اسلام آباد میں صحرائے عرب کی حور

زیف سید

محفلین
کوئی تین چار برس ادھر کی بات ہے، ایک دن میرا گزر اسلام آباد کے بلیو ایریا سے ہو کر سیدھی ایوانِ صدر کو جانے والی جناح ایونیو سے ہوا۔وہاں ایک ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ دیر کے لیے تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نہیں آیا۔چمکتے، چمچماتے ہوئے جناح ایونیو پر یہاں سے وہاں کھجور کے درخت اپنے لہردار پتوں کی چھتریاں تانے قطار اندر قطار کھڑے تھے۔

جس چیز نے مجھے چونکایا وہ یہ تھی ابھی کوئی ہفتہ دو ہفتہ پہلے جب میں ادھر آیا تھا تو یہاں کھجور کا کوئی درخت نہیں تھا، اور اب دیکھو تو شام کے صحرا میں ہجومِ نخیل والا معاملہ تھا۔ بلیو ایریا کی جھلملاتی روشنیوں میں ہزارہا تو خیر نہیں، لیکن سینکڑوں شجرہائے سایہ دار کی قطاروں نے عجیب کیفیت پیدا کر دی۔

دوسری طرف راول ڈیم کے اوپر سے ابھرتا ہوا چاند بھی گویا جھک کر ان اونچی کھجوروں کو تک رہا تھا۔

ایک تو کھجور کا درخت ویسے ہی دیکھنےمیں بہت خوش نما لگتا ہے، دوسرے اس کے ساتھ بہت سے ثقافتی اور تاریخی تلازمات وابستہ ہیں ، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی اس مبارک درخت کا ذکر کوئی 42 بار آیا ہے۔ اس لیے کھجور کا درخت بہت سے لوگوں کے لیے قریب قریب روحانی اہمیت اور تقدس کا حامل ہے۔ اگر آپ چاہیں تو ’ہم خرما و ہم ثواب‘والی مثل کا اطلاق پھل کے علاوہ درخت پر بھی کر سکتے ہیں۔

ان کھجوروں کو دیکھ کر مجھے کھجور کا وہ مشہور درخت یاد آ گیا جو اندلسی خلیفہ عبدالرحمٰن اوّل نے لگایا تھا اور جسے اس نے بقولِ اقبال، صحرائے عرب کی حور کہا تھا۔ یہ درخت اگرچہ وطن میں بھی گم نام نہیں تھا لیکن ہسپانیہ کی آب و ہوا اس کے لیے اتنی بارور ثابت ہوئی کہ یہ غربت میں اور زیادہ چمکا اور عربوں کو وطن سے ہزاروں میل دور وطن کی یاد دلاتا رہا۔

لیکن اسلام آباد کی کھجوروں کا معاملہ قرطبہ کی کھجوروں سے مختلف نکلا۔ دو تین ہفتے کے بعد جب دوبارہ اس طرف جانے کا اتفاق ہوا تو نظروں کے سامنے ایک افسوس ناک منظر پھیلا ہوا تھا۔ اکثر درخت سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے، کئی کے تنے درمیان سے ٹوٹے ہوئے تھے اور جھالر نما بے روح پتے چڑیل کے بالوں کی طرح جگہ جگہ بکھرے ہوئے تھے۔

ادھر ادھر سے سن گن لی تو معلوم ہوا کہ یہ درخت اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے کے ایک مہم جو ڈائرکٹر نے زرِ کثیر صرف کر کے جنوبی پنجاب اور سندھ کے صحراؤں سے منگوائے تھے۔ لیکن صحرا کی کھلی سرزمین کے عادی یہ بیچارے درخت اسلام آباد کی پوٹھوہاری مٹی کی تاب نہ لا سکے اور دیکھتے ہی دیکھتے یکے بعد دیگرے یوں مرجھاتے چلے گئے جیسے کسی مہلک وبائی مرض کا شکار ہو گئے ہوں۔

مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ کراچی کی آب و ہوا ہر قسم کے جانوروں کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے اور انھوں نے وہاں کسی جانور کو پنپتے نہیں دیکھا، سوائے گدھے کے۔ فرماتے ہیں کہ جیسا تندرست اور چاق و چوبند گدھا کراچی میں پایا جاتا ہے، کسی اور شہر کے گدھے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔

اسلام آباد کا بھی کچھ ایسا ہی عالم ہے۔ یہاں بھی کیکر، تھوہر اور ناگ پھنی کے علاوہ دوسرے پودوں کو جڑیں پکڑنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے۔ خاص طور پر ایسے پیڑوں کو جو ہماری ملکی تاریخ کے لحاظ سے نسبتاً غیر مانوس سے ہوں۔

مثال کے طور پر برداشت کا پیڑ، نخلِ جمہوریت، شجرِ انصاف، وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر کوئی مہم جُو اصرار کر کے یہاں ان درختوں کی بارآوری کی کوشش کرے تو وہی انجام ہوتا ہے جو ان کھجوروں کا ہوا۔
 
Top