حفیظ جالندھری آنے والے، جانے والے، ہر زمانے کے لیے

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آنے والے، جانے والے، ہر زمانے کے لیے
آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

زندگی فردوسِ گم گشتہ کو پا سکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے

میری پیشانی پہ اک سجدہ تو ہے لکھا ہوا
یہ نہیں معلوم ہے کس آستانے کے لیے

ان کا وعدہ اور مجھے اس پر یقیں اے ہم نشیں
اک بہانہ ہے تڑپنے تلملانے کے لیے

جب سے پہرہ ضبط کا ہے آنسوؤں کی فصل پر
ہو گئیں محتاج آنکھیں دانے دانے کے لیے

آخری امید وقتِ نزع ان کی دید تھی
موت کو بھی مل گیا فقرہ نہ آنے کے لیے

اللہ اللہ دوست کو میری تباہی پر یہ ناز
سوئے دشمن دیکھتا ہے داد پانے کے لیے

نعمتِ غم میرا حصہ مجھ کو دے دے اے خدا
جمع رکھ میری خوشی سارے زمانے کے لیے

نسخۂ ہستی میں عبرت کے سوا کیا تھا حفیظؔ
سرخیاں کچھ مل گئیں اپنے فسانے کے لیے
 
Top