آدھی رات کا سورج ۔۔۔ شہیدوں‌ کی شاہراہ، دوسرا حصہ

زیف سید

محفلین
پوئیٹیرز کے اس تاریخی میدانِ کارزار سے چند میل دور حکومتِ فرانس نے امریکہ کے ڈزنی ورلڈ کی طرز پر فیوچروسکوپ یا مستقبل نما بنایا ہے۔ اس کے اندر کسی قسم کی جدتیں رکھی گئی ہیں۔ ان میں تھری ڈی سینما سب سے زیادہ مقبول ہے۔ ایک قسم کی تھری ڈی فلم میں زمین پر لاکھوں برس بعد رونما ہونے والی حیاتیاتی اور جغرافیائی تبدیلیوں کی بے حد دل چسپ انداز میں عکاسی کی گئی ہے۔ دیکھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس فرضی ماحول کے اندر پہنچ گیا ہے۔

اسی مستقبل نما کے اندر میں نے سوچا کہ اگر یہاں کوئی ماضی نما بھی ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا کہ انسان کم از کم اس علاقے میں پیش آنے والے اہم واقعات ہی کو دیکھ لیتا۔ تاہم کتابیں اسی قسم کے ماضی بین آلے کا کام سرانجام دیتی ہیں جن کی مدد سے ہم تیرہ صدیوں کی گرد کی موٹی تہہ صاف کر کے کچھ دھندلی دھندلی تصویریں اخذ کر کے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 25 اکتوبر 732ء یا یکم رمضان کو وہاں کیا معرکہ پیش آیا ہوگا۔

مسلمان فوج نے بھرپور حملہ شروع کر دیا، لیکن چارلز کے دو دھاری کلہاڑی بردارفوجی اپنی مربع رومی ترتیب میں ڈھال سے ڈھال ملائے میدان میں ڈٹے رہے۔ 754ء میں قرطبہ میں لکھی جانے والی ایک کتاب ’موزاریبک کرونیکلز‘ کے مطابق فرانسیسی سپاہ برف کی سلوں کی مانند کھڑی رہیں جو کسی طرح پگھلنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔

732ء میں پیغمبرِ اسلام کے وصال کے ٹھیک ایک سو برس کے اندر اندر مسلمان دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور بن چکے تھے۔ اموی خلافت کی سرحدیں مشرق میں پنجاب، شمال میں سنکیانگ اور مغرب میں بحرِ اوقیانوس کے پانیوں تک پھیل چکی تھیں۔ ہسپانیہ میں بھی قدم جمائے انھیں 21 برس گزر چکے تھے۔ اس تمام عرصے میں کی جانے والی فتوحات میں مسلمان فوج کی تعداد حیرت انگیز طور پر کم ہوا کرتی تھی۔ فوج کا بیشتر حصہ شہ سواروں پر مبنی ہوتا، جو برق رفتاری سے منزلوں پر منزلیں مار کر غنیم کو ششدر کر دیا کرتا تھا۔

سوار کے مقابلے پر پیادہ سپاہی کی کچھ زیادہ حیثیت نہیں ہوتی۔ ایک تو سوار زمین سے دوڈھائی گز بلندی سے حملہ آور ہوتا ہے، پھر اس کے نیزے یا تلوار کی کاٹ میں گھوڑے کی رفتار کا مومینٹم بھی شامل ہوتا ہے۔ اور اگر وار خالی بھی جائے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر پیادے کی زد سے دور جا کر دوبارہ دھاوا بول سکتا ہے۔

لیکن چارلز مارٹل یہ ساری باتیں اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ منتشر پیادہ فوج گھڑسواروں کے مقابلے پر گاجر مولی کی طرح کٹ جائے گی۔ لیکن اگریہی پیادہ فوجی نظم و ضبط کے ساتھ اکائی کی طرح میدان میں ڈٹ جائیں، تو بڑے سے بڑے شہ سوار لشکر کو بھی جوکھم میں ڈال سکتے ہیں۔ چارلز مارٹل کی فوج گذشتہ دو عشروں سے مسلسل حالتِ جنگ میں تھی۔ اس کے تجربہ کار فوجیوں نے رومیوں کی ایجاد کردہ ایک ہزار سال پرانی جنگی تشکیلات کو نئی زندگی دی تھی۔ ہر سپاہی کے پاس بھاری لکڑی کی مضبوط ڈھال ہوا کرتی تھی، جس پر تلوار، تیر یا نیزہ بے اثر تھے۔ سر پر مخروطی خود تھا جس کی ایک آہنی دھار اوپری ہونٹ تک آتی تھی، مقصد یہ تھا کہ ناک تلوار کےوار سے بچی رہے۔ لیکن اس فوج کا سب سے بڑا ہتھیار اس کا زبردست نظم و ضبط تھا۔

چارلز مارٹل کی فوج رن میں یوں ڈٹی رہی کہ عرب شہ سواروں کو اس کے اندر گھسنے کے لیے کوئی رخنہ، کوئی درز نہیں مل رہی تھی۔ مسلم گھڑ سوار بار بار یلغار کرتے، لیکن ہر بار فرنجی سپاہی انھیں یوں پسپا ہونے پر مجبور کر دیتے جیسے سمندر کی پرشور لہریں سنگلاخ ساحل سے سر پٹک کر رہ جاتی ہیں۔

ایک دو دفعہ مسلم دستے برف کی سل کو کاٹ کر مربع کے اندر بھی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن مارٹل کے سپاہیوں نے ہر بار دائیں بائیں سے بڑھ کر دراڑ کو پر کر دیا اور صورتِ حال جوں کی توں رہی۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ فرنجیوں کا مثالی نظم و نسق مسلم گھڑسواروں کے بے پایاں جوش و خروش کا کہاں تک مقابلہ کرتا، لیکن اس موقعے پر ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے جنگ کا نقشہ پلٹ کر رکھ دیا۔ گھمسان کے رن کے دوران موقع بھانپ کر چارلز کے حلیف ڈیوک آف یوڈز نے گھڑسواروں کے مختصر رسالے کے ساتھ مسلمان فوج کے عقب پر حملہ کر دیا۔پوئیٹیرز کے آس پاس کا علاقہ یوڈز کی عمل داری میں آتا تھا اس لیے اسے مقامی جغرافیے کا بہتر علم تھا، اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے ایسے رخ سے حملہ کیا جہاں سے مسلم فوج کی اس کی توقع نہیں تھی۔

مسلمانوں نے فرانس کے وسط تک پہنچتے پہنچتے کئی شہر فتح کیے تھے اور ان فتوحات کا مالِ غنیمت لشکر کے عقب میں جمع تھا۔ یہیں خیموں میں فوجیوں کی بیویاں اور بچے بھی تھے۔ جب برسرِ پیکار مسلم سپاہیوں میں یہ افواہ پھیلی کہ دشمن نے عقب پر حملہ کر دیا ہے تو ان میں سراسیمگی پھیل گئی۔ کئی دستے اپنی ترتیب توڑ کو عقب کی طرف بھاگے۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت بڑی حد تک سلامت ہے لیکن اسی افراتفری کا فائدہ اٹھا کر چارلز اور اس کے اتحادیوں نے اپنی دفاعی تشکیل چھوڑ کر پوری شدت سے دھاوا بول دیا۔

الغافقی نے دستوں کے انتشار سے پریشان ہو کر جو پلٹنے کی کوشش کی تو فرانسیسی سپاہیوں کے نرغے میں آ گیا۔ الغافقی تجربہ کار جرنیل تھا،اور زرہ بکتر میں لپٹا ہوا تھا، لیکن بدقسمتی سے دشمن کے نیزے کے وار سے اس کا گھوڑا گر گیا، اوریوں دیکھتے ہی دیکھتے مسلم فوج کا سپہ سالار میدان میں کام آ گیا۔ اس کی ہلاکت کی خبر نے رہی سہی کسر پوری کر دی اور مسلمان فوجیوں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ لیکن اسی اثنا میں رات کا اندھیرا پھیل گیا اور جنگ دوسرے دن کے لیے موقوف کر دی گئی۔

صبح سویرے چارلز مارٹل نے اٹھ کر مسلم خیموں کی طرف دیکھا تو اس کا دل ڈوبنے لگا، افق پر جہاں تک نظر جاتی تھی، مسلم سپاہیوں کے سیاہ خیمے نصب تھے۔ چارلز خوب سمجھتا تھا کہ کل کی فتح عارضی تھی اور مسلمان آج زخمی شیر کی طرح لڑیں گے۔

سورج افق سے بالشت بھر اوپر آ گیا، لیکن مسلم خیام سے کوئی حرکت تو کجا، کسی قسم کی آواز تک نہیں آ رہی تھی۔ نہ گھوڑوں یا باربرداری کے جانوروں کی ہنہناہٹ، نہ صدائے اذاں، نہ عربی، بربر، فارسی یا قسطیلی زبان میں کسی سپاہی کے بولنے کی آواز ۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ چارلز مارٹل کا ماتھا ٹھنکا۔ یقیناً یہ کوئی جال ہے۔ جوں ہی اس کی فوج ڈھلوان اور جنگل کی پناہ چھوڑے گی، عرب فوج اس پر ٹوٹ پڑے گی۔ اس نے چند مخبر بھجوا کر جائزہ لینا چاہا۔کیا خبر مسلم فوج دریا کے دوسرے کنارے پر درختوں کی آڑ میں گھات لگائے بیٹھی ہو۔ مخبروں نے دور دور کا علاقہ چھان مارا، اونچے درختوں اور ٹیلوں پر چڑھ کر دیکھ لیا۔

مسلم فوج رات کی تاریکی میں اپنا مالِ غنیمت اٹھا کر پسپائی اختیار کر چکی تھی۔برف کی سلوں نے عرب کشور کشائی کے شعلوں کو بجھا دیا تھا۔

چارلز کا خدشہ درست تھا، یہ واقعی شاطرانہ چال تھی، جو بے حد کارگر ثابت ہوئی۔ چال یہ تھی کہ کھڑے خیمے دیکھ کر عیسائی فوج انتظار کرے گی اور اموی فوج کو آسانی سے دور نکلنے کا موقع مل جائے گا۔

تاریخ دان پیغمبرِ معکوس ہوتا ہے، اور مستقبل کے بجائے ماضی کے بارے میں پیش گوئیاں کرتاہے۔ ایسے ہی چند تاریخ دانوں نے الغافقی کی کئی مہلک غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس نے اپنے دشمن کی طاقت کا اندازہ لگانے یا اس کی نقل و حرکت کا سراغ لگانے کی زحمت نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ چارلز مارٹل اپنی مرضی کا میدانِ جنگ منتخب کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور تو اور، الغافقی کو اپنے مدِ مقابل عیسائی سپاہ سالار کا نام تک معلوم نہیں تھا۔

ایک اور بڑی غلطی اس نے یہ کی کہ اپنی فوجی برتری کے زعم میں اس نے آزمودہ روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس نے اپنا نائب مقرر نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے قتل کی رات جب مسلم سرداروں کا اجلاس ہوا تو اس میں عربوں، شامیوں، بربروں اور اندلسیوں میں نئے سپہ سالار کے انتخاب کے مسئلے پر اس قدر اختلافات کھل کر سامنے آ گئے کہ خود مسلم فوج کے مختلف دھڑوں میں تلوار سونتنے کی نوبت آتےآتے بچی۔ چناں چہ ایسے حالات میں انھوں نے یہی مناسب سمجھا کہ اب تک جو مالِ غنیمت مل چکا ہے، اسی اکتفا کرتے ہوئے واپسی کا راستا اختیار کر لیا جائے۔

جدید و قدیم تاریخ دانوں کی اکثریت اس پسپائی کو تاریخ کا عظیم فیصلہ کن لمحہ سمجھتی ہے۔ مسلمان مورخ اسے معرکہٴ بلاط الشہدا کہتے ہیں۔ بلاط کا مطلب ہے پختہ فرش اور اس سے مراد وہ رومی شاہراہ ہے جس پر یہ جنگ لڑی گئی۔اس پکی سڑک پر کتنے مسلمان فوجیوں کو خون بہا، اس کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ تاہم جدید مؤرخین کا خیال ہے کہ اس جنگ میں ان کی ایک تہائی تعدا دمیدان میں کھیت رہی۔

مغربی مفکروں میں گبن کا اقتباس آپ اوپر پڑھ چکے ہیں۔ بیلجیئم کے مورخ Goderfroid Kurth کا خیال ہے کہ اس جنگ کو لازماً تاریخ ساز واقعات میں سے ایک قرار دینا ہو گا، یہ وہ جنگ تھی جس پر اس بات کا انحصار تھا کہ آیا یورپ عیسائی رہے یا اسلام تمام براعظم میں سرایت کر جائے۔

جرمن فوجی مورخ Hans Delbruck کہتے ہیں کہ تمام دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ اہم جنگ نہیں لڑی گئی۔ اور تو اور ہٹلر تک نے خیال آرائی کی ہے کہ اگر مارٹل کو شکست ہو جاتی تو یورپ کا مذہب اسلام ہوتا۔

اس جنگ کے بعد چارلز مارٹل کو موقع مل گیا کہ وہ ایک طاقت ور فرانسیسی سلطنت کی بنیاد رکھ سکے۔ یہی سلطنت مارٹل کے پوتے شارلمین کو ورثے ملی تھی جسے اس نے جِلا بخش کر یورپ کی شان دار ترین سلطنتوں میں سے ایک بنا ڈالا۔

تاہم اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ تمام مغربی دانش ور اس جنگ کے مدح سرا ہیں۔ مذہب اور قومیت کی جذباتی حدوں سے بالاتر ہو کر ان محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر اس دن عبدالرحمٰن الغافقی کی فوجیں مارٹل کی شاطرانہ چالوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتیں تو تمام کا تمام مغرب صحیح معنوں میں عالم گیر ثقافت کا حصہ بن جاتا۔ ایسا مغرب جو کم از کم پانچ صدیوں بعد تک گھٹا ٹوپ اندھیرے میں غرق رہا، وہ بہت پہلے علم و دانش کی کرنوں سے منور ہو جاتا۔

فرانسیسی محققین Jean Henri-Roy اور Jean Deviosse نے مسلم فتح سے یورپ کو پہنچنے والے ممکنہ ثمرات کا تخمینہ پیش کیا ہے: فلکیات، ٹرگنامیٹری، عرب ہندسے، یونانی فلسفہ۔ ان دونوں ماہرین نے حساب لگایا ہے کہ اگر اس دن عرب بالادست رہتے تو آج یورپ 267 برس زیادہ ترقی یافتہ ہوتا۔
 

شمشاد

لائبریرین
زیف سید صاحب خوش آمدید۔ بہت عرصے بعد اردو محفل میں آنا ہوا۔
یہ آپ دوسرا حصہ تحریر کیا ہے۔ پہلے حصے کی نشاندہی فرما دیں اور یہ بھی کہ مضمون مکمل ہو گیا یا ابھی باقی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت شکریہ زیف بھائی۔ ویسے بھی آپ کے اتنا عرصہ بعد آنے کی بہت خوشی ہے۔
 
Top