آج "کھانے" کی ضد نہ کرو ٭ احمد حاطب صدیقی

آج "کھانے" کی ضد نہ کرو
احمد حاطب صدیقی

وطنِ عزیز میں حادثۂ نکاح کو ’’شادی‘‘ مبارک کہا جاتا ہے۔ جو دراصل ’’شاد ہونے‘‘ کا ایک وقتی مفروضہ ہے۔ اس موقع پر شاد تو شاید فقط دوہی نفر ہوتے ہوں گے، باقی لوگ تو بس ’’بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کے مصداق بربنائے دیوانگی شاد ہوتے پھر رہے ہوتے ہیں۔ ممکن ہے کہ احمد مشتاق کی طرح یہ سوچ سوچ کر شاد ہوتے ہوں کہ:
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانوں میں​
رہے وہ دو نفر جن کی دراصل ’’شادی‘‘ ہے، تو وہ بھی فقط اِس غلط فہمی میں (اپنے ہی) دانت نکال نکال کر شاد ہورہے ہوتے ہیں کہ:
ملے دِل سے دِل، زندگی مُسکرا دی​
زندگی نہیں مُسکرارہی ہوتی ہے، دونوں کی زندگی بھر کی قسمت (دونوں پر) مُسکرا رہی ہوتی ہے کہ: ’’آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟‘‘ ابھی تو خیر چند دنوں تک یہی ہوتا رہے گا کہ: ’’ٹک دیکھ لیا، دِل شاد کیا‘‘۔ مگر آگے چل کر جو احساس ہوگا اُسے کسی نے کسی کا ’’سہرا‘‘ کہتے ہوئے بطوراپنی آپ بیتی کہہ ڈالا تھا:
نہیں پھنسے ہیں جو، بے خبر ہیں
کہ پھانستا ہے شکار سہرا​
تو بات یہ ہے کہ (شادی کی) ’’تدبیر کند بندہ، تقدیر زنَد خندہ‘‘۔ یعنی بندہ تدبیریں لڑا رہا ہوتا ہے اور قہقہہ تقدیریں مار رہی ہوتی ہیں۔ کچھ ہی عرصہ میں ڈاکٹر انعام احسن حریفؔ کی طرح ہر شخص پر یہ راز مکمل طور پر فاش ہوجاتا ہے کہ۔۔۔ ارے بھئی!:
جو شریکِ حیات ہوتی ہے
وہ بڑی واہیات ہوتی ہے​
مگر کیا کہیے کہ بزرگوں نے ٹھیک کہا ہے: ’’شادی بور کے لڈّو ہیں، جس نے کھایا وہ بھی پچھتایا، جس نے نہ کھایا وہ بھی پچھتایا‘‘۔ (یہاں بور سے مُراد غالباً انگریزی والا Bore ہے)۔ یہ مقولہ سننے کے بعد بھی۔۔۔ بندہ بشر ہے۔۔۔ لالچ میں آجاتا ہے اور ہُشیاری دکھاتے ہوئے یہ فیصلہ کرجاتا ہے کہ بے کھائے پچھتانے سے بہتر ہے کہ کھا پی کر پچھتا یا جائے۔ چناں چہ یہی ہوتا ہے۔ یہی ہوتاآیا ہے اور یہی ہوتا چلا جائے گا۔ یہی قانونِ فطرت ہے، یہی رمزِ مسلمانی۔
مسلمانوں کا ذکر آیا ہے تو یہاں یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ دین فطرت نے اِس فطری تقاضے کی تکمیل کو تمام مذاہب اور سب تہذیبوں کے مقابلے میں سب سے آسان کام بنادیا ہے۔ کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے صاحبِ ایمان اور عاقل و بالغ چار گواہ ہوں اور اُن کے سامنے ایجاب وقبول ہوجائے تو لیجیے صاحب! نکاح ہوگیا۔ اب یہ ذمے داری دولھا میاں پر ہے کہ وہ (اپنی استطاعت کے مطابق) تقریب ولیمہ منعقد کریں اور معاشرے کے سامنے یہ اعلانِ عام کردیں کہ ہم دو افراد (اپنے دل سے دل ملائے) جو ساتھ رہنے لگے ہیں، تو ہم ’’میاں بیوی‘‘ ہیں۔ سوشل پارٹنرز نہیں۔
اِسلام نے اِس کام کو جتنا آسان بنایا، مسلمانوں نے اُسی قدر دُشوار کردیا۔ اب ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ نکاح کرنا مہنگا ترین اور دُشوار ترین کام ہوگیا ہے، جب کہ بدکاری بہت سستی اور قدرے آسان ہے۔ ایک بار کسی نے مولانا مودودیؒ سے زناکاری کی سزا کے نفاذ سے متعلق کوئی سوال کیا تو مولانا نے اس مفہوم کا جواب دیا کہ آج کل تو جو شخص زنا سے بچا ہوا ہو اُس کو انعام دینا چاہیے۔ پہلے آپ نکاح کو سہل بنائیں۔ بدکاری کی طرف راغب کرنے اور لے جانے والے تمام راستوں کو دشوار کردیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی زنا کرتا ہے تو اُسے سزا دیں۔
اِس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج کی نوجوان نسل یہ فریاد کررہی ہے کہ ہم کو دریا کی گہرائیوں میں لے جاکر چاروں طرف سے تختے لگا کر بند کر دیا گیا ہے اور پھر ہم سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ خبردار! دامن گیلا نہ ہونے پائے۔ ہُشیار باش!
درمیانِ قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکُن ہُشیار باش​
ہمارے تمام سیاسی رہنما بالعموم اور حزبِ اختلاف کے سیاسی رہنما بالخصوص یہ دعویٰ کرتے پھرتے ہیں کہ: ’’سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘۔ دعویٰ درست ہے، بشرطے کہ ’’دردِ جگر‘‘ سے مراد کرسی حاصل کرنے کا پیٹ میں اُٹھتا ہوا مروڑ ہو۔ معاشرے کی اصلاح۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ۔۔۔ مصلحین معاشرہ کا کام ہے۔ (ہم تو ’’مفسدین معاشرہ‘‘ ہیں)۔ حالاں کہ یہ کام تو وہ کام ہے، جس سے اُن کے ووٹر پیدا ہوتے ہیں۔ کاش اِس کام کو بھی وہ اپنے فائدے کا ایک ’’سیاسی کام‘‘ سمجھ کر ہی آسان کر دیتے۔ بہت ہوا تو غریب خاندانوں کے لڑکے لڑکیوں کی سرکاری خرچے پر اجتماعی شادی کروا دی جاتی ہے۔ یہ تو پائیدار حل نہ ہوا۔ پائیدار حل یہ ہے کہ غریب لڑکے لڑکیوں کی شادی اُتنے ہی خرچہ میں ہوجایا کرے جتنے خرچہ میں ایک لڑکا اپنے گھر میں اپنے چند قریبی رشتہ داروں اورچند قریبی دوستوں کی دعوت کرسکتا ہو۔ یہ کام قانون سازی سے ہوا ہے نہ ہوسکتاہے۔ یہ کام ’’مثال سازی‘‘ سے ہوگا۔ حکومت، سیاست اور معاشرے کے تمام ’’بڑے لوگ‘‘ اگر اپنے بچوں کے نکاح بے خرچے، بلانمود ونمائش، کم مدعوعین کی موجودگی میں اور سادگی سے مسجد میں کرنے کا رواج ڈال دیں تو بہت سے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ووٹوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ اورسیاست دان صاحبان خواہ مخواہ ساڑھے تین لاکھ جعلی ووٹوں کا انتخابی فہرست میں اندراج کرانے کا کشٹ اُٹھانے سے بھی بچ رہیں گے۔ اضافہ کروڑوں کے حساب سے ہوگا۔
’’شادی‘‘ سب سے بڑا عذاب تو ہمارے عروس البلاد کراچی میں بنی ہوئی ہے۔ مہندی، تیل، جہیز، بری، بیوٹی پارلر، شادی کارڈ وغیرہ وغیرہ سمیت دیگر تمام فضولیات کے خرچے اپنی جگہ۔ صرف شادی کا کھانا ہی لاکھوں روپے کا ہوتا ہے۔
کھانا پکوایا ہے تو کھانے والوں کا انتظار بھی کرنا ہوگا۔ اگر آپ قیمتی شادی کارڈ پر لکھے ہوئے وقت کے عین مطابق شادی ہال جاپہنچے تو ہال میں کرسیاں بچھانے والا آپ کو مشکوک نگاہوں سے گھورگھور کرکرسیاں بچھاتا رہے گا کہ یہ کون بے صبرا ہے جو میزبانوں کی آمد سے بھی پہلے آدھمکا ہے۔ اگر نو بجے شب کا وقت درج ہے تو کہیں بارہ بجے شب توخود میزبان آئیں گے۔ ایک بجے شب بارات پہنچے گی۔ دوبجے شب نکاح ہوگا۔ اور تین بجے شب آپ کے پیٹ نے جب قل ھواللہ کی ہزار دانہ تسبیح ختم کرکے آپ کو یہ اطلاع دی کہ اب: ’’قل ھواللہ کی شمشیر سے خالی ہے نیام‘‘ اور آپ نے حسرت بھری نگاہوں سے میزبانوں کی طرف دیکھا تو اُن کی وحشت بھری نگاہیں آپ سے یہ کہتی نظرآئیں گی کہ ابھی تو تکے کباب لگانے والا باورچی ہی نہیں پہنچا، لہٰذا:
یوں ہی ’’تنبو‘‘ میں بیٹھے رہو
آج ’’کھانے‘‘ کی ضد نہ کرو​
 
Top