اردو اخبارات کیلئے خبروں کے حصول کے ذرائع

الف عین

لائبریرین
تمہید

اخبارات کی ابتداء کاغذ کی ابتداء کے بعد ہوئی ۔ ویسے ابتداء سے ہی ماقبل تاریخ کے زمانے سے انسان خبروں کی ترسیل مختلف انداز میں کرتا رہا ہے۔ عیسیٰ ؑ سے ہزاروں سال قبل بھی انسان دشمن سے بچنے کی تدبیریں نکالتااور دھواں وغیرہ کے ذریعہ اطلاعات کی ترسیل کرتا تھا۔ چین میں سب سے پہلے کاغذ ایجاد کیا گیا اس کے بعد اخبارات کا وجود عمل میں۔ ہندوستان میں اخبارات کی تاریخ ڈھائی سو (250) سال پرانی سمجھی جاتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے ہی اخبارات کی آمد ہوئی اور اٹھارویں صدی کی ابتداء میں ہندوستان سے پہلا اخبار شائع ہوا جس کے ایڈیٹر ، نامہ نگار اور سب کچھ ایک ہی شخص تھا جیسے انگریزوں سے سرویس سے بے دخل کردیا تھا۔
اخبارات شروع میں خبروں کے لیے محدود ذرائع سے استفادہ کرتے تھے۔ دور دراز کی خبریں آہستہ آہستہ آتی تھیں ۔ جب کہ مقامی خبریں مخبر،خبری،وغیرہ کے ذریعہ سے حاصل کی جاتی تھیں۔ان خبروں کی تصدیق لازمی جز تھا جس کے لیے بغیر خبری کو مطلع کئے دوسرے خبری کو بھی اسی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کیا جاتا تھا اور دونوں کی خبروں کی اگر تضاد نہ ہوتو اس کو صحیح تسلیم کرلیاجاتا اور اس کو شائع کرلیاجاتھا۔
آج کا میڈیا وسیع ہوچکا ہے اور لمحوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک خبریں پہنچتی ہیں۔ اخبارات کے لیے مختلف ذرئع سے خبریں پہنچتی ہیں اس کی تفصیل ہم اس مضمون پراجکٹ رپورٹ میں پڑھیں گے ۔
 

الف عین

لائبریرین
اخبارات کا عملہ

ایڈیٹر اپنے اپنے شعبہ کے اسٹاف رپورٹر ، نیوز کے عملہ اور دیگر متعلقہ عملہ کا نگران ہوتا ہے ۔ بہت سے اخبارات مختلف شعبوں کے لیے خصوصی ایڈیٹروں یا کالم نویسوں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔ جیسے مشاورتی کالم ، مزاحیہ کالم ، عام معلوماتی کالم ۔
ادارتی عملہ کے تعاون کے لیے بہت سی خصوصی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ۔ مثلاً اخبار کے کتب خانے میں حوالہ جاتی کتب کے علاوہ ماضی کے شمارے ، اشاعتوں میں کام آنے والی تصاویر ، خاکے ، اہم تواریخ وغیرہ موجود رہتے ہیں جن کو عملہ بوقت ضرورت فوری حاصل کرکے کام میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل کمپیوٹر کی مدد سے بھی عصری اور ماضی کے ریکارڈ کو فوری حاصل کرنے کے بندوبست کیے جانے لگے ہیں ۔ اخبارات میں فوٹو لیباریٹری بھی ہوتی ہیں جو تصاویر کو چھاپنے کے لیے تیار کرتی ہے ۔ فی زمانہ روایتی کیمروں کے علاوہ عددی کیمرے (Digital Cameras) بھی بہت معاون رول ادا کررہے ہیں ۔
کاروباری شعبہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اخبار کو مجموعی طورپر منافع حاصل ہورہا ہے ۔ کاروباری شعبہ کا منیجر ، شعبہ اشتہارات ، شعبہ تقسیم یعنی سرکیولیشن اور شعبہ ترقی و ترویج یعنی پروموشن کے منیجروں کے تعاون کے ساتھ کام کرتا ہے ۔ شعبہ اشتہارات اخبار میں شائع کرنے کے لیے مختلف النوع اشتہارات کی وصولی کا اہم فریضہ انجام دیتا ہے ۔ سرکیولیشن منیجر اخبار کی مناسب اور مطلوبہ تقسیم کی ذمہ داری نبھاتا ہے ۔ جب کہ شعبہ ترقی و ترویج کا منیجر اخبار کی جانب عوام کی توجہ مبذول کروانے یعنی اخبار کو عوام میں مقبول بنانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے مختلف طریقوں اور اُمور کو روبہ عمل لاتا ہے ۔ کاروباری شعبہ کے تحت اخبار کی آمدنی و اخراجات کے حسابات کا شعبہ بھی کام کرتا ہے ۔
میکانکی شعبہ اخبار کو چھاپنے کی ذمہ داری سنبھالتا ہے ۔ اس شعبہ کا منیجر صفحات کی تشکیل سے لے کر چھپائی کے لیے پلیٹ کی تیاری اور چھپائی کے سبھی مرحلوں کی نگرانی کرتا ہے اور متعلقہ عملہ کی کاروائیوں میں تال میل پیدا کرتا ہے ۔ اخبار کی چھپائی کے بعد تقسیم کا عملہ اخبار کی مطلوبہ کاپیوں کو متعلقہ علاقوں اور تقسیم کے مراکز کو روانہ کرتا ہے ۔
خبار کی تیاری میں معلومات کو اکٹھا کرنا پہلا مرحلہ ہوتا ہے ۔ یہ معلومات مختلف ذرائع سے حاصل ہوتی ہیں ۔ تاہم اس کے دو اہم ذرائع ہوتے ہیں : (1) خود اخبار کے رپورٹرس (2) نیوز سرویس کی ایجنسیاں ۔ رپورٹرس اپنی تحقیقات ، چھان بین اور انٹرویوز وغیرہ کے ذریعہ معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ معلومات کی نوعیت کے لحاظ سے بھی مختلف رپورٹرس متعین کیے جاتے ہیں ۔ اخبار کے رپورٹرس زیادہ تر مقامی خبروں کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں ۔
قومی اور بین الاقوامی خبروں کے لیے نیوز ایجنسیاں معلومات فراہم کرتی ہیں ۔ بعض اخبارات نیوز سنڈیکیٹ (Syndicate) سے بھی خبریں حاصل کرتے ہیں ۔ نیوز سنڈیکیٹ کو کوئی بڑا اخبار چلاتا ہے یا چند اخبارات باہم مل کر سنڈیکیٹ تشکیل دیتے ہیں تاکہ ایک دوسرے کی معلومات سے استفادہ کرسکیں اور دوسروں کو بھی معلومات فروخت کر کے منافع حاصل کریں۔
اخبا کے لیے لکھنا یا ایڈیٹ کرنا : کسی بھی خبر کو لکھنے کے لیے رپورٹر پہلے پیراگراف میں اس خبر کی اہم بات کو اجاگر کرتا ہے ۔ اس کو خبر کا پہلا ٹکڑا یا سبقت (Lead) کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد کے حصہ میں خبر کی ساری تفصیل پیش کردی جاتی ہے ۔ یہ خبر اب ایڈیٹر کو بھیجی جاتی ہے جو اس کو پڑھ کر اور اس میں ضروری ہو تو رد و قداح کرتا ہے اور ساتھ ہی اس کے لیے ایک موزوں سرخی بھی دیتا ہے ۔ ایڈیٹر خبر کے مواد کو کچھ حد تک یا پورے کا پورا رپورٹرس اور ایڈیٹرس یہ کام کمپیوٹر پر بھی انجام دینے لگے ہیں جس سے کام میں سرعت پیدا ہوگئی ہے اور سرعت اخبار کا ایک اہم تقاضہ ہوا کرتی ہے ۔
اخبارات عموماً اپنی پیش کش میں غیرطرفدارانہ انداز ملحوظ رکھتے ہیں ۔ ان میں ایک اجتماعی اور ادارا جاتی طرز کار فرما ہوتا ہے ۔ یہ عموماً متوسط طبقہ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ اخبارات کے زیادہ تر ناشر خود متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ صفحات کی تعلیم کے عام ہونے اور صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ اداروں کو قائم ہونے اور ان کی ترقی کے باعث صحافیوں کو باوقار انداز میں اور بے لوث طریقہ سے نڈر ہوکر خبریں وغیرہ پیش کرنے میں مدد ملی ہے ۔ صحافت کی تعلیم و تربیت نے جہاں ایک جانب تربیت یافتہ صحافیوں کو تیار کرنے میں تعاون دیا وہیں مختلف اخبارات میں متن کی یکسانیت (similarity) کے ایک نقص کو بھی پروان چڑھایا ہے ۔ خبر لکھنے کی تکنیکیں اور اصول چوں کہ ایک جیسے ہوتے ہیں لہٰذا کسی علاقے کے مختلف اخبارات کے مختلف صحافی جب کسی خبر کو تحریر کرتے ہیں تو اس خبر کے متن کا انداز ، اس کی زبان اور استعمال اصطلاحات میں بڑی حد تک یکسانیت آجاتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا یہ خبریں ایک دوسرے کی کاربن کاپی ہوں ۔
ساری دُنیا میں چھپنے والے اخبارات میں امریکہ کے اخبارات بہت ضخیم ہوتے ہیں ۔ اخبار بینی کے معاملہ میں ملک ناروے (Norway) سرفہرست ہے ۔ یہاں ہر ایک ہزار افراد میں تقریباً 610 کاپیاں فروخت ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے جاپان ، جرمنی اور فن لینڈ کا ۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ صنعتی طورپر ترقی یافتہ ممالک میں اخبارات کی پذیرائی زیادہ ہوتی ہیں ۔ جب کہ ترقی پذیر ممالک میں غربت اور ناخواندگی کے باعث اخبار پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔
براعظم ایشیا میں جاپان اور چین ایسے ممالک ہیں جہاں چھاپے خانے کا نظام بہت ترقی یافتہ ہے ۔ جاپان کا یومیوری شمبن ساری دُنیا میں سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے ۔ یہ روزنامہ فی دن تقریباً 140 لاکھ کاپیاں چھاپتا ہے ۔
ہمارے ملک میں چھوٹے بڑے تقریباً دو ہزار اخبار 80سے زائد زبانوں میں چھپتے ہیں ۔ ان کی جملہ نکاسی تقریباً 170لاکھ ہے ۔ ملک پر انگریزی اخبارات کا غلبہ ہے ۔
آسٹریلیا میں تقریباً 60روزنامے چھپتے ہیں جن کی مجموعی نکاسی 35لاکھ کے قریب ہے ۔ یوروپ میں برطانوی جزائر کے باشندے ، روزناموں کے مطالعے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں ۔ سلطنت متحدہ برطانیہ اور جمہوریہ آئرلینڈ میں یوں تو چھپنے والے روزناموں کی تعداد کم ہے لیکن ان کی سرکیولیشن بہت زیادہ ہے ۔ یہاں سے تقریباً 120روزنامے نکلتے ہیں ۔
دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس سے نکلنے والے اخبار کسی نہ کسی سیاسی پارٹی یا سماجی گروہ سے وابستہ رہا کرتے تھے ۔ جرمنی میں 357 روزنامے شائع ہوتے ہیں ۔ ان کی مجموعی سرکیولیشن 20ملین سے زیادہ ہے ۔ لاطینی امریکہ میں پریس پر حکومت کا اثر و رسوخ ہوتا ہے ۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تقریباً 1,700 روزنامے اور 7,500 ہفتہ وار اخبار شائع ہوتے ہیں ۔ یہاں کے اخبارات کی مجموعی سرکیولیشن 60ملین سے زائد ہے ۔
اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے تین اہم ذرائع ہیں ۔ 1۔نامہ نگار۔2۔ صحافتی انجمنیں۔3۔ سرکاری ایجنسیاں۔
آئندہ صفحات میں اس کی تفصیل کابغور مطالعہ کریں گے۔ نامہ نگار کسی بھی اخبار کے لیے اہم ہوتا ہے ۔ہوتا ہے۔ اخباروں میں کام کرنے والا عملہ تمام ہی اہم ہوتا ہے لیکن خبریں جو اخبار کا لازمی عنصر ہوتی ہیں اور عوام جس کے لیے اپنی جیب سے پیسے خرچ کرے اخبار خریدتے ہیں تاکہ آس پاس کی جانکار ی اور معلومات حاصل ہوسکے ۔ خبروں کے پیچھے دوڑ نا خبر کی حقیقت معلوم کرنا،سچائی کو عام کرنااور جھوٹ کا پلندہ پھوڑنا یہی ہمارے رپورٹرس کا کام ہوتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے ذرائع

اخبارات کے لیے خبروں کے حصول کے ذرائع موجودہ دور میں بہت وسیع ہوچکے ہیں۔ اخبارات کے اپنے رپورٹرس ہوتے ہیں، ری لائنس رپورٹرس، نیوز ایجنسیاں ،سرکاری نیوز ایجنسیاں وغیرہ ذرائع سے اخبارات کے لیے خبروں وغیرہ ارسال کرتے ہیں۔
( a ) نامہ نگار
( b ) صحافتی انجمنیں
آئے سب سے ہم نامہ نگار کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

نامہ نگار
اخبار کا بیشتر حصہ خبروں پر مشتمل ہوتا ہے اخباری دفتر کو کئی ایک ذرائع سے خبریں موصول ہوتی ہیں قومی اور بین الاقوامی خبریں زیادہ تر خبررساں ادارے ہی فراہم کرتے ہیں اور یہ خبریں سب اخباروں کو بھیجی جاتی ہیں اگر اخبار صرف خبر رساں اداروں کی بھیجی گئی خبروں کو ہی شائع کریں تو اخباروں میں یکسانیت پیداہوجائے گی حالاںکہ ہر اخبار اپنی ضرورت اور پالیسی کا لحاظ رکھتے ہوئے خبروں کو شائع کرتا ہے اس کے باوجود اخباروں کی انفرادیت باقی نہیں رہے گی اس لیے اخباراپنے خاص وسائل سے زیادہ سے زیادہ خبریں حاسل کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ وسائل اخبار کے اپنے عملے کے ارکان ہوتے ہیںانہیں رپورٹر یا نامہ نگار کہاجاتا ہے۔
رپورٹر کا لفظ رپورٹ سے بنا ہوا ہے۔ شہر اور اس کے گردنواح کی خبروں کو جمع کرنے کا کام رپورٹر کرتا ہے نئی اور تازہ خبریں جمع کرنے کا یہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ کچھ بھی واقع ہو چھوٹی بڑی مصروفیات، چھوٹی بڑی تقریب ، چھوٹا بڑا حادثہ ہو یہ رپورٹر اس کی رپورٹ اخبار کے ایڈیٹر کو روانہ کردیتا ہے ۔ اس کو سب ایڈیٹر پڑھ کر کس خبر کو یا کسی تقریب کو شائع کرنا ہے اس کو لے لیتا ہے اور اس کو اشاعت کے لیے دے دیتا ہے۔ ہررپورٹر کا اپنا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے وہ جس موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر ہشر بڑا ہو تو مختلف موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر شہ ربڑا ہو تو مختلف علاقوں کے الگ الگ رپورٹر ہوتے ہیں ہر رپورٹ کا اپنا علاقہ بیٹ (Beat) کہلاتا ہے ان تمام رپورٹروں کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔ بڑے اخبارات میں رپورٹر کا موضوعی بیٹ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی رپورٹر سیاسی رپورٹنگ کیلئے مختص ہے تو وہ صرف سیاسی پارٹیوں سے متعلق خبریں ہی ارسال کرتا ہے۔ کرائم رپورٹر صرف کرائم کی ہی رپورٹ ارسال کرتا ہے۔
رپورٹر کے علاوہ نامہ نگار ہوتے ہیں یہ دراصل رپورٹر س کے ہی کام کرتے ہیں لیکن یہ عموماً اخبار کے اشاعتی شہر سے دور ہوتے ہیں۔ دیگر مقامات سے نامہ نگار انجام دیتے ہیں انھیں Correspondent کہا جاتا ہے۔ ایک ضلع میں کئی ایک نامہ نگار ہوتے ہیں جو اپنے مقامات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان سب کا نگران ضلعی نامہ نگار Dist Correspondent ہوتا ہے۔ نامہ نگار اہم خبریں تار یا ٹیلی فون یا فیاکس کے ذریعے ارسال کرتا ہے۔ طویل رپورٹنگ جن کی فوری اشاعت ضروری نہ ہو ان کو ڈاک سے روانہ کیاجاتا ہے۔ جیسے عید کے ایڈیشن کے لیے کچھ مواد ارسال کرنا ہے تو اس کو عید سے چند دن قبل ڈاک سے روانہ کیاجاسکتا ہے۔
نامہ نگاری سیکھے ہوئے علم کا ’’عملی میدان ہے‘‘چوری رحم علی ہاشمی نامہ نگار کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔
’’وہ حالات زمانہ کی رفتار کو وسیع ترین معنوں میں مشاہدہ کرتا ہے اور بقیہ حصہ دنیا کے فائدے کیلئے اس کی تصویر الفاظ میں کھنچ دیتا ہے۔‘‘رپورٹر معاشرہ کا ایک باشعور اور باریک بین مشاہدہ ہوتا ہے جس کا مقصد خبریں جمع کرنا اور انہیں معروضیت دیانت داری اور غیر جانبداری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔
صحافت ایک مقدس اور معزز پیشہ ہے صحافت نگار عموماً اخبار نویس ،رپورٹر ، نامہ نگار یا جرنلست کہلاتا ہے سماج میں صحافی کو ممتاز مقام حاصل ہے موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اس لیے نہ صرف مطبوعہ صحافت سے وابستہ افراد خود کو جرنلسٹ کہتے ہیں بلکہ ریڈیو سے وابستہ لوگ ریڈیو جرنلسٹ اور ٹی وی سے وابستہ کار کرن خود کو ٹی وی جرنلسٹ کہتے ہٰں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج میں لفظ جرنلسٹ ایک معزز اور پیشہ اشراف کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
نامہ نگار کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ سماجی واقعات کو اخبار کی زینتبناتا ہے بلکہ آج کا نامہ نگار غیر معمولی معلومات رکھتا ہے۔ خصوصاً حکومت کی مختلف پالیسوں کا شارح بھی ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے سماج کے کتنے افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ملوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے سیاسی لیڈر یا درمیانی لوگ کس طرح رشوت کا بازار گرم کررہے ہیں۔ پولیس اور عوام کے درمیان کس طرح کاربط ہے کہیں پولیس کسی عام آدمی کو ظلم وستم کا نشانہ تو نہیں بنارہی ہے۔ مختلف سماجی مسائل جیسے جہیز، بے روزگاری، نوجوانوںکی بے راہ روی، تعلیمی اداروں کااستحصال ضعیف افراد اور خواتین کے مسئال کا وہ نہ صرف جائزہ لیتا ہے بلکہ اس کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے ان مسائل کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے چونکہ کوئی مسئلہ جب اخبار کے صفحات کی زینت بنتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے مذکورہ مسئلہ رائے عامہ ہموار ہونے لگتی ہے اور لوگ باشعور ہونے لگتے ہیں۔
نامہ نگار صرف وقائع نویس نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ سماج کے تاریخ لکھتا ہے اس کا سماج میں اچھا مقام ہوتا ہے۔ شادی کی خوشی کی محفل ہو یا غم کی مجلس ہو اس کو مدعو کیاجاتا ہے۔ اس کی آمد باعث سکون محسوس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اکثر شہری اس کی دیکھ اس طرح مسرور ہوتے ہیں کہ یہ ہمارا بہی خواہ ہے اور ہمارے لیے حکومت پولیس اور دیگر اداروں میں سفارش کرسکتا ہے اگر ہم بے قصور غلط فہمی میں گھر جھائیں تو اس کے برخلاف جو کالا کاروبار کرتے ہیں رپورٹر و نامہ نگار سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اس سے ملنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اس سے ہمارا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
نامہ نگار کی مختصر تعارف اور اس کا سماج میں رتبہ وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اب آئے نامہ نگاری کے فرائض کا جائزہ لیتے ہیں۔ نامہ نگار، معاشرہ کا ایک ذمہ دار اور باشعور فرد ہوتا ہے وہ سماج کا انہتائی قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھتا ہے وہ صرف وقائع نگارہی نہیں ہوتا بلکہ واقعات پر اپنی رائے بھی رکھتا ہے وہ واقعہ کے پوشیدہ نکات کو اہر لاتا ہے اور اس کے محرکات کا پتہ چلاتا ہے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔
نامہ نگار کی ذمہ داریاں صبر آزماہوتی ہیں وہ معمولی سے معمولی واقعہ کا بھی نوٹس لیتا ہے اور اس کی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ واقعہ کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے ہر پہلو پر غور کرتا ہے ۔ نامہ نگار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ سماج کا نقاد ہے اور سماج میںہر مذہب اور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں ان تمام میں یگانگت پیداکرنا نامہ نگار کا اہم فریضہ ہے ایسے واقعات کا تدارک کرے جس سے معاشرے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ غیر مصدقہ واقعات اور افواہوں کو نہ صرف تردید کرے بلکہ حق اور سچ کی تبلیغ کرے خواہ نامہ نگار کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔ ایسے محکمے جس کا راست تعلق عوام سے ہوتا ہے مثلاً بجلی، پانی، راشن، مارکٹ جہاں پر مختلف طریقوں سے عوام کو بے وقوف بنایاجاتا ہے اور ان کااستحصال کیاجاتا ہے نامہ نگار پر لازم ہے کہ وہ ان محکموں پر نظر رکھے نشیلی اشیاء اور جسم فروشی کے کاروبار بھی مختلف محلوں میں چوری چھپے بھی کئے جارہے ہیں جس سے نوجوان نسل دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ نوجوان لڑکیوںکو ملازمت کے بہانے جسم فروشی کا کاروبار کرایاجارہا ہے ان حالات میں نامہ نگار کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ ان غیر اخلاقی کاروبار کا قلع قمع کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاے اور نوجوانوںکی ذہنی تربیت کرے تاکہ وہ کسی قسم کے استحصا ل کا شکار نہ ہوں کئی ایسے مواقع بھی نامہ نگار کی زندگی آتے ہیں جہاں نامہ نگار کو رشوت بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو یہیں پر ختم کردے کچھ نامہ نگار چند پیسوں کیلئے اپنے مقدس پیشے کو داغدار بھی بنادیتے ہیں بہر حال رپورٹر یانامہ نگار پر لازم ہے وہ معاشرے اور سماج کی فلاح وبہبود اور تری کیلئے اپنے آپ کو وقف کردے۔
نامہ نگار یا صحافی تعلیم و تربیت ، محنت و مشقت اور ذوق وشوق سے بناجا سکتا ہے۔ نکامہ نگار کیلئے حسب ذیل اوصاف ضروری ہیں۔
1۔اس کام میں دل وجان سے مشغول ہوجانے کے لیے تیار رہیں۔
2۔ طبعتاً ، دماغی اور جسمانی حیثیت سے اس کے لیے موزوں رہے۔
3۔ محنتی ہو۔
4۔ دوایک سال بلا مالی نفع کے توقع کے صحافت کی مبادیات حاصل کرنے میں صرف کرسکتا ہو۔
ذوق وشوق، مزاج، طبیعت، مطالعہ اور محنت کے بغیر کوئی بھی شخص صحافی نہیں بن سکتا۔ ماہرین صحافت نے نامہ نگار کیلئے کچھ خوبیاں مختص کی ہیں۔ گوکہ یہ اوصاف ہر نامہ نگار میںاچانک پیدانہیںہوتے لیکن مستقل مزاجی سے اکتساب کے ذریعہ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
نامہ نگار کے مختلف روپ اس طرح ہیں۔
1۔ اسٹاف رپورٹر یعنی ہر اخباراپنے رپورٹر رکھتا ہے جن کو اسٹاف رپورٹر کہتے ہیں۔
2۔ چیف رپورٹر: اخباری دفتر میں کئی ایک رپورٹر مامور ہوتے ہیں ان تمام کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔
3۔ کرائم رپورٹر: جرائم کی خبریں جمع کرنے کیلئے جو رپورٹر مقرر ہوتے ہیں انہیںکرائم رپورٹر کہاجاتا ہے۔
4۔ اسپورٹس رپورٹر: کھیل کود کی خبروں کے لیے یہ پورٹر مختص ہوتا ہے۔
5۔ سائنسی نامہ نگار: سائینسی ایجادات وانکشافات کی رپورٹنگ کرنے والا نامہنگار سائنسی رپورٹر کہلاتا ہے۔
6۔ اقتصادی نامہ نگار: موجودہ سماج میں معاشیات اور اقتصادیات کی طرف کافی دھیان جرہا ہے اس لیے تجارت واقتصادایات کا ایک نامہ نگار ہوتا ہے۔
7۔ نمائندہ خصوصی۔ یہ صرف خبریں ہی ارسال نہیں کرتا بلکہ پس منظر، وجوہات اور تفصیلات کے ساتھ جامع رپورٹنگ کرتا ہے۔
اسے انگریزی میںSpecial Corespondentکہاتاجاتاہے۔
8۔ ضلعی نامہ نگار۔
 

الف عین

لائبریرین
( A) نامہ نگار​
آئے سب سے ہم نامہ نگار کے بارے میں تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

نامہ نگار
اخبار کا بیشتر حصہ خبروں پر مشتمل ہوتا ہے اخباری دفتر کو کئی ایک ذرائع سے خبریں موصول ہوتی ہیں قومی اور بین الاقوامی خبریں زیادہ تر خبررساں ادارے ہی فراہم کرتے ہیں اور یہ خبریں سب اخباروں کو بھیجی جاتی ہیں اگر اخبار صرف خبر رساں اداروں کی بھیجی گئی خبروں کو ہی شائع کریں تو اخباروں میں یکسانیت پیداہوجائے گی حالاںکہ ہر اخبار اپنی ضرورت اور پالیسی کا لحاظ رکھتے ہوئے خبروں کو شائع کرتا ہے اس کے باوجود اخباروں کی انفرادیت باقی نہیں رہے گی اس لیے اخباراپنے خاص وسائل سے زیادہ سے زیادہ خبریں حاسل کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ وسائل اخبار کے اپنے عملے کے ارکان ہوتے ہیںانہیں رپورٹر یا نامہ نگار کہاجاتا ہے۔
رپورٹر کا لفظ رپورٹ سے بنا ہوا ہے۔ شہر اور اس کے گردنواح کی خبروں کو جمع کرنے کا کام رپورٹر کرتا ہے نئی اور تازہ خبریں جمع کرنے کا یہی ذمہ دار ہوتا ہے۔ کچھ بھی واقع ہو چھوٹی بڑی مصروفیات، چھوٹی بڑی تقریب ، چھوٹا بڑا حادثہ ہو یہ رپورٹر اس کی رپورٹ اخبار کے ایڈیٹر کو روانہ کردیتا ہے ۔ اس کو سب ایڈیٹر پڑھ کر کس خبر کو یا کسی تقریب کو شائع کرنا ہے اس کو لے لیتا ہے اور اس کو اشاعت کے لیے دے دیتا ہے۔ ہررپورٹر کا اپنا ایک مخصوص میدان ہوتا ہے وہ جس موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر ہشر بڑا ہو تو مختلف موضوع یا علم پر عبور رکھتے ہیں عموماً انہیں اسی میدان کی رپورٹنگ کی ذمہ داری دی جاتی ہے اگر شہ ربڑا ہو تو مختلف علاقوں کے الگ الگ رپورٹر ہوتے ہیں ہر رپورٹ کا اپنا علاقہ بیٹ (Beat) کہلاتا ہے ان تمام رپورٹروں کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔ بڑے اخبارات میں رپورٹر کا موضوعی بیٹ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی رپورٹر سیاسی رپورٹنگ کیلئے مختص ہے تو وہ صرف سیاسی پارٹیوں سے متعلق خبریں ہی ارسال کرتا ہے۔ کرائم رپورٹر صرف کرائم کی ہی رپورٹ ارسال کرتا ہے۔
رپورٹر کے علاوہ نامہ نگار ہوتے ہیں یہ دراصل رپورٹر س کے ہی کام کرتے ہیں لیکن یہ عموماً اخبار کے اشاعتی شہر سے دور ہوتے ہیں۔ دیگر مقامات سے نامہ نگار انجام دیتے ہیں انھیں Correspondent کہا جاتا ہے۔ ایک ضلع میں کئی ایک نامہ نگار ہوتے ہیں جو اپنے مقامات کی رپورٹنگ کرتے ہیں اور ان سب کا نگران ضلعی نامہ نگار Dist Correspondent ہوتا ہے۔ نامہ نگار اہم خبریں تار یا ٹیلی فون یا فیاکس کے ذریعے ارسال کرتا ہے۔ طویل رپورٹنگ جن کی فوری اشاعت ضروری نہ ہو ان کو ڈاک سے روانہ کیاجاتا ہے۔ جیسے عید کے ایڈیشن کے لیے کچھ مواد ارسال کرنا ہے تو اس کو عید سے چند دن قبل ڈاک سے روانہ کیاجاسکتا ہے۔
نامہ نگاری سیکھے ہوئے علم کا ’’عملی میدان ہے‘‘چوری رحم علی ہاشمی نامہ نگار کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔
’’وہ حالات زمانہ کی رفتار کو وسیع ترین معنوں میں مشاہدہ کرتا ہے اور بقیہ حصہ دنیا کے فائدے کیلئے اس کی تصویر الفاظ میں کھنچ دیتا ہے۔‘‘رپورٹر معاشرہ کا ایک باشعور اور باریک بین مشاہدہ ہوتا ہے جس کا مقصد خبریں جمع کرنا اور انہیں معروضیت دیانت داری اور غیر جانبداری کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔
صحافت ایک مقدس اور معزز پیشہ ہے صحافت نگار عموماً اخبار نویس ،رپورٹر ، نامہ نگار یا جرنلست کہلاتا ہے سماج میں صحافی کو ممتاز مقام حاصل ہے موجودہ دور میڈیا کا دور ہے اس لیے نہ صرف مطبوعہ صحافت سے وابستہ افراد خود کو جرنلسٹ کہتے ہیں بلکہ ریڈیو سے وابستہ لوگ ریڈیو جرنلسٹ اور ٹی وی سے وابستہ کار کرن خود کو ٹی وی جرنلسٹ کہتے ہٰں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سماج میں لفظ جرنلسٹ ایک معزز اور پیشہ اشراف کیلئے استعمال ہوتا ہے۔
نامہ نگار کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ وہ سماجی واقعات کو اخبار کی زینتبناتا ہے بلکہ آج کا نامہ نگار غیر معمولی معلومات رکھتا ہے۔ خصوصاً حکومت کی مختلف پالیسوں کا شارح بھی ہوتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے سماج کے کتنے افراد مستفید ہورہے ہیں۔ ملوبہ مقاصد حاصل کرنے کیلئے سیاسی لیڈر یا درمیانی لوگ کس طرح رشوت کا بازار گرم کررہے ہیں۔ پولیس اور عوام کے درمیان کس طرح کاربط ہے کہیں پولیس کسی عام آدمی کو ظلم وستم کا نشانہ تو نہیں بنارہی ہے۔ مختلف سماجی مسائل جیسے جہیز، بے روزگاری، نوجوانوںکی بے راہ روی، تعلیمی اداروں کااستحصال ضعیف افراد اور خواتین کے مسئال کا وہ نہ صرف جائزہ لیتا ہے بلکہ اس کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے ان مسائل کے حل کیلئے متعلقہ محکموں کی توجہ اس جانب مبذول کرواتا ہے چونکہ کوئی مسئلہ جب اخبار کے صفحات کی زینت بنتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے مذکورہ مسئلہ رائے عامہ ہموار ہونے لگتی ہے اور لوگ باشعور ہونے لگتے ہیں۔
نامہ نگار صرف وقائع نویس نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ سماج کے تاریخ لکھتا ہے اس کا سماج میں اچھا مقام ہوتا ہے۔ شادی کی خوشی کی محفل ہو یا غم کی مجلس ہو اس کو مدعو کیاجاتا ہے۔ اس کی آمد باعث سکون محسوس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں اکثر شہری اس کی دیکھ اس طرح مسرور ہوتے ہیں کہ یہ ہمارا بہی خواہ ہے اور ہمارے لیے حکومت پولیس اور دیگر اداروں میں سفارش کرسکتا ہے اگر ہم بے قصور غلط فہمی میں گھر جھائیں تو اس کے برخلاف جو کالا کاروبار کرتے ہیں رپورٹر و نامہ نگار سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں اور اس سے ملنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں اس سے ہمارا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
نامہ نگار کی مختصر تعارف اور اس کا سماج میں رتبہ وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد اب آئے نامہ نگاری کے فرائض کا جائزہ لیتے ہیں۔ نامہ نگار، معاشرہ کا ایک ذمہ دار اور باشعور فرد ہوتا ہے وہ سماج کا انہتائی قریب اور باریک بینی سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ معاشرے کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھتا ہے وہ صرف وقائع نگارہی نہیں ہوتا بلکہ واقعات پر اپنی رائے بھی رکھتا ہے وہ واقعہ کے پوشیدہ نکات کو اہر لاتا ہے اور اس کے محرکات کا پتہ چلاتا ہے جو ایک عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔
نامہ نگار کی ذمہ داریاں صبر آزماہوتی ہیں وہ معمولی سے معمولی واقعہ کا بھی نوٹس لیتا ہے اور اس کی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ واقعہ کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کے ہر پہلو پر غور کرتا ہے ۔ نامہ نگار کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ سماج کا نقاد ہے اور سماج میںہر مذہب اور طبقہ کے لوگ رہتے ہیں ان تمام میں یگانگت پیداکرنا نامہ نگار کا اہم فریضہ ہے ایسے واقعات کا تدارک کرے جس سے معاشرے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے۔ غیر مصدقہ واقعات اور افواہوں کو نہ صرف تردید کرے بلکہ حق اور سچ کی تبلیغ کرے خواہ نامہ نگار کا کسی بھی مذہب سے تعلق ہو۔ ایسے محکمے جس کا راست تعلق عوام سے ہوتا ہے مثلاً بجلی، پانی، راشن، مارکٹ جہاں پر مختلف طریقوں سے عوام کو بے وقوف بنایاجاتا ہے اور ان کااستحصال کیاجاتا ہے نامہ نگار پر لازم ہے کہ وہ ان محکموں پر نظر رکھے نشیلی اشیاء اور جسم فروشی کے کاروبار بھی مختلف محلوں میں چوری چھپے بھی کئے جارہے ہیں جس سے نوجوان نسل دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ نوجوان لڑکیوںکو ملازمت کے بہانے جسم فروشی کا کاروبار کرایاجارہا ہے ان حالات میں نامہ نگار کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے۔ ان غیر اخلاقی کاروبار کا قلع قمع کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاے اور نوجوانوںکی ذہنی تربیت کرے تاکہ وہ کسی قسم کے استحصا ل کا شکار نہ ہوں کئی ایسے مواقع بھی نامہ نگار کی زندگی آتے ہیں جہاں نامہ نگار کو رشوت بھی دی جاتی ہے کہ وہ اس معاملے کو یہیں پر ختم کردے کچھ نامہ نگار چند پیسوں کیلئے اپنے مقدس پیشے کو داغدار بھی بنادیتے ہیں بہر حال رپورٹر یانامہ نگار پر لازم ہے وہ معاشرے اور سماج کی فلاح وبہبود اور تری کیلئے اپنے آپ کو وقف کردے۔
نامہ نگار یا صحافی تعلیم و تربیت ، محنت و مشقت اور ذوق وشوق سے بناجا سکتا ہے۔ نکامہ نگار کیلئے حسب ذیل اوصاف ضروری ہیں۔
1۔اس کام میں دل وجان سے مشغول ہوجانے کے لیے تیار رہیں۔
2۔ طبعتاً ، دماغی اور جسمانی حیثیت سے اس کے لیے موزوں رہے۔
3۔ محنتی ہو۔
4۔ دوایک سال بلا مالی نفع کے توقع کے صحافت کی مبادیات حاصل کرنے میں صرف کرسکتا ہو۔
ذوق وشوق، مزاج، طبیعت، مطالعہ اور محنت کے بغیر کوئی بھی شخص صحافی نہیں بن سکتا۔ ماہرین صحافت نے نامہ نگار کیلئے کچھ خوبیاں مختص کی ہیں۔ گوکہ یہ اوصاف ہر نامہ نگار میںاچانک پیدانہیںہوتے لیکن مستقل مزاجی سے اکتساب کے ذریعہ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
نامہ نگار کے مختلف روپ اس طرح ہیں۔
1۔ اسٹاف رپورٹر یعنی ہر اخباراپنے رپورٹر رکھتا ہے جن کو اسٹاف رپورٹر کہتے ہیں۔
2۔ چیف رپورٹر: اخباری دفتر میں کئی ایک رپورٹر مامور ہوتے ہیں ان تمام کی نگرانی چیف رپورٹر کرتا ہے۔
3۔ کرائم رپورٹر: جرائم کی خبریں جمع کرنے کیلئے جو رپورٹر مقرر ہوتے ہیں انہیںکرائم رپورٹر کہاجاتا ہے۔
4۔ اسپورٹس رپورٹر: کھیل کود کی خبروں کے لیے یہ پورٹر مختص ہوتا ہے۔
5۔ سائنسی نامہ نگار: سائینسی ایجادات وانکشافات کی رپورٹنگ کرنے والا نامہنگار سائنسی رپورٹر کہلاتا ہے۔
6۔ اقتصادی نامہ نگار: موجودہ سماج میں معاشیات اور اقتصادیات کی طرف کافی دھیان جرہا ہے اس لیے تجارت واقتصادایات کا ایک نامہ نگار ہوتا ہے۔
7۔ نمائندہ خصوصی۔ یہ صرف خبریں ہی ارسال نہیں کرتا بلکہ پس منظر، وجوہات اور تفصیلات کے ساتھ جامع رپورٹنگ کرتا ہے۔
اسے انگریزی میںSpecial Corespondentکہاتاجاتاہے۔
8۔ ضلعی نامہ نگار۔
 

الف عین

لائبریرین
B صحافتی انجمنیں

اخبارات کے آغاز کے ساتھ ہی ان کی آزادی اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی گئی۔ صحافت کی بیباکی اور جرأت اظہار سے حکومت برطانیہ اور آزادی کے بعد جمہوری حکومتوں کی جانب سے صحافت مختلف طرح کے دباؤ کا شکار رہی۔ سنسر شپ اور دیگر قوانین کے ذریعہ آزادی صحافت کو متاثر کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں اسی بناء پر اخبارات کے ایڈیٹرس اور صحافیوں نے متحد اور منظم ہوکر اپنی انجمنیں قائم کیں۔ اور موثر نمائندگیوں کے ذریعہ صحافت کی آزادی اور اس کے وقار اور اعتبار کو برقراررکھا۔ نیوز پرنٹ، اشتہارات اور دیگر مراعات کے حصول کے لئے ان انجمنوں کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے علاوہ ایسے کئی معاون صحافتی ادارے بھی قائم ہوئے جنہوں نے اخباری مواد کے حصول میں اخبارات کی اعانت کی خاص طور پران اداروں سے چھوٹے اور متوسط درجہ کے اخبارات کو زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔ ان اداروں نے اخبارات کے معیار کوبلند کرنے اور ان کی تعداداشاعت میں اضافہ کے لئے راست یا براہ راست طورپر گراں قدر تعاون کیا۔
صحافی انجمنوں کے قیام کی ضرورت۔ پس منظر
سب سے پہلے1823 میں حکومت کی صحافت دشمن پالیسی کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ حکومت نے اس وقت یہ پابندی عائد کی تھی کہ کوئی بھی فرد لائسنس حاصل کئے بغیر اخبار شرو نہیں کرسکتا اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کودستخط شدہ احتجاجی محضر روانہ کئے گئے۔
1857 میں ہندوستانی اخبارات نے ملکہ برطانیہ کوایک مشترکہ درخواست روانہ کی تھی جس میں اس بات کی شکایت کی گئی تھی کہ حکومت ہندوستانی اخبارات کے ساتھ امتیازی سلوک برتتی ہے اور مختلف طریقوں سے صحافت کی آزادی پرروک ٹوک لگایا جارہا ہے۔ اس طرح صحافتی انجمنوں کی تشکیل کے راستے ہموار ہوتے رہے۔
1889 میں بنگالی روزنامہ امرت بازار پتریکا میں ایک اہم سرکاری دستاویز کی اشاعت سے ناراض ہوکر حکومت نے سرکاری رازوں سے متعلق ایکٹ بنایا جس کے تحت اہم خفیہ سرکاری معلومات کی اخبارات میں اشاعت پر مکمل پابندی عائد کردی گئی۔ حکومت کے خلاف باغیانہ تحریروں کے سلسلے میں بال گنگادھر تلک پر مقدمے چلائے گئے اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ حکومت کی اس پالیسی کے خلاف اخبارات نے محسوس کیا کہ ایک متحدہ اور منظم انجمن تشکیل دی جانی چاہئیے جو حکومت کی اخبار دشمن پالیسی کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائے بلکہ آزادی صحافت کا تحفظ کرے اور صحافیوں کے حقوق کی ترجمانی کرے۔چنانچہ ہندوستان کی پہلی صحافتی انجمن 1891 میں نیٹیو پریس اسوسی ایشن Native Press Association کے نام سے قائم ہوئی۔ لارڈ اپن کے زمانے میں ایک قانون بنا جس کے ذریعہ اخبارات پر مکمل کنٹرول رکھنے کی کوششیں کی گئیں ۔ اس پس منظر میں کئی اخبارات کے ایڈیٹروں اورصحافیوں نے مل کر طے کیا کہ ایک طاقتور اور منظم تنظیم قائم کی جانی چاہئیے جو سرکاری قوانین کے خلاف جدوجہد کرے۔ چنانچہ 1915 میں پریس اسوسی ایشن آف انڈیا کی تشکیل عمل میں آئی۔ اس زمانے میں ساڑھے تین سو سے زائد اخبارات پرمختلف الزامات عائد کرتے ہوئے جرمانے لگائے گئے۔ پریس ایکٹ ایک سخت قانون تھا جس کے خلاف پریس اسوسی ایشن آف انڈیا نے حکام سے نمائندگی کی۔1921 میں سپرو کمیٹی کا اعلان ہوا تو اخبارات کواپنے مسائل اور صحافتی قوانین کی پابندی کے خلاف پرزور احتجاج کا موقع ملا۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی اخبارات پربے پناہ مظالم ڈھائے گئے اور صحافت کی آزادی کوسلب کرنے کے اقدامات کئے گئے ۔ اخبارات پرسنسرشپ عائد کردی گئی اور کئی طرح کی تحدیدات کے ذریعہ انہیں ہراساں کیا جاتا رہا۔کئی اخبارات کے صحافیوں کوہراساں کیاگیا اور انہیں سزائیں دی گئیں ۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ ایسی نمائندہ اور طاقتور صحافی تنظیمیں قائم کی جائیں جو ان مظالم کو متحدہ طورپر روک سکیں اور صحافیوں کوان کے حقوق دلواسکیں۔ ملک کے کئی حصوں میں صحافتی انجمنیں ریاستی اور بعض ضلعی سطحوں پرسرگرم عمل رہیں۔ ان انجمنوں کی تشکیل سے یہ فائدہ ہوا کہ متحدہ طورپر اخبارات کے مسائل کی حکام سے نمائندگی کی گئی اور بعض مسائل کوحل کرنے میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ چھوٹے اخبارات کو ان صحافتی انجمنوں سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا۔
1۔انڈین اینڈ ایسٹرن نیوز پیپرسوسائٹی
اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر موثر نمائندگی کے لیے ایک نمائندہ انجمن کا قیام عمل میں آیا جو انڈین ایسٹرن نیوز پیپر سوسائٹی Indian and Eastern News Paper Societyکے نام سے موسوم تھی۔
1939 میں یہ سوسائٹی قائم کی گئی جو اخبارات کے مالکان اور پبلشرز کی نمائندہ تنظیم تھی۔ جس کے ارکان میں ہندوستان کے علاوہ کئی ایشیائی اخبارات بھی شامل تھے۔ سوسائٹی کا اہم مقصد اخبارات کے مالکان اور پبلشرز کے تمام مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ ایسے تمام اقدامات کے خلاف سوسائٹی احتجاج کرتی ہے جو اخبار کی اشاعت میں رکاوٹ پیدا کرے اور صحافت کی آزادی پرکاری ضرب لگائے۔ اسمبلیوں‘ مقامی ‘سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی جانب سے جب کبھی اخبارات کے مفادات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ مقتدر انجمن اس کے خلاف اپنی موثر آواز بلند کرتی ہے اور مسائل کے حل کے لئے امکانات تلاش کرتی ہے ۔ اس سوسائٹی کا ایک اور مقصد اخبارات کی اشاعت کے بارے میں تمام ضروری تفصیلات اور تازہ معلومات جمع کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اخبارات کے دفاتر سے عملی اشتراک وتعاون کرنا ہے۔ سوسائٹی کی جانب سے اخبارات کے مسائل اور مشکلات کا جائزہ لینے کے لئے سمینار اور کانفرنسیں منعقد کی جاتی ہیں جن میں ان مسائل ومشکلا کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے حل کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاتا ہے۔
2۔ آل انڈیا نیوز پیپر ایڈیٹرس کانفرنس
ہندوستانی اخبارات کے ایڈیٹروں کی انجمن آل انڈیا نیوز پیپرایڈیٹرس کانفرنس1940 میں قائم ہوئی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے شروع ہونے کے بعد کادور اخبارات کے لئے بڑا ہی صبر آزما تھا۔ حکومت برطانیہ نے اخبارات پر کئی طرح کی پابندیاں عائد کردی تھیں جس سے اخبارات کے ایڈیٹرس نت نئے مسائل سے دوچار ہوگئے اور اخبارات کی باقاعدہ اشاعت میں رکاوٹیں پیدا ہونے لگیں ۔ ان حالات کو محسوس کرتے ہوئے ایڈیٹرس کی نمائندہ انجمن بنائی گئی۔ اس انجمن کا نام’’ آل انڈیا نیوز پیپرز ایڈیٹرس کانفرنس‘ رکھاگیا۔
3۔انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس
انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس صحافیوں کی اولین اور نمایاں ٹریڈ یونین ہے جس کا عین مقصد اخبارات میں مستقل طور پر کام کرنے والے اخبار نویسوں کے جملہ حقوق کاتحفظ کرنا ہے۔ ہندوستان صحافت کے معیار کو بلند کرنا اور صحافیوں کی حیثیت اور اہمیت کو تسلیم کروانا فیڈریشن کا اہم نصب العین ہے۔ فیڈریشن کی جانب سے اخبار نویسیوں کو قانونی مشورے دیئے جاتے ہیں اور اس سلسلہ میں قانونی مشاورتی بیورو بھی قائم کیا گیا ہے۔ یہ انجمن 1950ء وجود میں آئی اور 1951 ء میں اس کا دستور اتفاق رائے کے ساتھ منظور کیا گیا ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں کارکرد اخبار نویسوں کی انجمنیں اس فیڈریشن سے ملحق ہیں۔یہ ایک ایسی وفاقی انجمن ہے جس کے اراکین کی تعداد پندرہ ہزار سے زیادہ ہے ۔ فیڈریشن کی نمائندگی اور مسلسل کوششوں کی وجہ سے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں اخبار نویسوں کے مفادات سے متعلق کئی قوانین منظور ہوئے صحافیوں کی ملازمتوں کو بہتر بنانے، نتخواہوں میں اضافے، تعطیلات طبی سہولتیوں اور معاملات کو بہتربنانے میں فیڈریشن نے نمایاں رول انجام دیا ہے۔ فیڈریشن کی جانب سے ایک ماہنامہ ورکنگ جرنلسٹس شائع ہوتا ہے۔ جس میں ملک بھر کی صحافتی انجمنوں کی سرگرمیاں اور اخبار نویسوں کی دلچسپی پر مشتمل خبریں رپورٹس اور مضامین شائع کئے جاتے ہیں۔ انڈیشن فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹس کا سالانہ اجلاس ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوتا ہے۔ آندھراپردیش ورکنگ جرنلسٹس اسوسی ایشن کا اسی انجمن سے الحاق ہے۔
4۔انڈین لینگویجیس نیوز پیپرس اسوسی ایشن
ہندوستانی زبانوں کے اخبارات نے سماجی بیداریا ور رائے عامہ کو ہموار کرنے میں تاریخ ساز رول ادا کیا ہے۔ ہندوستانی زبانوں کے اخبارات، انگریزی اخبارات سے آگے رہے ہیں۔
ملیالم منورما، امرت بازار پتریکا، ایناڈو، سیاست ، منصف، انقلاب اور آزاد ہند ایسے مشہور اخبارات ہیں جنہوںنے مسائل کی ترجمانی کی اور قومی شعور کی تعمیر و تشکیل میں حصہ لیا۔ 14!جون 1941ء کو انڈین لنگویجیس نیوز پیپرس اسوسی ایشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اسو سی ایشن نے چھوٹے اور متوسط زمرہ کے اخبارات سے نہ صرف تعاون کرتی ہے بلکہ ان کے مسائل کو حل کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتی ہے۔
اسوسی ایشن کے ترجمان کی حیثیت سے 1952 ء میں ایک ماہانہ جریدہ ’’نیوز بلیٹن‘‘ کاآغاز ہوا جس میں اخبارنویس سے متعلق ضروری معلومات، سرکار کے مختلف اعلاناات اور چھوٹے اخبارات کی رہنمائی کے سلسلہ میں مواد شائع کیاجاتا ہے۔ یہ جریدہ صرف اسوسی ایشن کے اراکین کے لیے تھا۔ رتی لال سیٹھ اس جریدہ کے پہلے مدیر تھے۔ اسوسی ایشن نے 1946 ء میں ایک کواپریٹیو سوساٹی قائم کی تھی جس کا مقصد امداد باہمی کے اصولوں پر لسانی اخبارات کی مدد کرنا تھا اسو سی ایشن نے ہندوستانی اخبارات کے مقام اور اعتبار کو بلند کرنے میں نمایاں حصہ لیااور آج بھی اس کی خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔
5۔انڈین فیڈریشن آف اسمال اینڈ میڈیم نیوز پیپرس
ہندوستان کے چھوٹے اور درمیانی اخبارات کے مسائل کی نوعیت بڑے اخبارات کے مسائل سے بڑی حد تک جدا گانہ ہے۔ ان اخبارات کی تعداد اشاعت محدود ہے اور ا ن کے وسائل بھی بڑے اخبارات کے مقابلہ میں کم ہیں۔ فیڈریشن کا دفتر دہلی میں ہے۔
6۔آل انڈیا اردو اسمال نیوز پیپرس ایڈیٹرس کونسل
اردو زبان کے چھوٹے اخبارات کے لیے ملک کی کئی ریاستوں میں انجمنیں قائم ہیں جن کامقصد ان اخبارات کے مفاد کا تحفظ کرنا ہے۔ ہندوستان بھر کے اردو اخبارات کے لیے ایک پلیٹ فارم کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی چنانچہ دہلی میں آل انڈیا اردو اسمال نیوز پیپرس ایڈیٹرس کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اس صحافتی انجمن کے بانی اور روح رواں رضی ابدایونی تھے۔
7۔AFP
وولف Wolf اور ہاؤس دنیا کی قدیم ترین نیوز ایجنسیاں ہیں۔ وولف تو ختم ہوچکی ہے مگر ہاوس کا نام تبدیل کرکے ایجنسی فرانس پریس AFP رکھا گیا جو کافی مشہور ہے۔ یہ ایجنسی 1835ء میں قائم ہوئی تھی۔
8۔رائٹر (Reuter)
رائٹر (Reuter) جرمنی کی خبر رساں ایجنسی ہے جس کا 1850 ء میں قیام عمل میں آیا۔
9۔بھارت نیوز:
حیدرآباد کی مشہور اردونیوز ایجنسی ہے یہ حیدرآباد کے اہم خبریں ،واقعات، حادثات کو اخبارات کو ارسال کرتا ہے۔ نیلے رنگ کے باریک کاغذ پر کاربن رکھ کر لکھا ہوا مواد اگرچیکہ کے نہایت واضح نہیں ہوتا لیکن اخباری زبان میںہونے کی وجہ سے اخبارات میں کام کرنے والے افراد اسے پڑھ لیتے ہیں ۔ شہر کی خبریں عوام کی بہت پسند کی ہوتی ہیں کیوںکہ ان سے راست ان کا تعلق ہوتا ہے، انٹرنیشنل خبروں سے ان کا راست تعلق نہیں ہوتا۔
10۔اسوسی ایٹیڈ نیوز سروس:
حیدرآباد کی خبروں کے لیے اسوسی ایٹیڈ نیوز سرویس اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہے۔ یہ بھی حیدرآباد کی ایک اردو نیوز سروس ہے۔ اس سے بھی بڑے چھوٹے اخبارات حاصل کرتے ہیں ۔
11۔دکن نیوز :
یہ اردو نیوز سرویس بھارت نیوز کی طرح مقامی خبریں بھیجتی ہیں۔ اس نیوز ایجنسی سے حیدرآباد میں وقوع پذیر ہونے والے اہم واقعات کا یہ نیوز ایجنسی کوریج کرتی ہے۔
12۔اسٹیٹ سماچار:
اسٹیٹ سماچار حیدرآباد کی قدیم اردو نیوز سرویس ہے ۔ اہم شخصیات کے دورے ، اہم واقعات، کھیل کود، حادثات ، اور دیگر خبریں باریک کاغذ پر کاربن رکھ ہاتھ سے لکھے ہوئے خبریں اخباری زبان میں اخبار کے لیے روانہ کی جاتی ہے جسے صرف اخباری عملہ ہی آسانی سے پڑھ سکتا ہے۔
13۔ اے ٹو زیڈ نیوز سرویس :
حال ہی میں ایک نیوز سرویس شروع ہوئی ہے جس کا نام اے ٹو زیڈ نیوز سرویس ہے۔ یہ سرویس بھی حیدرآباد کے نیوز روانہ کرتی ہے۔
14۔یونائٹیڈ نیوز سرویس (U.N.I)
یونائٹیڈ نیوز سرویس مشہور نیو ایجنسی ہے ۔ ہندوستان میںاس ایجنسی نے بیرونی ایجنسیوں سے اشتراک کرلیا ہے۔ اس بناء پر ہمیں مختلف اخبارات کے مقامی اور بین الاقوامی خبروں میں ڈیٹ لائن میں (یو این آئی) لکھا نظر آتا ہے۔ یو این آئی کے ذریعہ سیاسی، تجارتی، کھیل کود، معاشیات، سیاسیات، مقامی، سائنسی، ٹکنالوجی، قانونی، تہذیبی، وغیرہ خبریں اور فیچرس ارسال کئے جاتے ہیں۔
یو این آئی کی ابتداء مارچ 1961 ء میں ہوئی۔ اس کی اردو سرویس کی شروعات 1992 ء میں ہوئی۔ تب سے مختلف اخبارات اس کی اردو سرویس سے مستفید ہورہے ہیں۔ اردو میں بنی بنائیں خبریں مختصر فیس میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اخبارات ان خبروں کو حاصل کرکے کم وقت میں ایڈیٹنگ کرکے استعمال کرسکتے ہیں جب کہ انگریزی خبروں کا ترجمہ میں اس سے زیادہ وقت درکار ہے۔
14۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا (PTI)
پریس ٹرسٹ آف انڈیا ہندی اور انگریزی میں خبریں ارسال کرتا ہے۔ اس کی ابتدائی شکل برٹش اسوسی اٹیڈ پریس ہے ۔اس کی ‘ کے سی رائے نے 1910 ء میں بنادرکھی۔ 1945 ء میں اسوسی ائٹیڈ پریس رجسٹرڈ ہوا۔ 1949ء کو یکم فروری سے پی ٹی آئی کی نیوز سرویس شروع ہوئی۔ آزادی کے بعد 1947 ء کو مدارس میں اس کا صدر دفتر قائم ہوا۔پی ٹی آئی کی 1953 ء میں Reutersسے آزاد ہوکر انفرادی سرویس شروع ہوئی۔ فروری1986ء میں پی ٹی آئی ۔ٹی وی شروع کیا گیا۔ 1999 ء پی ٹی کی تاریخ کااہم سال کے کیوں کہ اس سال اس نے اپنے 50سالہ تقاریب منائی اور اسی سال اس کا انٹرنیٹ ایڈیشن شائع ہوا۔ 2003ء سے فوٹو ڈیلوری سرویس شروع ہوئی۔ مختصر سی فیس دے کر کوئی بھی اخبار اس کا رکن بن سکتا ہے۔
15۔پرسار بھارتی
پرسار بھارتی حکومت ہند کا ادارہ ہے۔ آل انڈیا ریڈو اور دور درشن کے اس کے نیوز سرویس اور خود مختار ادارے ہیں۔ اس کے تحت مختلف نیوز ایجنسیاں کام کرتے ہیں۔ پریس کونسل آف انڈیاPCI،1966 ء میں وجود میں آئی ۔ اس کے ممبر بنے کے لیے فیس ہے اس فیس کی ادائی کے بعد کوئی بھی اخبار اس کا ممبر بن سکتا ہے۔ ویسے جتنے بھی نیوز سرویس ہے وہ کاپی رائٹس رہتے ہیں اور مختلف فیس دے کر ان کی ممبر شپ حاصل کی جاسکتی ہے اس کے بعد میں ان سے اجازت ملتی ہے اور نیوز شائع کرسکتے ہیں۔ ان سے چراکر شائع کرناجرم ہے۔ تمام نیوز ایجنسیوں کا طریقہ کار الگ الگ ہوتا ہے۔یہاں مثال کے طور پر ایک پریس کونسل آف انڈیا کا فیس چارٹ دیاجاتا ہے۔
پی سی آئی نے A,B,C,D,Eوغیرہ معیار بنائے ہیں یہاں پر دو کی تفصیل یہ ہے کہ رجسٹرڈ نیوز پیپرس جن کی تعداد اشاعت 1,50,000 سے زائد ہے۔
سالانہ فیس
Rs.7,500/-
ہر روزنامہ کے لیے
سالانہ فیس
4,500/-
ہفت روزہ ! سہ روزہ
سالانہ فیس
3,500/-
پندرہ روزہ! ماہنامہ
سالانہ فیس
2,500/-
دیگر جرائد کے لیے
رجسٹرڈ نیوز پیپرس جن کی تعداد اشاعت 50,000 سے ایک لاکھ تعداد اشاعت کے لیے فیس ۔
سالانہ فیس
Rs.3,750/-
ہر روزنامہ کے لیے
سالانہ فیس
2,250/-
ہفت روزہ ! سہ روزہ
سالانہ فیس
1,500/-
پندرہ روزہ! ماہنامہ
سالانہ فیس
1,125/-
دیگر جرائد کے لیے
16۔پریس انفارمیشن بیورو PIB
پریس انفارمیشن بیورو مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات کا ایک موثر ترسیلی مرکز ہے جو حکومت ہند کی مرکزی خبر رساں ایجنسی کی حیثیت رکھتا ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو کا مقصد اخبارات ، جرائد کے ذریعہ حکومت کی پالیسیوں ، پروگراموں اور سرگرمیوں سے عوام کو واقف کروانا ہے۔ پریس انفارمیشن بیورو اپنے ٹیلی پرنٹرنٹ ورک، فیاک اور ایئر بیاگ کے ذریعہ ہندوستان بھر کے اخبارات کو خبریں فراہم کرتا ہے۔ ملک کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو پی آئی بی کی طرح اتنی بڑی تعداد میںموجودہ اخبارات کو خبریں فیچر فراہم کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک کے تقریباً30 ہزار اخبارات کو ہر روز پی آئی بی کے خبر نامے وصول ہوتے ہیں اخبارات کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو بھی پی آئی بی کی سہولت میسر ہے۔
17۔اخباری فیچرس کی فراہمی کے ادارے
عالمی سطح پر اخبارات کے لیے چیرس فراہم کرنے والے کئی ادارے ہیں جوتازہ سیاسی واقعات، اقتصادی صورت حال ، سماجی موضوعات ، سائنسی ترقی اور دیگر نئے موضوعات پر فیچرس تیار کرکے اخبارات کو روانہ کرتے ہیں۔ اس نوعیت کے عالمی اداروں نے ہندوستانی اخبارات کی سہولت کیلئے اپنی شاخین یہاں قائم کی ہیں۔ ان میں انفا کافی مشہور ہے۔
18۔ انفا
انڈیا نیوز فیچر الائینس نام کا یہ ادارہ ہندوستان میں خبریں اور فیچر مضامین کی فراہمی کا ایک مستند اور مقبول ادارہ ماناجاتا ہے۔ یہ ادارہ 1959 ء میں قائم ہوا ہے۔ مشہور انگریزی روزنامہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر درگا داس کی کوششوں سے اسے قائم کیا گیا وہ امریکی سنڈیکیٹ اداروں کے طرز پر ایک بہترین نیوز فیچر سرویس ہندوستان میں قائم کرناچاہتے تھے جو کم اخراجات پر اخباری مواد اور فیچر، مضامین ہندوستانی اخبارات کو فراہم کرے اس ادارے نے کئی ماہرین، مبصرین، صحافیوں، کام نویس، کارٹونسٹ، پریس فوٹو گرافرس اور خصوصی نامہ نگاروں کی خدمات حاصل کی۔ ابتداء میں اس ادارے کو اخبارات نے اہمیت نہیں دی لیکن بعد میں اس کی افادیت اور اہمیت کا احساس ہوا اور اس ادارے کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ انفا کی جانب ہر سال انفا پریس اینڈ اڈورٹائزنگ ایئر بک (Infa Press and Advertising Year Book) کے نام سے ایک حوالہ جاتی کتاب شائع ہوتی ہے۔
19۔کنگ فیچرس سنڈیکیٹ
عالمی شہرت یافتہ نیوز فیچرس ارسال کرنے والا ادارہ ہے ۔ مکی ماوز، ڈونالڈ ڈک اور کئی مقبول ترین، کامیک پٹیاں عالمی شہرت یافتہ کارٹونسٹ تیار کرچکے ہیں۔ یہ اسی ادارہ کی دین ہے۔
20۔پریس ایشیاء انٹرنیشنل
ہندوستان میں خبریں اور فیچرس کی فراہمی کے سلسلے میں پریس ایشیاء انٹرنیشنل ایک مقبول ترین سنڈیکیٹ ادارہ ہے جس نے صحافت کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ پریس ایشیاء انٹرنیشنل 1970ء میں قائم کیا گیا ۔
21۔کارٹوگرافک نیوز سرویس
کارٹو گرافی سے مراد نقشہ نویسی، نقشہ بنانے والے کو کارٹو گرافر نقشہ نگار یا رسام کہاجاتا ہے۔ یہ ادارہ 1958 ء میں دہلی میں قائم کیا گیا تھا۔
22۔فوٹوڈویژن اورریاستی محکمہ اطلاعات کی فوٹو سرویس :
فوٹو ڈویژن ، مرکزی محکمہ اطلاعات کے تحت ہے جو اخبارات کو اہم سیاسی واقعات ، پریس کانفرنسوں اوردیگر قومی وبین الاقوامی نوعیت کی تقاریب ، کافرنسوں اور جلسوں کی تصاویر فراہم کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں پریس انفارمیشن بیورو کی خدمات حاصل کی جاتی ہے۔
23۔ صرف مطالعہ کے نیوز سرویس
مندرجہ بالا تصویر انٹر نیٹ ایکسپلورر کی ہے جس میں مختلف ایڈریس کے ذریعہ نیوز پڑھ سکتے ہیں۔
انٹر نیٹ پر ایسے نیوز سرویسیس بھی موجود ہیں جو نیوز کو ایجنسیوں کی طرح پیسوں سے نہیں دیتے بلکہ مفت مطالعہ کے دیتے ہیں ۔ یہاں سے نوز کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ ان کی تفصیل اس طرح ہے۔
24۔ سرچ انجن
انٹرنیٹ چند بہت بڑے اور مشہور سرچ انجن کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔ سرچ انجن دراصل ہزاروں ،لاکھوں ویب سائٹوں میں سے مطلوبہ ویب سائٹ یا مواد حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ نیوز کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔
جیسے
Yahoonews
GoogleNews
Siffy
MSN
Ridiff وغیرہ
25۔ ٹی وی چیانلس
چند بڑے ٹی وی چیانلس بھی تازہ خبروں کی اشاعت کرتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی پر اپ ڈیٹ مواد ہوتا رہتا ہے۔ یہاں سے بھی تازہ خبروں کا مطالعہ کیاجاسکتا ہے۔
اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
bbcnews
cnn
ddnews
aajtak
ndtv
starnews وغیرہ وغیرہ
 

الف عین

لائبریرین
خلاصہ

دنیا تیزی سے ذرائع ابلاغ کے انقلاب (انفارمیشن رویلوشن )سے گزررہی ہے۔ معلومات کا سیلاب رواں دواں ہے۔ساری دنیا میں لامحدود ذرائع سے معلومات کا طوفان دوڑ رہا ہے پرنٹ میڈیا میں اخبارات، رسائل، جریدے وغیرہ وغیرہ کے ذریعے تو الیکٹرانک میڈیا میں انٹرنیٹ (جس میں لامحدود معلومات ہیں اور ایک ایک موضوع پر ہزاروں ،لاکھوں ویب سائٹس موجود ہے)سل فون( SMS,MMS,Vice) ،ٹیلی ویژن (جس میں روزآنہ کئی ایک نیوز چیانلس کا اضافہ ہورہا ہے اور عوام روایتی سیریلس کے بجائے اب حقیقت پر مبنی نیوز چیانلس پر اپنی توجہ مبذول کررہے ہیں) اہم ذرائع ہیں۔
ہندوستان میں 2001ء میں 5638روزنامے اور 101 زبانوں کے رسائل اوراخبارات شائع ہورہے ہیں۔ 5,600 سے زائد مختلف اخبارات شائع ہورہے ہیں۔ ایسے میں نیوز کے حصول کا مسئلہ پیداہوسکتا تھا۔ لیکن ترقی کے ساتھ ساتھ نیوز کوریج نے بھی ترقی کی اور اب ہزاروں ذائع سے نیوز حاصل کی جاسکتی ہے اور اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
نیوز حاصل کرنے کے مختلف ذرائع ہے ان میں اخبارا ور ٹی وی وغیرہ کے خود کے اسٹاف رپورٹر اور نامہ نگار اہم رول ادا کرتے ہیں۔
رپورٹر اور نامہ مختلف مقامات سے تازہ خبریں اپنے اخبارات کو دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ نیوز ایجنسیاں بھی مختصر سی رقم کے بدلے ممبر شپ دیتی ہیں ان کی ممبر شپ حاصل کرنے کے بعد وہ تازہ خبریں ،تفصیلی واقعات، فیچرز ، کلر بڑے تصاویر اور دیگر اہم خبریں مضامین آفس پر پہنچاتے ہیں۔
خبر کی تصدیق کے لیے ہزاروں ویب سائٹس انٹر نیٹ پر موجود ہیں۔ خبر کو تلاش کرنا بھی آسان ہے اور انٹرنیٹ پر مطلوب خبر کو سرچ انجن میں ٹائپ کیجئے اور ایک لمحہ سے قبل ہزاروں ویب سائٹس آپ کے سامنے رونما ہوسکتے ہیں جن میں آپ کی مطلوبہ خبر کی تفصیل ہوتی ہے۔
آج کے دور میں پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کی گھماگھمی ہے اور وقت کی قلت کے چلتے اب الکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا کو اوورٹیک کررہا ہے لیکن عمل سست رفتاری سے ہورہا ہے اس لیے ابھی پرنٹ میڈیا کی بھی بہت مانگ ہے اور اردو روزنامہ 59 ہزار سے بھی زیادہ تعداد میں شائع اور فروخت ہورہے ہیں، اور نئے روزنامہ میں بھی کروڑوں روپیوں کے صرفہ سے’’ اعتماد‘‘ کے ساتھ شروع ہورہے ہیں کہ وہ چلیںگے۔ وہیں بعض اخبارات ’’ عوام‘‘ میںمقبول نہ ہونے کی بناء پر بند ہورہے ہیں۔ لیکن جہاں تک ٹی وی چیانلس کا تعلق ہے اردو نیوز چیانلس کے شروع ہونے کا اعلان ہوچکا ہے شائع وہ شروع ہوگا اور اس کے ساتھ ہی نیوز چیانلوں کی دنیا میں ایک اور اردو نیوز چیانل کا اضافہ ہوگا۔ ہندوستان میں ای ٹی اردو کا ایک چیانل موجود ہے۔
اردو ذریعہ تعلیم کے نامہ نگاروں کے پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا میں روزگار کے مواقع ابھی ختم نہیں ہوئے اپنی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔
محنت اور مشق سے کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ جہاں پر کئی صحافی خطرناک اور اہم خبروں کے حصول کے لیے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں بعض صحافیوں کا دہشت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔ امریکی صحافی جاسوسی کے لیے مختلف دہشت پسندوں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور ان کے سر قلم کردیاجاتا ہے ۔ تو کہیں ڈاکوؤں کے کی جاسوس کرنے والے رپورٹرس کو گولی ماردی جاتی ہے۔ کہیں حادثہ کے مقام پر کارروائی کے دوران رپورٹرس ہلاک ہوجاتے ہیں۔ متعددی بیماری سے متاثرہ علاقہ میں جا کر رپورٹنگ کے دوران رپورٹر متعدد بیماری سے متاثر ہوسکتا ہے۔ بعض علاقوں میں سردی نہایت زیادہ ہوتی ہے وہاں پر جاکر سرد مقام پر مشقت برداشت کرنا پڑتا ہے توکہیں پر بہت تیز گرمی ہوتی ہے وہاں پر جاکر گرمی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ کسی خبر کے تعلق سے کوئی تنازعہ کھڑا ہوجائے تو جان پر بن آتی ہے، مختصر یہ کہ صحافت کا کام آسان نہیں ہے اس ہوش اور محنت دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
حوالہ جات


1۔ پی جی ڈپلیو ان ماس کمیونی کیشن اینڈ ٹرانسلیشن ٹکنکیس ان اُردو کی کتابیں
2۔ انٹرنیٹ
3۔ اخبارات
4۔ دیگر رسائل کااستعمال کیا گیا ہے۔
 
Top