اصلاح طلب غزل

اک درد ملا ہے مجھ کو سہنے بھی نہیں ہوتا
کہنا تھا جو بھی اس سے کہنے بھی نہیں ہوتا

میں یاد اس کو کر کے بس مسکراتا جاؤں
وہ دور ہے کچھ اتنا ملنے بھی نہیں ہوتا

وہ پھول جیسا نازک اور شہد جیسے میٹھا
نہ چھُو ہیں سکتے اس کو، پینے بھی نہیں ہوتا

'تم کچھ بھی نہیں' کہہ کر بھی فکر کرے میری
پیار اس سے ٹھیک سے تو جتانے بھی نہیں ہوتا

ہے سادہ لوح اتنا کہ اتنا بھی نہیں جانے
میں روٹھ جاؤں اس سے منانے بھی نہیں ہوتا

ہو کر خفا بھی ہر دن با خبر رہنا اس سے
نہ اس سے بات کر کے رہنے بھی نہیں ہوتا

ہر بات میں ہے شامل، ہے غم گسار میرا
وہ پاس ہے کچھ اتنا، بھلانے بھی نہیں ہوتا

کیوں آنسوؤں سے اپنے بدنام کروں اس کو
ہے پیار اس سے اتنا، رونے بھی نہیں ہوتا

ہم بارشوں کے پیاسے اور شام کے دیوانے
ہم بھیگ نہیں سکتے، سونے بھی نہیں ہوتا

ہے زندگی کچھ ایسی کہ جی رہے ہیں ایسے
ہم مر بھی نہیں سکتے جینے بھی نہیں ہوتا

تم جان لو گے مجھ کو پر جان لو فخر جی
بعد مرگ یوں کسی کو ستانے بھی نہیں ہوتا
 
Top