اردو اور فارسی ادبیات کے لیے یکساں مفید فرہنگ

الف نظامی

لائبریرین
اردو اور فارسی ادبیات کے لیے یکساں مفید فرہنگ
فرہنگ اصطلاحات علوم ادبی ، از ڈاکٹر عطش درانی​
مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان اسلام آباد کی طرف سے فرہنگ اصطلاحات علوم ادبی کی یہ اشاعت فارسی اور اردو حلقوں میں بیک وقت عمدہ اور خوشگوار ردعمل پیدا کرچکی ہے ۔ فارسی کے کلاسیکی ذخیرہ الفاظ و اصطلاحات کی اردو میں تفہیم و تشریح دونوں زبانوں میں استفادے کی راہیں وا کرتی ہے۔ ان فارسی تراکیب کے معنی اور مفصل معلومات اردو میں فراہم ہورہی ہیں ، جس سے ان کے فہم و ادراک میں یقینا وسعت پیدا ہوگی ، وہیں ان کے اثرات اردو شعر و ادب ، فصاحت و بلاغت اور زبان و لسانیات پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ اس لیے کسی حد تک یہ فرہنگ اردو کے طلبہ ، اساتذہ اور شعرا کے لیے مفید سمجھی جاسکتی ہے۔
ہمیں ذرا مفصل طور پر اس امر کا جائزہ لے لینا چاہیے ۔ آج علمی جہل و ترک کا ایک عجیب دور ہمارے سامنے ہے ۔ ایسے دور میں جہاں ہم جدید معلومات کو اپنے علمی محیط میں سموئے چلے جاتے ہیں وہاں اپنے اسلاف کے ذخیرہ کو اس کے محور سے حذف کر دینے کا عمل بھی انجام دے رہے ہیں ۔ نتیجتا ایک شدید علمی احساس کمتری نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔ اصطلاحی میدان میں بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ انگریزی اصطلاحات مغربی علوم کی وساطت سے ہمارے سامنے آتی ہیں اور بزعم خویش ہم اس کا ترجمہ اور تدوین انجام دیتے ہیں اور بہت کم اپنے قدیم ذخیرہ اصطلاحات سے استفادہ کرپاتے ہیں یا ان قدیم الفاظ کی نولفظیت (NeoLogism) وضع کرسکتے ہیں۔ وجہ ظاہر ہے کہ ابھی ہم نے اپنے ورثے کو بہت کم یکجا کیا ہے۔
دو مزید وجوہات یہ ہیں کہ اول ہم اس ذخیرے کا کشاف یا تشریحی لغت مرتب کرنے میں ناکام ہیں اور دوم یہ کہ ان کے انگریزی مترادفات متعین کرکے انگریزی اشاریہ سازی نہیں کرتے کہ انگریزی سے اصطلاح سازی یا اصطلاحی ترجمے میں یہ ذخیرہ مدد کرسکے۔ ابھی تک ایسا کام صرف عربی میں انجام پایا ہے ۔ لیکن کروڑوں تصورات اور لاکھوں اصطلاحات کے ایک پیچیدہ نظام کے باعث وہاں بھی تریب اور ترجمے کے لحاظ سے اختلافات و انتشار کا ایک سمندر ہے جو ٹھاٹھیں مار رہا ہے ۔ فارسی اور اردو جیسی زبانیں تو اس منزل سے کوسوں دور ہیں۔ اردو کے پاس ایسے سابقہ ذخیرہ الفاظ کا تخمینہ چودہ پندرہ لاکھ الفاظ کا ہے ، جنہیں ابھی تک اصطلاحی معجمی نظام (Terminological Thesauri System) کے تحت منظم طور پر استمعال میں نہیں لایا جا رہا۔ بڑے ادارے اتنے وسیع ، طویل المدتی ، سائنٹیفک نیز “غیر ادبی“ کاموں پر توجہ نہیں دیتے اور اتنا کام کسی فرد واحد کی بساط عمر سے باہر ہے۔
فارسی میں ایسی قدیم علمی اصطلاحات کا ایک وسیع تر ذخیرہ عربی سے آیا تھا کچھ تفریس کے باعث واضع ہوا تاہم اس تمام ذخیرے کی جڑیں کلاسیکی دور میں گڑی ہیں۔ جدید انقلاب اسلامی سے قبل عربی کے اثرات کے باعث فارسی اصطلاحات سازی کا اپنا کوئی تشخص واضح نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فارسی میں جدید اصطلاحات سازی کا کام اردو سے کئی صدیوں بعد بیسویں صدی کے اوائل میں بلکہ صرف پچھلے پچاس ساٹھ سال ہی میں ہوا۔
ایک دلچسپ پہلو کا تذکرہ بہت ضروری ہے کہ فارسی میں بھی اصطلاحیں مدون کرنے کا کام سب سے پہلے برصغیر میں ہی ہوا۔ فرہنگ کاردانی از جگت رائے (1090ھ / 1679ء) کو اگر صرف مغل ہندوستان سے ہی متعلق قرار دیں تو مراۃ الاصطلاح مرتبہ آنند رام مخلص (1158ھ/ 1745ء) کو ایسے پہلے مجموعے کا اعزاز دینا ہوگا۔ آنند رام سوہدرہ ( گجرات ) کا رہنے والا تھا اور محمد شاہ کے دربار سے وابستہ تھا۔ ایران میں نور الدین محمد عبداللہ کا “الفاظ الادویہ“ اور میر محمد حسین خان العقیلی خراسانی کا “مخزن الادویہ“ بھی اس کے بعد کے مجموعے ہیں۔
جہاں تک زبان ، قواعد ، فصاحت و بلاغت اور دیگر ادبی فنون اور صنائع بدائع کی کلاسیکی اصطلاحات کا تعلق ہے ، فارسی میں ان کا ایک بڑا ذخیرہ عربی سے آیا ہے اور شاید بیسویں صدی کے وسط آخر سے پہلے کوئی بھی فرہنگ وجود میں نہیں آیا تھا۔ فرہنگ عروض از سیروش شمیسا ، فرہنگ بلاغی اردو (دو جلدوں میں ) از ڈاکٹر ابوالقاسم رادفر، فرہنگ اصطلاحات از رضوان شریعت ، فرہنگ اصطلاحات ادبیات از زہرا خانلری ، فرہنگ علوم ادب و معانی از ڈاکٹر جعفر سجادی ، دائرہ المعارف ادبی از عبدالحسین سعید بان میں سے کوئی بھی قدیم لغت نہیں۔
ڈاکٹر ساجد اللہ تفہیمی کے فرہنگ کو ہم ان دیگر لغات سے اس لحاظ سے منفرد قرار دے سکتے ہیں کہ اتنا ضخیم مجموعہ اس سے پہلے مرتب نہیں ہوا۔ دائرہ معارف ادبی اگرچہ 1052 صفحات پر مشتمل ہے ۔ لیکن یہ ایسے ہی ایک اور دائرہ معارف از غلام حسین صاحب میں دراصل مبسوط یا مفصل مقالات و معلومات درج ہیں اور ان کی حیثیت فرہنگ یا لغت کی نہیں۔
ڈاکٹر جعفر سجادی اور زہرا خانلری کے لغات میں فقہ ، دین ، نجوم اور منطق وغیرہ کی اصطلاحات نیز محاورے ، ضرب الامثال وغیرہ بھی شامل ہیں۔ چناچہ ہم ڈاکٹر تفہیمی کے فرہنگ کو فارسی کا ایسا بڑا لغت قرار دینے میں حق بجانب ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اردو کے ساتھ بیشتر مشترک کلاسیکی ذخیرہ ہونے کے باعث یہ اردو میں پہلا بڑا ، باقاعدہ ادبی لغت قرار پاتا ہے۔ اگرچہ اس میں تنقید و ادبیات کی جدید اصطلاحات شامل نہیں تاہم دستور و قواعد ، زبان شناسی ، فصاحت و بلاغت ، بدیع و بیان ، معانی ، عروض اور علم قافیہ کے حوالے سے 5216 اصطلاحات اور ان کے پندرہ ہزار سے زائد علمی تصورات کا یہ ضخیم مجموعہ لغت نگاری کے اصولوں ، کراس حوالوں ، مخففات اور تصورات کے بیان کے لحاظ سے بھی منفرد ہے۔ ترتیب و تزئین (Collocatio) کے لحاظ سے یہ تکنیکی طور پر بھی بے حد منظم ہے۔
ڈاکٹر تفہیمی کے اس لغت میں تکنیکی لحاظ سے دو امور قابل غور ہیں۔ ایک تلفظ کا اہتمام ، جس میں صرف مخصوص متحرک حروف کی حرکات کو ظاہر کرکے غیر ضروری تلفظ نگاری سے گریز کیا گیا ہے۔ یہ اختصار لغت نگاری کی عمدہ مثال ہے۔ دوسرے معنی یا تصور کا بیان ، جو زوائد سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش ہے ۔ یعنی مطلوب و مخصوص الفاظ میں نپے تلے انداز سے معنی کی وضاحت ، ایسا بہت کم لغات میں ملتا ہے۔ معانی کے بیان کے ساتھ فارسی تراکیب اور شعروں سے دی گئی مثالیں اسے اور زیادہ وقیع بنا دیتی ہیں۔
اگرچہ اس فرہنگ میں سب سے زیادہ قواعد یا گرامر کے الفاظ کا احاطہ ہے لیکن علم عروض بلکہ اقسام و اسمائے عروض و بحور کے بھی معتد بہ حصے کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کی تنظیم بھی کسی رکن واحد کے تحت رکھ کر باقی اسما کی اشاریہ بندی کا اہتمام اس مجموعے کو اصطلاحی لغت نگاری کی حدود میں لے آتا ہے۔ یہی صورت عام مترادف اصطلاحات کی ہے۔ جس کی نہایت عمدہ اشاریہ بندی کی گئی ہے۔
وہ باتیں ، جن کی طرف اس کی تدوین کے حوالے سے اشارہ کرنا ضروری ہے ، ان میں سب سے اہم اس لغت کا دائرہ کار ہے۔ اس کا نام ادبی فرہنگ رکھا گیا ہے۔ اور ادبیات کی کوئی اصطلاح ، سوائے اصناف ادب کے ، اس میں موجود نہیں ۔ اس سے ہماری مراد نقد ، تشریح و تقطیع کے اس کلاسیکی ذخیرہ الفاظ سے ہے ، جو قدیم کتب میں بکھرا ہوا ہے بلکہ مرتب کے ماخذوں مثلا “تسہیل البلاغت“ از محمد سجاد مرزا بیگ “حدائق البلاغت“ از شمس الدین فقیر ، “دبیر عجم“ از مولانا اصغر علی روحی اور “شعر العجم“ از مولانا شبلی نعمانی میں پیش پیش ہے۔ اگر مرتب نے تحدید (Delimitation) ہی میں یہ بات طے کر رکھی تھی ، یعنی صرف آٹھ علوم تک ، تو اشاعت کے وقت اس کا دائرہ کار وسیع تر کر دینا چاہیے تھا تاکہ حد استفادہ وسیع تر ہوسکتی۔ اسی تجدید اور توسیع کے حوالے سے دوسرا اہم پہلو جدید لسانی و ادبی اصطلاحات کا ہے۔ اگر انہیں بھی اس مجموعے میں شامل کرلیا جاتا تو یقینا یہ اپنے موضوع پر ایک مکمل لغت کی حیثیت اختیار کرلیتا۔
مرتب نے ایک اور دعوی کیا ہے کہ فارسی میں اور کوئی جامع لغت اس موضوع پر تاحال منظر عام پر نہیں نظر آیا۔ اردو زبان میں یہ میدان تاحال خالی ہے۔ یہ دعوی محل نظر ہے ۔ بڑا لغت ضروری نہیں کہ جامع لغت بھی ہو تاآنکہ مرتب کردہ لغت تمام ادبی علوم کا مکمل احاطہ نہ کرلے، بصورت دیگر جزوی حوالوں سے تو بیس سے زائد لغات فارسی اور کم و بیش اتنے ہی لغات اور اشاریے اردو میں بھی وجود میں آچکے ہیں۔ اردو میں خاص طور پر “فرہنگ ادبی اصطلاحات“ از پروفیسر کلیم الدین احمد اور “فرہنگ اصطلاحات“ از ڈاکٹر الہی بخش اختر اعوان اور “کشاف تنقیدی اصطلاحات“ از ابوالاعجاز حفیظ صدیقی قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ بھارت میں کشاف ادبی اصطلاحات جیسے کئی منصوبوں کی پہلی جلدیں سامنے آئی ہیں۔ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو اور فارسی میں شعریات ، ادبیات اور لسانیات کے تمام تر علوم و فنون کی قدیم و جدید اصطلاحوں کو محیط جامع لغات سامنے آئیں جو کم از کم ڈاکٹر تفہیمی کے اندازِ تدوین پر مرتب ہوں۔
اردو کے حوالے سے زیر بحث فرہنگ میں بعض اردو بحریں اور ان کے نام اردو شعروں کی مثالوں کے بغیر شامل ہوئے ہیں ، اس طرح پورے فرہنگ میں اردو مثالیں نہ ہونے کے باعث بادی النظر میں اردو ادبیات کے طلبہ اور اساتذہ کے لیے یہ لغت زیادہ مفید ثابت نہیں ہوگا۔ اگلے ایڈیشن میں اتنی سی محنت کرلی جائے اور نقد ادب کی اردو ، فارسی ، عربی اصطلاحات کا مزید اضافہ کرلیا جائے تو مرتب اپنے دعوے میں کسی حد تک کامیاب ثابت ہوں گے۔
(22 مئی 1998 ء کو اسلام آباد میں پڑھا گیا)
ماخوذ از ماہنامہ “اخبار اردو“ مقتدہ قومی زبان
 

تلمیذ

لائبریرین
راجہ صاحب۔ !

نہایت ہی معلوماتی اور علمی حقائق پر مبنی سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے ۔ اگلی قسط کا انتظار ہے۔
 
Top