اصلاح۔۔۔

ع رفیع

محفلین
ایک نظم لکھی ہے ایک فورم کے لیے، اپنے زعمِ ناقص کے مطابق علامہ اقبال ؒ کی نظم کی زمین پر کہی ہے:
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تم ہو۔۔۔

ذرا اصلاح کردیں۔۔۔ اور تقطیع ممکن ہے کہ نہیں یہ بھی بتائیں۔

علم ہے موجزن جس میں وہ بحرِ بیکراں تم ہو
صداقت جس کا شیوہ ہے وہ سچا کارواں تم ہو

تیرے دامن کو چھونے سے ذہن کو تازگی ملتی
سکونِ قلب کا ساماں، میری روحِ رواں تم ہو

گُہر ہو، صدفِ سیمیں ہو، تمہی جشنِ بہاراں ہو
سکوں مل جائے جس کی چھاؤں میں، وہ آشیاں تم ہو

تمہی خوشیوں کا ساماں ہو، میری رعنائی ہے تم سے
عصر کی جلوہ گیری میں، سَلَف کی داستاں تم ہو
 
بھئی ہمیں ادب سے کوئی علاقہ نہیں اس لئے ہماری بات کو زیادہ اہمیت دینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ بس ہم آپ کے اشعار گنگنا رہے تھے تو کچھ مقامات پر ثقل کا احساس ہوا وہ بیان کر دیتے ہیں۔

علم ہے موجزن جس میں وہ بحرِ بیکراں تم ہو

اگر یہ علم معلومات والا ہے تو اس کا لام ساکن ہوتا ہے جو کہ مسئلہ ہے۔ اگر آپ نے جھنڈے کے معلی میں استعمال کیا ہے تو منویت پر کلام ہوگا نیز جھنڈا لہرانے کو موجزن کی ترکیب دینا ایک الگ قصہ ہے۔ گو کہ ہمیں یقین ہے کہ آپ نے معلومات کی معنی میں علم کو استعمال کیا ہے۔

تیرے دامن کو چھونے سے ذہن کو تازگی ملتی

ذہن کا ہ غالباً ساکن ہوتا ہے جبکہ وزن یہاں کسی متحرک حرف کا متقاضی ہے۔ ویسے ہم کہہ نہیں سکتے اگر اس بحر میں یہاں سکون کا جواز بھی موجود ہو تو۔

گُہر ہو، صدفِ سیمیں ہو، تمہی جشنِ بہاراں ہو

صدف کا د مفتوح ہوتا ہے۔ یہاں ہمیں سکون کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔ اس بار بھی یہی کہیں گے کہ ہمیں چنداں علم نہیں کہ اس بحر میں اتنی گنجائش ہے یا نہیں۔

عصر کی جلوہ گیری میں، سَلَف کی داستاں تم ہو

عصر کا ص ساکن ہوتا ہے جبکہ یہاں متحرک حرف کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

ہم تو بس اتنا کہہ سکتے ہیں کہ بہت خوب اشعار کہے ہیں آپ نے۔ مزید یہ کہ اساتذہ بہتر بتا سکیں گے۔ :)
 
جناب رفیع صاحب، آداب عرض ہے
محترم جناب اُستاد الف عین صاحب کے آنے تک، اگر ناگوار خاطر نہ گزرے تو کچھ عرض کرتا ہوں
یہ بحریوں ہے

بحر - بحر ہزج مثمن سالم
افاعیل - مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن مَفاعِیلُن
اشاری نظام - 2221 2221 2221 2221

اگر میں آپ کے اختیار کردہ معنی اور مفاہیم کو زیادہ نہ چھیڑوں تو یہ صورت میری ناقص رائے میں بنتی ہے،

خزانہ علم کا جس میں وہ بحرِ بیکراں تم ہو
صداقت جس کا شیوہ ہے وہ سچا کارواں تم ہو

ترے دامن کو چھونے سے بدن میں تازگی آئے
سکونِ قلب کا ساماں، میری روحِ رواں تم ہو

گہر ہو سیپ سیمیں کا، تمہی جشنِ بہاراں ہو
سکوں مل جائے جس کی چھاؤں میں، وہ آشیاں تم ہو

تمہی خوشیوں کا ساماں ہو، مری رعنائی ہے تم سے
زماں کی جلوہ گیری میں، سَلَف کی داستاں تم ہو
جب تک جناب اُستاد بھی تشریف لے آئیں گے اور ہم دونوں اُن سے مستفید ہوں گے، کچھ خطا ہوئی ہو تو پیشگی معزرت قبول کیجیے گا
خاکسار
اظہر
 
چاچو تو سفر پر ہیں اس لئے شاید وہ اگلے دو ہفتوں تک محفل میں نمودار نہ ہو سکیں۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ دیگر اساتذہ اپنی رائے سے آپ کو ضرور آگاہ فرمائیں گے۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
دوسرے اساتذہ سے پہلے یہ شاگرد ہی حاضر ہے۔
اظہر کی اصلاح بہت خوب ہے، میں بھی یہی کام کرتا کہ ان مصرعوں کی اغلاط سدھار دیتا۔ مفہوم میں چھیڑ خانی میں کم ہی کرتا ہوں۔
رفیع کے خیالات ماشاء اللہ خوب ہیں۔
 
Top