آپ صلی الله علیہ و آلہ وسلم ہر حال میں ذکر الله کرتے تھے ۔

ام اویس

محفلین
صحیح بخاری کی ایک حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنھا فرماتی ہیں، جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہر وقت الله جل جلالہ کے ذکر میں مشغول رہا کرتے تھے۔
شمائل الترمذی میں حضرت علی رضی الله عنہ کا فرمان درج ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ اٹھتے اور بیٹھتے وقت الله کا ذکر فرمایا کرتے تھے اور صحیح الجامع الصغیر میں ہے جس کا مفہوم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے ذکر کیا کرتے تھے، بے فائدہ باتوں سے اجتناب فرماتے، نماز لمبی پڑھتے اور خطبہ مختصر ارشاد فرماتے تھے۔
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم الله تعالی سے ذکر کی توفیق بھی طلب فرماتے تھے۔ ترمذی شریف کی حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے الله! مجھے خوب شکر کرنے والا بنا دے اور خوب ذکر کرنے والا بنا دے۔
الجامع الکبیر میں دعا کے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے الله! میرے دل کے کانوں کو اپنے ذکر کے لیے کھول دے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ دعا سنی اور میں اپنی پوری زندگی یہ دعا مانگتا رہوں گا۔ میں نے سنا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے۔
(اردو مفہوم) اے الله! مجھے ایسا بنا دے کہ تیرا خوب شکر کیا کروں اور تیرا بہت ذکر کیا کروں اور تیری نصیحتوں کی پیروی کروں اور تیری تاکیدوں کی حفاظت کروں ۔
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو نماز کے بعد یہ دعا مانگنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔
(اردو مفہوم) اے الله میری مدد فرما ، اپنے ذکر پر ، اپنے شکر پر اور اچھی عبادت پر ( سنن ابی داؤد، مسند احمد)
۔۔۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہر اہم بات کو دہراتے تھے:
نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہر اہم بات کو تین دفعہ دہراتے تھے۔
آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم الله تعالی سے دعا کرتے تو اکثر اسے تین بار دہراتے ۔ کبھی کسی دعا کو سات دفعہ بھی مانگتے تھے ۔ اس کے علاوہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دعائیں تینتیس اور سو بار بھی دہرائی ہیں۔
دعا کی گنتی یاد رکھنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اس کی تعداد کو انگلیوں پر شمار کرتے تھے۔ انگلیوں پر گن کر پڑھنا ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم ، ہمارے سید و سردار کی سنت ہے۔ اس سنت کو اختیار کرنے میں اتباع رسول کا اجر ہے۔
جیسا کہ الله تعالی نے سورة یٰس : آیۃ: 65 میں فرمایا ہے۔

الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اردو:
آج ہم انکے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے انکے ہاتھ ہم سے بیان کر دیں گے اور انکے پاؤں اسکی گواہی دیں گے۔
۔۔۔۔۔
چنانچہ قیامت کے دن انگلیاں گواہی دیں گی۔
اس لیے دعا ، تسبیح و ذکر کو مصنوعی طریقوں کی بجائے، انگلیوں پر ہی شمار کرنا چاہیے ۔ذکر و تسبیح کو انگلیوں پر گِن کر پڑھنے والا سنت کے دائرے سے نہیں نکل سکتا، نہ تو اس میں ریا پیدا ہوگی نہ وہ اس معاملے میں کسی بدعت میں مبتلا ہوگا۔
 
Top