اخبار والے فیس بک سے کہانیاں اٹھاتے ہیں اور اخبار میں پھیلاتے ہیں

جب ٹیلی ویژن سے اخبار کا مقابلہ ہوا، تو دہشت کھائے اخباروں نے فوری طور پر چولا بدلا۔ وہ زیادہ سے زیادہ ' منظر نگار ' ہو گئے۔ ڈھیر ساری تصاویر۔ کم سے کم الفاظ۔ زیادہ سے زیادہ رنگ۔ زبان بھی زیادہ سنسنی خیز اور واضح۔ تشدد اور سیکس کی ریل پیل۔ یہ سب کر کے انہوں نے اپنا وجود تو بچا لیا، لیکن ایمان گنوا دیا۔ وہ دوسرا راستہ بھی چن سکتے تھے۔ وہ اپنے قارئین کو ویسا بہت کچھ دے سکتے تھے ، جو ٹیلی ویژن جیسا برق رفتار ذریعہ کبھی دے نہیں سکتا۔ وہ فکر ونظر بالیدگی پیدا کرنے والےمعلومات اور تجزیہ پر مبنی مواد دے کر بھی اپنی جگہ بچا سکتے تھے۔ اگرچہ یہ مشکل راستہ تھا۔مگر ایک آدھ اخبارات نے ہی ایسا کچھ کرنے کی کوشش کی۔

آج اخبار کا مقابلہ فیس بک سے ہے۔ پھر اخبارات میں ایسی ہی دہشت ہے۔ وہ اخبار کو فیس بک کا متبادل بنانے میں لگے ہیں۔ کئی صحافی اخبار کے مقابلے میں فیس بک پر زیادہ وقت گزار رہے ہیں۔وہ فیس بک سے کہانیاں اٹھا رہے ہیں اور اخبار میں پھیلا رہے ہیں۔ وہ فیس بک جیسی زبان کو فروغ دے رہے ہیں۔وہ ذاتی حملوں اور بلا وجہ کے بحث و مباحثہ کو اپنا کاروبار بنا رہے ہیں۔

لیکن اخبار نہ ٹیلی ویژن ہو سکتا ہے، نہ فیس بک ، ہر ذریعے کی اپنی ایک طاقت اوراپنی الگ ایک شناخت۔ اخبار اپنے ہی اسٹینڈمیں زندہ رہ سکتا ہے۔دوسرے ذرائع کے ساتھ دہشت زدہ دوڑ میں پڑ کر وہ خود اپنی تباہی وبربادی پر تلا ہوا ہے ۔

(ہندی بلاگراشوتوش کمار کے فیس بک وال سے مخلص)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو طے ہے کہ ٹیلی ویژن والے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں تحقیق کیے بغیر خبر نشر کر دیتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
ٹی وی نے اخبار پر وہ براہ راست بنیادی اثر اتنا نہیں ڈالا جتنا انٹرنیٹ نے کیا ہے۔ انٹرنیٹ نے اخبار بیچارے کی تو ہیت ہی بدل دی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبار اب ویب سائٹس بن کر رہ گئے ہیں۔
 
Top