کاشفی

محفلین
غزل
(جوش ملیح آبادی)

ارض و سما کو ساغر و پیمانہ کر دیا
رندوں نے کائنات کو میخانہ (1)کر دیا

اے حُسن! داد دے کہ تمنائے عشق نے
تیری حیا کو عشوہء تُرکانہ کر دیا

قُرباں ترے کہ اک نگہ التفات نے
دل کی جھِجک کو جراءت رندانہ کر دیا

صد شکر درسِ حکمتِ ناحق شناس کو
ہم نے رہینِ نعرہء مستانہ کر دیا

کچھ روز تک تو نازشِ فرزانگی رہی
آخر ہجومِ عقل نے دیوانہ کر دیا

دُنیا نے ہر فسانہ “حقیقت“ بنا دیا
ہم نے حقیقتوں کو بھی “افسانہ“ کر دیا

آواز دو کہ جنسِ دو عالم کو جوش نے
قربانِ یک تبسّمِ جانانہ کر دیا

(1) - بعض بعض مقامات پر ردیف “کردیا “ کو “ بنا دیا“ کے مفہوم میں استعمال کیا ہے، میں اپنے آپ کو ان قیود کا پابند نہیں سمجھتا۔ جوش
 

کاشفی

محفلین
سخنور صاحب!
محمد وارث صاحب!
غزل کی پسندیدگی کے لیئے آپ دونوں کا بیحد شکریہ۔۔ خوش رہیں۔
 
Top