویسوں کا انتظام|||فقہاء کی تنخواہیں|260
صیغہ تعلیم اور صیغہ مذہبی|247||معلمین فقہ کی رفعت شان|261
اشاعت اسلام کا طریقہ|248||ہر شخص فقہ کی تعلیم کا مجاز نہ تھا|
اشاعت اسلام کے اسباب|249||اماموں اور مؤذنوں کا تقرر|262
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے میں جو لوگ اسلام لائے|250||حاجیوں کی قافلہ سالاری|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں جو کوشش کی|252||مساجد کی تعمیر|
قرآن مجید کی حفاظت اور صحت الفاظ و اعراب کی تدبیریں|253||حرم محترم کی وسعت|263
قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام مکاتب|254||حرم کی تجدید|
بدوؤں کو جبری تعلیم|||مسجد نبوی کی مرمت اور وسعت|
کتابت کی تعلیم|||مسجد میں فرش اور روشنی کا انتظام|264
قراء صحابہ کا تعلیم قرآن کے لیے دور دراز مقامات پر بھیجنا|||متفرق انتظامات|264
تعلیم قرآن کا طریقہ|255||سن ہجری کا مقرر کرنا|265
دمشق کی مسجد میں طلبہ کی تعداد|||مختلف قسم کے رجسٹر|
اشاعت قرآن کے اور وسائل|||دفتر خراج|266
حافظوں کی تعداد|256||بیت المال کے کاغذات کا حساب|
صحت اعراب کی تدبیریں|||مردم شماری کے کاغذات|
ادب اور عربیت کی تعلیم|||کاغذات حساب کے لکھنے کا طریقہ|267
|||سکہ|
|||ذمی رعایا کے حقوق|269
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر
قدیم سلطنتوں کا برتاؤ غیر قوموں کے ساتھ|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذمیوں کے ساتھ کیا برتاؤٔ کیا؟|
بیت المقدس کا معاہدہ |270
ذمیوں کے جان و مال کو مسلمانوں کے جان و مال کے برابر قرار دینا|
بندوبست مال گزاری میں ذمیوں کا خیال|272
ذمیوں سے ملکی انتظامات میں مشورہ|
ذمیوں کے ساتھ ہر قسم کی رعایت کی تاکید|
مذہبی امور کی آزادی|274
مسلمانوں اور ذمیوں کی ہمسری|275
ذمیوں کی عزت کا خیال|277
سازش اور بغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک|
ذمیوں پر ان رعایتوں کا کیا اثر ہوا|
ذمیوں کے حقوق کی نسبت غیر قوموں کی غلط فہمیوں کے وجوہ اور ان کا جواب|
ذمیوں کو خاص لباس اور زنار کے استعمال کا کیوں حکم تھا|
صلیب اور ناقوس کی بحث|280
اصطباغ کی بحث
عیسائیوں کے جلاوطن کرنے کا معاملہ|281
جزیہ کی بحث|283
غلامی کا رواج کم کرنا|284
عرب کا غلام نہ ہو سکنا|285
ممالک مفتوحہ میں غلام کو گھٹانا|
حضرت شہربانو کا قصہ|
شاہی خاندان کے اسیران جنگ کے ساتھ برتاؤ|287
عام غلاموں کے ساتھ مراعات|
غلاموں کا اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جانا|289
غلاموں میں اہل کمال کا پیدا ہونا|
سیاست و تدبیر، عدل و انصاف|290
عام سلاطین اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طریق سیاست میں فرق|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مشکلات|291
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حکومت کی خصوصیتیں|293
اصول مساوات|
امیر المومنین کا لقب کیوں اختیار کیا؟|295
سیاست|297
عہدہ داران سلطنت کا انتخاب|299
بے لاگ عدل و انصاف|
قدیم سلطنتوں کے حالات اور انتظامات سے واقفیت|300
واقفیت کے لئے پرچہ نویس اور واقعہ نگار|
بیت المال کا خیال|302
تمام کاموں کا وقت پر انجام پانا|
رفاہ عام کے کام|
غرباء اور مساکین کے روزینے|306
مہمان خانے|
لاوارث بچے|307
یتیموں کی خبر گیری|
قحط کا انتظام|
رفاہ عام کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نکتہ سنجی|308
جزئیات پر توجہ|309
رعایا کی شکایتوں سے واقفیت کے وسائل|
سفارت|310
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر
شام کا سفر اور رعایا کی خبر گیری|
رعایا کی خبرگیری کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی چند حکاتیں|
امامت اور اجتہاد|313
مسائل اعتقادی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نکتہ چینی|
مسئلہ قضا و قدر|314
تعظیم شعائر اللہ|
نبی کے اقوال و افعال کہاں تک منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں|315
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک احکام شریعت کا مصالح عقلی پر مبنی ہونا|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی|316
اخلاق اسلامی کا محفوظ رکھنا اور ترقی دینا|317
غرور و فخر کا استیصال|318
ہجو کی ممانعت|
ہوا پرستی کی روک|319
شاعر کی اصلاح|
شراب خوری کی روک|
آزادی اور حق گوئی کا قائم رکھنا|320
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اجتہادی حیثیت|
احادیث کا تفحص|
حدیثوں کی اشاعت|322
ایک دقیق نکتہ|
احادیث میں فرق مراتب|
روایات کی چھان بین|324
کثرت روایت سے روکنا|325
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کم روایت کرنے کی وجہ|
صحابہ رضوان اللہ تعالٰی میں جو لوگ کم روایت کرتے تھے|329
سند اور روایت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اصول|
علم فقہ|
فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں|330
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مشکل مسائل کو قلمبند کرنا|333
دقیق مسائل میں وقتاً فوقتاً غور و خوض کرتے رہنا|
فتوحات کی وسعت کی وجہ سے نئے مسئلوں کا پیدا ہونا|334
لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے استفتاء کرنا|
صحابہ رضوان اللہ تعالٰی کے مشورہ سے مسائل طے کرنا|335
مسائل اجماعیہ|
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا اصول فقہ کو مرتب کرنا|336
خبر آحاد کے قابل احتجاج ہونے کی بحث|
قیاس|340
استنباطِ احکام کے اصول|341
مسائل مہمہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اجتہادات|
خمس کا مسئلہ|343
فے کا مسئلہ|346
باغ فدک کی بحث|349
ذاتی حالات اور اخلاق و عادات|354
عرب میں جو اوصاف لازمہ شرافت سمجھے جاتے تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں سب موجود تھے|
قوت تقریر|
خطبے|
خطبے کے لیے تیار ہونا|
 

شمشاد

لائبریرین
مضمون|صفحہ نمبر
نکاح کا خطبہ اچھا نہیں دے سکتے تھے اور اس کی وجہ| 356
بعض خطبوں کے اصلی الفاظ |
قوت تحریر |358
مذاق شاعری |359
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ زہیر کو اشعر الشعرأ کہتے تھے|
زہیر کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ریمارک |
نابغہ کی تعریف |
امرأ القیس کی نسبت ان کی رائے|
شعر کا ذوق| 359
حفظ اشعار| 362
اشعار کو تعلیم میں داخل کرنا|
شاعری کی اصلاح |
لطیفہ| 363
علم الانساب| 364
عبرانی زبان سے واقفیت |
ذہانت و طباعی| 365
حکیمانہ مقولے| 366
صائب الرائے ہونا |367
اسلام کے احکام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کے موافق قرار پائے |
جن مسائل میں اور صحابہ رضوان اللہ تعالٰی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اختلاف کیا، ان میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے کا صائب ہونا |
قابلیت خلافت پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رائے| 367
نکتہ سنجی اور غور رسی |
مذہبی زندگی|370
بے تعصبی| 371
علم فرائض کی درستی اور ترتیب کے لئے ایک یونانی عیسائی کا طلب کرنا |
علمی صحبتیں| 373
ارباب صحبت| 374
اہل کمال کی قدر دانی| 375
متعلقین جناب رسول اللہ کا پاس و لحاظ| 378
اخلاق و عادات، تواضع و سادگی| 379
زندہ دلی| 380
مزاج کی سختی| 381
آل و اولاد کے ساتھ محبت| 382
مسکن، وسائل، معاش، تجارت، جاگیر، مشاہرہ، زراعت، غذا| 384
لباس، سادگی اور بے تکلفی| 385
حلیہ، اولیات|
ازواج و اولاد| 388
ازواج |
حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نکاح کرنا |
اولاد ذکور |390
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ |
سالم بن عبد اللہ |
عاصم| 391
خاتمہ |391
دنیا میں جس قدر مشہور فرمانروا اور ارباب کمال گزرے ہیں سب پر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ترجیح |
 

شمشاد

لائبریرین
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

دیباچہ
(طبع اول از مصنف)

الفاروق جس کا غلغلہ وجود میں آنے سے پہلے تمام ہندوستان میں بلند ہو چکا ہے، اول اول اس کا نام زبانوں پر اس تقریب سے آیا کہ المامون طبع اول کے دیباچہ میں ضمناً اس کا ذکر آ گیا تھا۔ اس کے بعد اگرچہ مصنف کی طرف سے بالکل سکوت اختیار کیا گیا تاہم نام یچھ ایسی دلچسپی تھی کہ خود بخود پھیلتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے ابتدائی اجزاء ابھی تیار نہیں ہوئے تھے کہ تمام ملک میں اس سرے سے اس سرے تک الفاروق کا لفظ بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔

ادھر کچھ ایسے اسباب پیش آئے کہ الفاروق کا سلسلہ رک گیا اور اس کے بجائے دوسرے کام چھڑ گئے۔ چنانچہ اس اثناء میں متعدد تصنیفیں مصنف کے قلم سے نکلیں اور شائع ہوئیں۔ لیکن جو نگاہیں فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے کوکبہء جلال کا انتظار کر رہی تھیں ان کو کسی دوسرے جلوہ سے سیری نہیں ہو سکتی تھی۔ سوء اتفاق یہ کہ میرے ساتھ الفاروق کی طرف سے بیدلی کے بعض ایسے اسباب پیدا ہو گئے تھے کہ میں نے اس تصنیف سے گویا ہاتھ اٹھا لیا تھا لیکن ملک کی ہر طرف سے تقاضے کی صدائیں رہ رہ کر بلند ہوتی تھیں کہ میں مجبوراً قلم ہاتھ سے رکھ رکھ کر اٹھا لیتا تھا۔ بالآخر 18 اگست 1894 عیسوی کو میں نے ایک قطعی فیصلی کر لیا اور مستقل اور مسلسل طریقے سے اس کام کو شروع کیا۔ ملازمت کے فرائض اور اتفاقی موانع وقتاً فوقتاً اب بھی سد راہ ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ متعدد دفعہ کئی کئی مہینے کا ناغہ پیش آ گیا لیکن چونکہ کام کا سلسلہ قطعاً بند نہیں ہوا اس لئے کچھ نہ کچھ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ آج پورے چار برس کے بعد یہ منزل طے ہوئی اور قلم کے مسافر نے کچھ دنوں کے لئے آرام کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شکر کہ جمازبہ منزل رسید
زورق اندیشہ بساحل رسید​

یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں تمہید کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت سے وفات تک کے واقعات اور فتوحات ملکی کے حالات ہیں۔ دوسرے حصے میں ان کے ملکی اور مذہبی انتظامات اور علمی کمالات اور ذاتی اخلاق اور عادات کی تفصیل ہے اور یہی دوسرا حصہ مصنف کی سعی و محنت کا تماشاگاہ ہے۔

اس کتاب کی صحت طبع میں اگرچہ کم کوشش نہیں کی گئی۔ کاپیاں میں نے خود دیکھیں اور بنائیں۔ لیکن متواتر تجربوں کے بعد مجھ کو اس بات کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ میں اس وادی کا مرد میداں نہیں اور میں اس کی کوئی تدبیر نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر صاحب مطبع اجازت دیں تو اس قدر کہنے کی جرات کر سکتا ہوں کہ اس جرم کا میں تنہا مجرم نہیں بلکہ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں۔ بہرحال کتاب کے آخر میں ایک غلط نامہ لگا دیا گیا ہے جو کفارہ جرم کا کام دے سکتا ہے۔

اس کتاب میں بعض الفاظ کے املا کا نیا طریقہ نظر آئے گا۔ مثلاً اضافت کی حالت میں " مکہ " اور " مدینہ " کی بجائے " مکے " اور " مدینے" اور جمع کی حالت میں " موقع" اور "مجمع" کے بجائے "موقعے" اور "مجمعے" لیکن یہ میرا طریقہ املاء نہیں ہے۔ بلکہ کاپی نویس صاحب کا ہے اور اس کے برخلاف عمل کرنے پر کسی طرح راضی نہ ہوئے۔

یہ بھی واضح رہے کہ یہ کتاب سلسہ آصفیہ کی فہرست میں داخل ہے۔ لیکن پہلے سلسلہ آصفیہ کی ماہیت اور حقیقت سمجھ لینی چاہیے۔

ہمارے معزز اور محترم دوست شمس العلماء مولانا سید علی بلگرامی بجمیع القابہ کو تمام ہندوستان جانتا ہے۔ وہ جس طرح بہت بڑے مصنف، بہت بڑے مترجم، بہت بڑے زبان دان ہیں اسی طرھ بہت بڑے علم دوست اور اشاعت علوم و فنون کے بہت بڑے مربی اور سرپرست ہیں۔ اس دوسرے وصف نے ان کو اس بات پر آمادہ کیا کہ انہوں نے جناب نواب محمد فضل الدین خان سکندر جنگ اقبال الدولہ، اقتدار الملک، سر وقار الامراء بہادر کے سی، آئی، ای مدار المبھام دولت آصفیہ خلدہا اللہ تعالٰی کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ حضور پر نور، رستم دوراں، افلاطون زماں فلک بارگاہ سپہ سالار مظفر الملک فتح جنگ ہز ہائینس نواب میر محبوب علی خان بہادر، نظام الملک آصف جاہ سلطان دکن خلد اللہ ملکہ کے سایہ عاطفت میں علمی تراجم و تصنیفات کا ایک مستقل سلسلہ قائم کیا جائے جو سلسلہ آصفیہ کے لقب سے ملقب ہو اور وابستگان دولت آصفیہ کی جو تصنیفات خلعت قبول پائیں وہ اس سلسلہ میں داخل ہو جائیں۔

جناب نواب صاحب ممدوح کو علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کی طرف ابتدا سے جو التفات و توجہ رہی ہے اور جس کی بہت سی محسوس یادگاریں اس وقت موجود ہیں اس کے لحاظ سے جناب ممدوح نے اس درخواست کو نہایت خوشی سے منظور کیا۔ چنانچہ کئی برس سے یہ مبارک سلسلہ قائم ہے اور ہمارے شمس العلمأ کی کتاب تمدن عرب جس کی شہرت عالمگیر ہو چکی ہے اسی سلک کا ایک بیش بہا گوہر ہے۔

خاکسار کو 1896ء میں جناب ممدوح کی پیش گاہ سے عطیہ ماہوار کی جو سند عطا ہوئی اس میں یہ بھی درج تھا کہ خاکسار کی تمام آئندہ تصنیفات اس سلسلے میں داخل کی جائیں۔

اسی بناء پر یہ ناچیز تصنیف بھی اس مبارک سلسلے میں داخل ہے۔

جلد اول کے آخر میں اسلامی دنیا کا ایک نقشہ شامل ہے جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے لے کر بنو امیہ کے زمانے تک ہر عہد کی فتوحات کا خاص خاص رنگ دیا گیا ہے۔ جس کے دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہو سکتا ہے کہ ہر خلیفہ کے وقت میں دنیا کا کس قدر حصہ اسلام کے حلقہ میں شامل ہو گیا۔ یہ نقشہ اصل میں جرمن کے چند لائق پروفیسروں نے تیار کیا تھا۔ لیکن چونکہ وہ ہمارے کتاب کے بیانات سے پورا پورا مطابق نہیں ہوتا تھا، اس لئے ہم نے اصل کتاب کے حاشیہ میں موقع بموقع ان اختلافات کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔

شبلی نعمانی
مقام اعظم گڑھ دسمبر 1898ء
 

شمشاد

لائبریرین
حصہ اول

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اے ہمہ در پردہ نہان راز تو
بے خبرز انجام و آغاز تو

الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ علی رسولہ محمد و الہ و اصحابہ اجمعین۔


تمہید – تاریخ کا عنصر

تمدن کے زمانے میں جو علوم و فنون پیدا ہو جاتے ہیں ان میں سے اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا ہیولٰی پہلے سے موجودہوتا ہے۔ تمدن کے زمانے میں وہ ایک موزوں قالب اختیار کر لیتا ہے۔ اور پھر ایک خاص نام یا لقب سے مشہور ہو جاتا ہے۔ مثلاً استدلال اور اثبات مدعا کے طریقے ہمیشہ سے موجود تھے۔ اور عام و خاص سب ان سے کام لیتے تھے۔ لیکن جب ارسطو نے ان جزئیات کو ایک خاص وضع سے ترتیب دیا تو اس کا نام منطق ہو گیا اور وہ ایک مستقل فن بن گیا۔ تاریخ و تذکرہ بھی اسی قسم کا فن ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں انسانوں کا کوئی گروہ موجود تھا، تاریخ و تذکرے بھی ساتھ ساتھ تھے۔ کیونکہ فخر و ترجیح کے موقعوں پر لوگ اپنے اسلاف کے کارنامے خواہ مخواہ بیان کرتے تھے۔ تفریح اور گرمی صحبت کے لیے مجالس میں پچھلی لڑائیوں اور معرکوں کا ذکر ضرور کیا جاتا تھا۔ باپ دادا کی تقلید کے لیے پرانی عادات و رسوم کی یادگاریں خواہ مخواہ قائم رکھی جاتی تھیں۔ اور یہی چیزیں تاریخ و تذکرہ کا سرمایہ ہیں۔ اس بناء پر عرب، عجم، تاتار، ہندی، افغانی، مصری، یونانی، غرض دنیا کی تمام قومیں فن تاریخ کی قابلیت میں ہمسری کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
عرب کی خصوصیت​

لیکن اس عموم میں عرب کو ایک خصوصیت خاص حاصل تھی۔ عرب میں خاص خاص باتیں ایسی پائی جاتی تھیں جن کو تاریخی سلسلے سے تعلق تھا۔ اور جو اور قوموں میں نہیں پائی جاتی تھیں۔ مثلاً انساب کا چرچا جس کی یہ کیفیت تھی کہ بچہ بچہ اپنے آبا و اجداد کے نام اور ان کے رشتے ناطے دس دس بارہ بارہ پشتوں تک محفوظ رکھتا تھا۔ یہاں تک کہ انسانوں سے گزر کر گھوڑوں اور اونٹوں کے نسب نامے محفوظ رکھے جاتے تھے۔ یالیام العرب جس کی بدولت " عکاظ " کے سالانہ میلے میں قومی کارناموں کی روائتیں، سلسلہ بسلسلہ ہزاروں لاکھوں آدمیوں تک پہنچ جاتی تھیں یا شاعری جس کا یہ حال تھا کہ اونٹ چرانے والے بدو جن کو لکھنے پڑھنے سے کچھ سروکار نہ تھا۔ اپنی زبان آوری کے سامنے تمام عالم ہیچ سمجھتے تھے۔ اور درحقیقت جس سادگی اور اصلیت کے ساتھ وہ واقعات اور جذبات کی تصویر کھینچ سکتے تھے دنیا میں کسی قوم کو یہ بات کبھی نصیب نہیں ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
عرب میں تاریخ کی ابتدا

اس بناء پر عرب میں جب تمدن کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے تاریخی تصنیفات وجود میں آئیں۔ اسلام سے بہت پہلے بادشاہ جبرۃ نے تاریخی واقعات قلمبند کرائے اور وہ مدت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابن ہشام نے کتاب الجیجان میں تصریح کی ہے کہ میں نے ان تالیفات سے فائدہ اٹھایا۔ اسلام کے عہد میں زبانی روایتوں کا ذخیرہ ابتدا ہی میں پیدا ہو گیا تھا۔ لیکن چونکہ تالیف و تصنیف کا سلسلہ عموماً ایک مدت کے بعد قائم ہوا۔ اس لئے کوئی خاص کتاب اس فن میں نہیں لکھی گئی۔ لیکن جب تالیف کا سلسلہ شروع ہوا تو سب سے پہلی کتاب جو لکھی گئی تاریخ کے فن میں تھی۔

امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المتوفی 60 ہجری کے زمانے میں عبیدہ بن شربہ ایک شخص تھا جس نے جاہلیت کا زمانہ دیکھا اور اس کو عرب و عجم کے اکثر معرکے یاد تھے، امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس کو صنعاء سے بلایا اور کاتب اور محرر متعین کئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا جائے قلم بند کرتے جائیں۔ علامہ ابن الندیم نے کتاب الفبرست میں اس کی متعدد تالیفات کا ذکر کیا ہے۔ جن میں سے ایک کتاب کا نام کتاب الملوک والاخبار الماضیین لکھا ہے، غالباً یہ وہی کتاب ہے جس کا مسودہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حکم سے تیار ہوا تھا۔ عبیدہ کے بعد عوانہ بن الحکم المتوفی 47 ھ کا نام ذکر کرنے کے قابل ہے۔ جو اخبار و انساب کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے عام تاریخ کے علاوہ خاص بنو امیہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی۔ 117 ہجری میں ہشام بن عبد الملک کے حکم سے عجم کی نہایت مفصل تاریخ کا ترجمہ پہلوی سے عربی میں کیا گیا۔ اور یہ پہلی کتا ب تھی جو غیر زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے پہلی تصنیف

143 ہجری میں جب تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی 151 ہجری نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرۃ نبوی پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ (مغازی محمد اسحاق کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ کوپریلی استنبول میں موجود ہے۔)

ہمارے مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ المتوفی 141 ہجری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مغازی قلم بند کئے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اور صحابہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لئے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ (مغازی موسیٰ بن عقبہ 1904 عیسوی میں یورپ میں چھپ چکی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کے لئے تہذیب التہذیب و مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھو)۔

اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑے نامور مؤرخ پیدا ہوئے۔ جن میں ابو محتف کلبی اور واقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً واقدی نے افواج اسلام، قریش کے پیشے، قبائل عرب کے مناظرات، جاہلیت اور اسلام کے احکام کا توارد، ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے، رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری تک ایک دفتر بے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدا تھا۔

اس دور میں بے شمار مؤرخ گزرے ہیں۔ ان میں جن لوگوں نے بالتخصیص آنحضرت صلی اللہ علی وسلم اور صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کے حالات میں کتابیں لکھیں، ان کی مختصر فہرست یہ ہے :

قدیم تاریخیں

نام مصنف : ۔۔۔۔۔۔۔ مدنی (حجم بن عبد الرحمٰن، المتوفی 170 ھٌ
تصنیف : غزوات نبوی

نام مصنف : نصر بن مزاخم کوفی
تصنیف : کتاب الجمل یعنی حضرت علی رضی اللہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ کی لڑائی کا حال

نام مصنف : سیف بن عمر الاسدی (سیف بن عمر کوفی خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں فوت ہوا (تہذیب التہذیب جلد 4 صفحہ 196
تصنیف : کتاب الفتوح الکبیر
کیفیت : نہایت مشہور مؤرخ ہے۔

نام مصنف : معمر بن راشد کوفی (معمر بن راشد کوفی 134 ھ (تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 234)
تصنیف : کتاب المغازی
کیفیت : امام بخاری کے استاذ الاستاذ تھے۔

نام مصنف : ابو البحر وہب بن وہب
تصنیف : کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم و کتاب فضائل الانصار
کیفیت : 200 ھ میں انتقال کیا۔
صفحہ 21

نام مصنف : عبد اللہ بن سعد زیری المتوری 380 ہجری
تصنیف : فتوحات خالد بن ولید رضی اللہ

نام مصنف : ابو الحسن علی بن محمد بن عبد اللہ المدائنی، المتوفی 324 ھ
کیفیت : اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے حالات میں کثرت سے کتابیں لکھیں اور نئے عنوان اختیار کئے۔

نام مصنف : احمد بن حارث خزاز
تصنیف : کتاب المغازی، اسماء الخلفاء و کتابہم
کیفیت : مدائنی کا شاگرد تھا۔

نام مصنف : عبد الرحمٰن بن عبدہ
تصنیف : مناقب قریش
کیفیت : نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ تھا۔

نان مصنف : عمر بن شبہ، المتوفی 262 ھ
تصنیف : کتاب امراء الکوفہ، کتاب امراء البصرۃ
کیفیت : مشہور مؤرخ تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
قدماء کی جو تصنیفات آج موجود ہیں

اگرچہ یہ تصنیفات آج ناپید ہیں۔ لیکن اور کتابیں جو اسی زمانے میں یا اس کے بعد قریب تر زمانے میں لکھی گئیں، ان میں ان تصنیفات کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم ان کے نام ان کے مصنفین کے عنوان سے لکھتے ہیں۔

عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ المتولد 213 ہجری ولمتوفی 276 ہجری یہ نہایت نامور اور مستند مصنف ہے۔ محدثین بھی اس کے اعتماد اور اعتبار کے قائل ہیں۔ تاریخ میں اس کی مشہور کتاب " معارف " ہے۔ جو مصر وغیرہ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر ہے، لیکن اس میں ایسی مفید معلومات ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ملتیں۔

احمد بن داؤد ابو حنیفہ دینوی المتوفی 281 ہجری یہ بھی مشہور مصنف ہے۔ تاریخ میں اس کی کتاب کا نام "الاخبار الطوال" ہے۔ اس میں خلیفہ معتصم باللہ تک کے حالات ہیں۔ خلفاء راشدین کی فتوحات میں سے عجم کی فتح کو تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کتاب پورے یورپ میں بہ مقام لیڈن 1885 عیسوی میں چھپی ہے۔

محمد بن سعد کاتب الواقدی، المتوفی 230 ہجری نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ ہے، اگرچہ اس کا استاد واقدی ضعیف الروایہ ہے۔ لیکن خود اس کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ اس نے ایک کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین اور تبع تابعین کے حالات میں نہایت بسط و تفصیل سے دس بارہ (طبقات ابن سعد کامل 8 جلدوں میں پہلے 1907 عیسوی میں لیڈن میں طبع ہوئی پھر اس کے بعد 1958 عیسوی میں بیروت میں طبع ہوئی ہے۔) جلدوں میں لکھی ہے۔ اور تمام واقعات کو محدثانہ طور پر بہ سند صحیح لکھا ہے۔ یہ کتاب طبقات ابن سعد کے نام سے مشہور ہے۔ میں نے اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ اب جرمنی میں بڑے اہتمام سے چھپ رہی ہے۔

احمد بن ابی یعقوب واضح کاتب عباسی – یہ تیسری صدی ہجری کا مؤرخ ہے۔ مجھ کو اس کے حالات رجال کی کتابوں میں نہیں ملے۔ لیکن اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف ہے، چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا۔ اس لیے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم پہنچا سکا ہے۔ اس کی کتاب جو " تاریخ یعقوبی" کے نام سے مشہور ہے، یورپ میں بہ مقام لیڈن 1883 عیسوی میں چھاپی گئی ہے۔

احمد بن یحییٰ البلاذری المتوفی 279 ہجری ابن سعد کا شاگرد اور المتوکل باللہ عباسی کا درباری تھا۔ اس کی وسعت نظر اور صحت روایت محدثین کے گروہ میں بھی مسلم ہے۔ تاریخ و رجال میں اس کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ فتوح البلدان و انساب الاشراف، پہلی کتاب کا یہ طرز ہے کہ بلاد اسلامیہ میں سے ہر ہر صوبہ یا ضلع کے نام سے الگ الگ عنوان قائم کئے ہیں۔ اور ان کے متعلق ابتدائے فتح سے اپنے عہد تک کے حالات لکھے ہیں۔ دوسری کتاب تذکرے کے طور پر ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حالات بھی ہیں۔ "فتوح البلدان " یورپ میں تہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔ اور " انساب الاشراف " کا قلمی نسخہ قسطنطنیہ میں نظر سے گزرا ہے۔ (یہ کتاب تقریباً اجزا میں 1883 عیسوی میں یروشلم میں چھپ چکی ہے۔)

ابو جعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی 310 ہجری یہ حدیث و فقہ میں بھی امام مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ ائمہ اربعہ کے ساتھ لوگوں نے ان کو مجتہدین کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ تاریخ میں انہوں نے نہایت مفصل اور بسیط کتاب لکھی ہے جو 13 ضخیم جلدوں میں ہے اور یورپ میں بہ مقام لیڈن نہایت صحت اور اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔

ابو الحسن علی بن حسین مسعودی المتوفی 386 ہجری فن تاریخ کا امام ہے۔ اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مؤرخ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دنیا کی اور قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کی تمام تاریخی کتابیں ملتیں تو کسی اور تصنیف کی حاجت نہ ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ قوم کی بدمذاقی سے اکثر تصانیف باپید ہو گئیں، یورپ نے بڑی تلاش سے دو کتابیں مہیا کیں، ایک " مروج الذہب" اور دوسری کتاب الاشراف والتنبیہ (یہ مکتبہ العصریہ بغداد سے 1938 عیسوی میں شائع ہوئی)۔ " مروج الذہب" مصر میں بھی چھپ گئی ہے۔ یہ تصنیفات جس زمانے کی ہیں وہ قدماء کا دور کہلاتا ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top