ابرار الحق کی پاکستانی ماؤں پر تنقید۔۔۔۔۔

سیما علی

لائبریرین
ابرار الحق کی پاکستانی ماؤں پر تنقید اور خواتین کا ردِعمل: ’ابرار کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں؟‘
30 اگست 2021
_120331049_mediaitem120331048.jpg


،تصویر کا ذریعہSOCIAL MEDIA

’بچہ پانچ سال کا ہو گیا اور تم نے ابھی تک اس کا فیڈر نہیں چھڑوایا‘

’ہمارے بچے تو تین سال کی عمر میں خود باتھ روم چلے جاتے تھے، تم نے اسے ابھی تک پیمپر پہنا رکھا ہے؟‘

’دھوپ میں زیادہ کھیلنے دیتی ہو گی اسی لیے اتنا کالا ہو گیا ہے۔‘

’تم تو اسے کھانا ہی نہیں کھلاتی، دیکھو کتنی کمزور ہو گئی ہے۔‘

اشتہار
پاکستان میں ماؤں کو اپنے ہی بچوں کی پرورش کے حوالے سے ایسے مفت مشورے آئے روز سننے کو ملتے ہیں لیکن جب ایسا ہی مشورہ ایک مرد کی جانب سے دیا جائے تو ان ماؤں کا ردِعمل کیا ہو گا؟

حال ہی میں کچھ ایسا ہی ہوا جب تحریکِ انصاف کے رہنما اور معروف گلوکار ابرار الحق نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی کے حوالے سے منعقد ہونے والی ایک تقریب میں موضوع سے ہٹ کر خواتین اور بالخصوص ماؤں پر تنقید کی۔

’ہم جب اپنی ماں کی گود میں ہوتے تھے تو ہمیں کلمہ ملتا تھا سننے کو۔۔۔ آج کے بچے کو فون دے دیتی ہے ماں ہاتھ میں، اس پر لگا ہوتا ہے بے بی شارک۔۔۔‘

ان کی تقریر کا یہ کلپ کئی دنوں سے سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور اس پر گرما گرم بحث بھی جاری ہے۔ ایک طرف وہ حلقہ ہے جو ابرار کی باتوں سے متفق نظر آتا ہے جس میں زیادہ تر تعداد مرد حضرات کی ہی ہے۔

تاہم خواتین کی جانب سے ابرارالحق کی اس بات پر زیادہ تر تنقید ہی دیکھنے میں آئی ہے۔

_120330834_mediaitem120330833.jpg

،تصویر کا ذریعہFACEBOOK\WASIQA JAVAID

بی بی سی نے چند ماؤں سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے انھیں اپنے بچوں کی پرورش کے حوالے سے کس قسم کے مشورے یا کیسی کیسی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور وہ ان پر عمل کرتی ہیں یا نہیں۔

’کھانے کے دوران آئی پیڈ دینے پر سب سے زیادہ طعنے ملتے ہیں‘
صبا نومانی دو بچوں کی والدہ ہیں۔ وہ بچوں کی پرورش کے حوالے سے ان چاہے مشوروں کو مشورے نہیں طعنے کہتی ہیں۔

’90 فیصد مواقع پر لوگ ماں کی مدد کے لیے مشورہ نہیں دے رہے ہوتے بلکہ اسے طعنہ مار رہے ہوتے ہیں۔‘

صبا بتاتی ہیں ’سب سے زیادہ طعنے تو کھانا کھلاتے ہوئے آئی پیڈ دینے پر ملتے ہیں کہ تم اسے آئی پیڈ کے ساتھ کیوں کھانا کھلا رہی ہو۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لوگ یہ نہیں جاتنے کہ بچے آئی پیڈ پر ایجوکیشنل ویڈیوز یا کارٹون دیکھ رہے ہیں اور میں ان کے وقت کا حساب رکھتی ہوں اور اس حوالے سے بہت محتاط ہوں کہ وہ وقت ضائع نہ کریں اور الٹی چیزیں نہ دیکھیں۔‘

_120330830_mediaitem120330829.jpg

،تصویر کا ذریعہSABA NOMANI ABBAS

،تصویر کا کیپشن
صبا نومانی عباس اپنے دو بچوں کے ہمراہ

ایسے ہی ایک اور مشورے کے متعلق انھوں نے بتایا کہ اگرچہ اس حوالے سے ڈاکٹروں کی رائے متضاد ہے لیکن اکثر کا ماننا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو چار ماہ سے کم عمر میں ٹھوس غذا نہیں دینی چاہیے لیکن تیسرے مہینے ہی میرے اردگرد کے لوگوں نے پریشر ڈالنا شروع کر دیا کہ اسے ٹھوس غذا کیوں نہیں دیتیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ یہ جانے بغیر کے ان کے شوہر کے خاندان کو انڈے سے شدید الرجی ہے ہر کوئی انھیں یہی کہتا کہ ’اسے انڈہ کھلاؤ‘۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب معاملہ زیادہ بڑھا تو میں نے ڈاکٹر سے بات کی اور الرجی کے بارے میں بتایا تو ڈاکٹر نے بھی مجھے بچے کو انڈہ دینے سے منع کر دیا۔

’مگر اس کے باوجود مجھے یہی سننے کو ملتا ’ہم تو بچے کو انڈہ ضرور کھلاتے تھے۔۔۔ یہ آج کل کی لڑکیاں تو پرورش کے حساب سے بات ہی نہیں سنتیں۔‘

_120331137_mediaitem120331136.jpg

،تصویر کا ذریعہ@MARCH_AURAT

’بچے کو بوتل پر لگاؤ‘
صبا بتاتی ہیں کہ مائیں اگر اپنے بچوں کو اپنا دودھ نہ پلائیں تو اس پر بھی باتیں سننے کو ملتی ہیں اور اگر پلا رہی ہوں تو اس پر بھی لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ ’تمھاری تو وٹامن کیلشیم سب ختم ہو جائے گی، بچے کو بوتل پر لگاؤ۔‘

’اور لوگ تو چھوڑیں، میری اپنی والدہ نے ایک دن مجھے کہا کہ تم اسے فیڈ کیوں کراتی ہو، اسی لیے بچی کو تمھاری اتنی عادت ہو گئی ہے کہ تمھارے بغیر رہتی نہیں۔‘

ابرار الحق کی جانب سے ماؤں پر کی جانے والی تنقید کے حوالے سے صبا کہتی ہیں کہ ’ہمارے معاشرے میں رہتے ہوئے اب یہ عادت بن گئی ہے کہ عورتوں کا مذاق اڑائیں گے اور باقی سب اس پر ہنسیں گے کہ دیکھو کتنی مزاحیہ بات کی۔۔۔ لیکن جب میں نے ابرار کی تنقیدی ویڈیو پر مردوں کے تبصرے دیکھے تو مجھے بہت ہی برا لگا جیسے باقی مردوں کو بھی شہہ مل گئی ہو۔‘

’ابرار نے ایک ماں کے اوپر غیر ضروری پریشر ڈالنے اور تہمت لگانے والی بات کی ہے۔ ہم پہلے ہی کبھی کوئی طعنہ سنتے ہیں کبھی کوئی۔۔۔ اب تو لوگ کہیں گے ابرار بھی تم ماؤں ے بارے میں کہتا ہے کہ آج کل کی ماؤں کے پاس تو وقت ہی نہیں ہوتا اور وہ جان چھڑانے کے لیے بچوں کو آئی پیڈ پکڑا دیتی ہیں۔‘

صبا کا کہنا ہے کہ ابرار کی تنقید سے لوگوں کو ’بچوں کی پرورش کے حوالے سے ماؤں پر تنقید کرنے کا ایک اور حربہ مل جائے گا۔۔۔ ایک سلیبرٹی کے طور پر ابرار کو ماؤں کی اس طرح سے حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘

_120330838_mediaitem120330837.jpg

،تصویر کا ذریعہANNAM LODHI

،تصویر کا کیپشن
انعم لودھی اپنے بیٹے کے ہمراہ

رفع حاجت میں دشواری ہوئی تو مجھے سنایا گیا ’ضرور تم نے کچھ کیا ہے‘
صحافی انعم لودھی کے بیٹے کی عمر صرف چھ ماہ ہے تاہم اس مختصر وقت میں بھی انھیں اپنے بچے کی پرورش کے حوالے سے بہت سے مشورے ملے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’ظاہر ہے ہر بچہ مختلف ہوتا ہے اور جو چیزیں ہمارے ماں باپ کے زمانے میں چل جاتی تھیں وہ آج کل ممکن نہیں۔‘

ان کے مطابق انھیں اکثر سننے کو ملتا ہے کہ ’ہم نے بچے پالے ہوئے ہیں، ہمیں پتا ہے لہذا ایسے پرورش کرو۔‘

انعم نے اپنے بیٹے جو جب اپنا دودھ پلانا شروع کیا تو اس پر انھیں کہا گیا ’تمھارے لیے مسئلہ ہو گا، ساری زندگی بچے کو دودھ پلاتی رہو گی۔‘ ان کے مطابق اسی طرح ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔

’لیکن اگر میں اسے بوتل سے دودھ بھی دیتی ہوں تو مجھے یقین ہے اس پر بھی کئی تجاویز سننے جو ملیں گی، مثلاً کیوں دے رہی ہو بوتل ماں کا دودھ کیوں نہیں پلا رہی۔‘

_120329378_17327d51-c41d-43c6-a588-ffe386435c53.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER/KABACHITWEETS

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے بیٹے کو دس، پندرہ دن تک رفع حاجت میں دشواری ہوئی جس پر انھیں کہا گیا: ’ضرور تم نے کچھ کیا ہے۔‘

’اس طرح کی باتوں سے ماں کو گلٹی فیل کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انعم کہتی ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بچے کی پرورش کو لے کر ماؤں کا مذاق اڑانا ایک عام سی بات بن گئی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یقیناً تجربے کی اپنی جگہ ہے لیکن ہر ماں باپ اور ماں اور بچے کی اپنی صحت اور گھر کے سو مسائل ہوتے ہیں اور ماؤں کو دس پندرہ منٹ کے لیے ان کی توجہ ہٹانے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کے لیے وہ مختلف طریقے اختیار کرتی ہیں۔

’لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کام کرنے والے والدین خاص کر ماؤں کے لیے بچے پالنا آسان نہیں اور مشورے تب تک ٹھیک ہیں جب تک آپ ان ماؤں کے حالات کا مذاق نہ اڑائیں۔‘

نادیہ حسین: ’ابرار کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں؟‘
بطور ماں ماڈل نادیہ حسین کو ابرار الحق کا تبصرہ انتہائی ناگوار گزرا۔ انھوں نے اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نادیہ حسین کا کہنا تھا کہ ’ابرار الحق خود ہی یہ کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں اور اپنے مفروضوں کی بنیاد پر ان کی تربیت پر سوال کیسے اٹھا سکتے ہیں۔‘

_120331133_mediaitem120331132.jpg

،تصویر کا ذریعہINSTAGRAM: NADIAHUSSAIN_KHAN

،تصویر کا کیپشن
نادیہ حسین اپنے خاندان کے ہمراہ

نادیہ کا ماننا ہے کہ آج کل کی ماؤں کا پچھلی نسل کی ماؤں سے موازنہ ممکن ہی نہیں کیونکہ ہماری مائیں اس طرح ورکنگ وویمن نہیں تھیں جیسے ہم ہیں۔

’آج کل سب کچھ آن لائن ہے۔ بچوں کی کلاسز تمام تعلیم تک آن لائن ہوتی ہے۔‘ وہ پوچھتی ہیں کہ اگر بچوں سے یہ ٹیکنالوجی کے آلات لے لیں تو وہ کیسے سیکھیں گے۔

نادیہ حسین کہتی ہیں کہ اگر ابرار آج کل کی ماؤں پر تنقید کے بجائے یہ کہتے کہ ’چونکہ آج کل سب کچھ ٹیکنالوجی پر منحصر ہے لہذا ماں باپ کو زیادہ محتاط اور زیادہ باخبر رہنا چاہیے کہ ان کے بچے کیا دیکھ رہے ہیں اور انھیں بچوں کے ساتھ زیادہ انگیج ہونا پڑے گا۔۔۔ اگر وہ ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایسا پیغام دیتے تو زیادہ بہتر تھا۔‘

نادیہ نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ اگر پچھلی نسل کی ماؤں کی تربیت اتنی اچھی تھی تو آج کل ہمارے ملک کے حالات اتنے خراب کیوں ہیں، ابرار پر تنقید کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کی تربیت اگر کلمے سے کی گئی تھی تو آپ کیسے بلو کے گھر پہنچ گئے؟ آپ کے گانوں نے ہماری نئی نسل کو کیا سکھایا ہے؟‘



’ابرار الحق کیسے فرض کر سکتے ہیں کہ آج کی مائیں دین پر توجہ نہیں دیتیں؟‘ - BBC News اردو
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
ہر ماں ایک جیسی تو نہیں۔ آج کل بھی اکثر مائیں بچوں کی مثالی تربیت کرتی ہیں۔ ابرار صاحب ایک سیلبرٹی ہیں۔ ایسے معروف و مقبول افراد کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ بات کہنے کے سو ڈھنگ ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہر ماں ایک جیسی تو نہیں۔ آج کل بھی اکثر مائیں بچوں کی مثالی تربیت کرتی ہیں۔
آپ نے درست کہا ہماری بیٹیاں اور بہو اپنے بچوں کی تربیت پر بہت توجہ دیتی ہیں بہو کو تو بچوں کو فون دینا بالکل ہی پسند نہیں انگلینڈ رہ کر بھی بہت توجہ ہے تربیت پر ۔۔۔۔اس لئے بہت محتاط ہونا چاہیے اسطرح کے بیان دینے میں ۔۔۔۔۔
 
Top