الف عین
محمد عبدالرؤوف
عظیم
محمّد احسن سمیع :راحل:
سید عاطف علی
-----------
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
----------
آج یادیں تمہاری جو آنے لگیں
یاد ماضی مجھے پھر دلانے لگیں
----------
وہ جوانی تری ، وہ ترا بانکپن
پھر تصوّر میں مجھ کو دکھانے لگیں
----------
پھر بچھڑنا ترا یاد آیا مجھے
اشک آنکھیں مری پھر بہانے لگیں
------
تم بھی مجبور تھے، ہم بھی مجبور تھے
اپنی مجبوریاں دل جلانے لگیں
----------
چاہتا ہے مرا دل تجھے دیکھنا
تیری یادیں مجھے پھر ستانے لگیں
-------------
بھول پائے نہیں دل سے تم بھی مجھے
مجھ کو یادیں تمہاری بتانے لگیں
--------
تجھ کو کھونے کا ارشد ہے صدمہ بہت
تیری یادیں کہاں اب ہیں جانے لگیں
----------
 

الف عین

لائبریرین
جب یہ مسلسل غزل ہے، جس کا عنوان تمہاری /تیری یادیں ہو سکتا ہے، تو کہیں تو اور کہیں تم سے شدید شتر گربہ لگتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایکسرسائز جس کا میں اکثر مشورہ دیتا ہوں، نہیں کی گئی۔ ورنہ، مثال کے طور پر، یہ دو مصرعے یہ روپ دھار سکتے تھے
میری آنکھیں پھر آنسو بہانے لگیں
اور
تجھ کو کھونےکا صدمہ ہے ارشد بہت
ہاں، مجبوریاں دل جلانے لگیں والے شعر میں ہی فاعل یادیں نہیں ہیں۔ یا تو اسے نکال دیا جائے اور مکمل غزل کو نظم یا مسلسل غزل کہا جائے۔ یا دو تین اشعار مزید کہے جائیں جن میں فاعل یادیں نہ ہو
دوسرے شعر میں تو یادوں کا ذکر نہیں، مگر فاعل وہی ہیں!
 
Top