نگاہ تم سے ملا کر ہم مئے خانہ بھول جاتے ہیں
تمہیں پا کر قسم تیری زمانہ بھول جاتے ہیں

تیرے رخسار کی شوخی اثر کرتی ہے بھنوروں پر
کہ ان کی مست رنگت سے وہ کلیاں بھول جاتے ہیں

ہمیں جب بھی کبھی آیا ہے غصہ اُس کی باتوں پر
وہ چہرہ پھول سا دیکھیں تو غصہ بھول جاتے ہیں

کِیا کیا کچھ نہیں ہم نے سبھی کچھ یاد ہے لیکن
سبھی کچھ دل میں رکھتے ہیں بتانا بھول جاتے ہیں

شرارت آنکھ میں تیری بہت دیرینہ لگتی ہے
انھی میں کھو کے ساقی سب پیمانہ بھول جاتے ہیں

کمالِ یار تو دیکھو کہ ہنستے ہیں رقیبوں میں
مگر جب پاس ہوں میرے تو ہنسنہ بھول جاتے ہیں

تمھارے چھوڑ جانے سے ذرا سا ہی تو بدلے ہیں
جو باتیں یاد رکھنی ہوں وہ رکھنا بھول جاتے ہیں

ہم ہنس لیتے ہیں محفل میں تیرا جب ذکر ہوتا ہے
اِنہی موقعوں پہ اکثر ہم تو رونا بھول جاتے ہیں

بہت کچھ دل میں ہے میرے مگر لہجے سے تیرے ہم
اصل جو بات کہنی ہو وہ کہنا بھول جاتے ہیں

میرے مرنے پے آؤ گے؟ اگر وعدہ کرو جو تم
قسم تیری ابھی جاناں یہ جینا بھول جاتے ہیں

مگر اب تم نہ پاؤ گے فخر تھا جس طرح پہلے
کہ ہم نے ٹھان لی ہے ماضی اپنا بھول جاتے ہیں
 
Top