کاشفی

محفلین
غزل
(آتش بہاولپوری)
آپ کی ہستی میں ہی مستور ہو جاتا ہوں میں
جب قریب آتے ہو خود سے دور ہوجاتا ہوں میں

دار پر چڑھ کر کبھی منصور ہوجاتا ہوں میں
طور پر جا کر کلیمِ طور ہوجاتا ہوں میں

یوں کسی سے اپنے غم کی داستاں کہتا نہیں
پوچھتے ہیں وہ تو پھر مجبور ہوجاتا ہوں میں

اپنی فطرت کیا کہوں اپنی طبیعت کیا کہوں؟
دوسروں کے غم میں بھی رنجور ہوجاتا ہوں میں

مجھ کو آتش بادہ و ساغر سے ہو کیا واسطہ؟
ان کی آنکھیں دیکھ کر مخمور ہوجاتا ہوں میں
 
Top