آتش دان کا بت صفحہ 22 تا 29

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فہیم

لائبریرین
چونک پڑا۔۔۔۔ عمران اس کی پشت پر کھڑا احمقانہ انداز میں مسکرارہا تھا!
بیٹھئے۔ صفدر اٹھتا ہوا بولا۔
بیٹھو! بیٹھو آج کی فضا کچھ اداس اداس سی ہے۔ عمران نے کہا۔
اور بیٹھ گیا پھر کلائی کی گھڑی پر نظر ڈال کر بولا! ہم یہاں صرف پندرہ منٹ بیٹھ سکتے ہیں! چائے پیو گے یا کافی!
چائے۔۔۔ صفدر نے ایک طویل سانس لی اور عمران نے ویٹر کو اشارے سے بلا کر آرڈر پلیس کیا! چند لحمے خاموشی رہی پھر صفرد نے کہا “آج شاید ہم گدھوں پو سوار ہوکر شہر کا چکر لگائیں گے۔
یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ آج کل گدھوں کے بھی نخرے ہوگئے ہیں! ہر گدھا اپنی جگہ پر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس کی بڑی اہمیت ہے! اگر وہ نہ ہوتو زمیں اپنے محور سے ہٹ کر عمران کی ناک پر قائم ہوجائے گی۔
کیوں۔ کیا آپ مجھ پر کسی قسم کی چوٹ کررہے ہیں!
نہیں! میری ساری چوٹیں اپنی ذات پر ہوتی ہیں! میں بعص غلط فہمیوں میں مبتلا ہوگیا ہوں!
صفدر اُسے حیرت سے گھور رہا تھا! لیکن عمران نے اپنی اس انوکھی بکواس کی وضاحت نہیں کی۔
اتنے میں ویٹر چائے لایا۔۔۔۔ صفدر نے پیالیاں سنبھالیں اور آہستہ سے بولا۔ کیا آپ مجھے دلکشا کے بارے میں بھی کچھ نہیں‌ بتائیں گے!
ارے یار میں کیا بتاؤں! میں خود ہی چکر میں ہوں ایکسٹو مجھے بھی کبھی کچھ نہیں بتاتا! وہ تو بس کام لینا جانتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی دلکشا کی دلکش بیوٹیز کو بھی دیکھا۔!
آہا۔۔۔۔ تم نے تو پورا پورا شعر عرض کردیا۔ دلکشا کی دلکش بیوٹیز بہت خوب! مگر یہ کیا چیز ہوتی ہے!
دلکشا کی تین لڑکیاں! جو عُرف عام میں‌ دلکشا کی دلکش بیوٹیز کہلاتی ہیں۔
تیں‌ کیا مجھے تو پونے تین لڑکیاں بھی کبھی نہیں سجائی دیتیں۔
مجھے حیرت ہے کہ وہ ان تینو‌ں میں لڑکیوں میں سے نہیں تھی! صفدر نے کہا۔
چائے پیئو! مائی ڈئیر مسٹر صفدر ورنہ ٹھنڈی ہوجائے گی! کیا تم ان تینوں کو اچھی طرح پہچانتے ہو۔!
یقیناً۔!
تب وہ بھی تمہیں جانتی ہوں گی۔!
نہیں میں نے انہیں ہمیشہ ایک تماشائی کی طرح سے دیکھا ہے۔
بہت اچھا! کیا قریب سے دیکھنے پر یہ لڑکیاں عموماً بہری اور اندھی ثابت ہوتی ہیں۔
آپ پھر ہانکنے لگے۔۔۔۔ کیا وہ لڑکی حقیقتاً بہری نہیں‌تھی۔!
میں کیا جانوں تم ہی بیوٹیز! دلکشیز کی باتیں کررہے تھے!
دلکشا بیوٹیز“ صفدر نے تصحیح کی اور پھر بولا۔ اُف فوہ وہ لڑکی بہت بُری طرح میرے ذہن پر چھاگئی ہے!
ہائیں۔ عمران اس طرح‌ بوکھلا کر اس کی کھوپڑی کا جائزہ لینے لگا۔
جیسے اس پر مکڑی نے جالا تن دیا ہو!
میں اُسے ذہن سے جھٹک دینا چاہتا ہوں۔ لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔
میاں اگر میرا معاملہ ہوتا تو اپنی گردن ہی جھٹک کر اس سے پیچھا چھڑا لیتا!
صفدر تھوڑی دیر تک سر جھکائے کچھ سوچتا رہا پھر بولا۔ دیکھئے میں‌ یہ بات جانتا ہوں کہ ایکسٹو نے آپ کو کچھ بھی نہ بتایا ہوگا! لیکن کیا آپ نے اپنے طور پر اندازہ نہیں کرسکے!
نہیں! عمران کا مختصر سا جواب تھا! لیکن پھر اس نے بڑی تیزی سے موضوع گفتگو بدل دیا۔
ہاں! بھئی اس وقت ایکسٹو نے مجھے دوسرا کام سونپا ہے۔
کیا مطلب؟ کیا آج دلکشا نہیں‌ چلئے گا؟
نہیں دوست! عمران نے ٹھنڈی سانس لی “آج تو بہری بیوٹی کے درشن نہیں کرسکو گے!
لیکن اب کونسا کام سونپا گیا ہے؟ صفدر جھنجھلا گیا۔
گیارہویں سڑک کی تیسری عمارت! عمران آہستہ سے بولا۔
وہاں ہم کیا کریں گے؟
جب تک کچھ شروع نہ ہوجائے ہم صرف صبر کریں گے۔
سرخ ٹائیوں والے کون ہیں! صفدر نے پوچھا۔
اگر دُم نہیں رکھتے تو آدمی ہی ہوں گے! یار تم مجھ سے ایسی باتیں کیوں پوچھتے ہو جن کا مجھے علم نہیں ہے!
گیارہویں سڑک کی تیسری عمارت ان کی قیامگاہ ہے!
یہ کس گدھے نے کہہ ریا تم سے۔!
میں نے خود دیکھا ہے۔۔۔۔۔
کیا دیکھا ہے؟
صفدر نے اُسے ایئرپورٹ کے واقعات بتاتے ہوئے کہا۔ وہ آدمی مرنے والے کا سوٹ کیس لئے ہوئے اسی عمارت میں داخل ہوا تھا۔
تم اُس عمارت کو کیا سمجھتے ہو! عمران نے پوچھا۔
عمارت۔ صفدر مسکرایا۔
عمران نے پھر کچھ نہیں پوچھا!
چائے ختم کرکے وہ اٹھ گئے! باہر عمران کی کار موجود تھی! صفدر تو ٹیکسی سے آیا تھا! صفدر نے گاڑی میں‌ بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ کیا آج اس عمارت پر کمند پھینکی جائے گی!
نہیں شریف آدمیوں‌ کی طرح چلیں گے۔
میک اپ کرنا پڑے گا!
میں نے شریف عورتوں کی طرح تو نہیں کہا۔ عمران نے غصیلے لہجے میں کہا۔ کار دوڑتی رہی! مگر وہ گیارہویں سڑک سے بھی گذر گئی!
پھر کہاں جارہے ہیں! صفدر نے مضطربانہ انداز میں پوچھا۔
اوہ! اب ہم تمہیں اپنے دولتکدہ پر لے چل رہے ہیں! عمران نے بڑے پُروقار لحجے میں کہا۔
مگر یہ راستہ آخر اتنا چکر کرنے کی کیا ضرورت ہے!
تم نہیں سمجھے! ہم اس سڑے گلے فلیٹ کی بات نہیں کررہے! آج ہم تمہیں اپنا دولتکدہ دکھائیں گے! صفدر تھک ہار کر خاموش ہوگیا۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ اب سیدھی کھوپڑی سے کوئی جواب نہیں‌ نکلے گا!
کار نیو کالونی میں داخل ہوئی! یہ شہر کی جدید ترین بستی تھی! اور یہاں اونچے حلقے کے لوگ آباد تھے! عمران کی کار ایک بڑی عمارت کی کمپاؤنڈ میں‌ داخل ہوئی اور سیدھی پورچ کی طرف چلی گئی۔
کار رُکتے ہی ایک باوردی ملازم آگے بڑھا اور کار کا دروازہ کھول کر ایک طرف مؤدبانہ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔ عمران بڑے شاہانہ انداز میں کار سے اترا تھا۔
صفدر متحیرانہ انداز میں اس کے پیچھے چلتا رہا۔ وہ اسٹڈی میں داخل ہوئے!۔۔۔ یہاں صفدر کو وہ لحیم شحیم نیگرو نظر آیا جسے صفدر اُس سے پہلے کئی بار عمران کے فلیٹ میں بھی دیکھ چکا تھا۔ نیگرو اس وقت خاکی وردی میں تھا۔ اس کے دونوں پہلوؤں سے دو بڑے بڑے ریوالور لٹک رہے تھے۔ اس نے سیدھے کھڑے ہوکر عمران کو فوجی انداز میں سلام کیا! وہ بہت خوش نظر آرہا تھا! عمران چند لحمے وہیں کھڑا رہا پھر صفدر کو لے کر دوسرے کمرے میں آیا! یہاں چاروں طرف ملبوسات کی الماریاں نظر آرہی تھیں اور ایک جانب ایک بڑی سنگار میز تھی!
ہمارے سیکرٹری کی حیثیت سے تمہیں ذرا شاندار لباس میں ہونا چاہیے! عمران نے صفدر کی جانب دیکھے بغیر کہا۔
کک۔۔۔۔۔ کیا مطلب۔۔۔ صفدر ہکلایا۔
تم ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی رانا تہور علی صندوقی کے پرائیوٹ سیکرٹری ہو! اوہو کہو! ہمارا دولتکدہ تمہیں پسند آیا۔
میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا! صفدر بُدبُدایا!
ان الماریوں میں اپنے لئے موزوں لباس تلاش کرو۔ عمران نے کہا۔ اور سنگار میز کی طرف مڑگیا! الماریاں مقفل نہیں تھیں۔۔۔ صفدر انہیں یکے بعد دیگرے کھولتا رہا اور اس کی آنکھیں‌ حیرت سے پھیلتی رہیں! وہ تو کسی لباس فروش کی دُکان معلوم ہوتی تھی! مختلف اقسام کے زنانہ وہ مردانہ ملبوسات کے ڈھیر کے ڈھیر نظر آرہے تھے۔
اچانک وہ چونک پڑا۔ سنگھار میز پر رکھے ہوئے فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ عمران نے ریسیور اٹھالیا۔
یس سر! اس نے ماؤتھ پیس میں کہا! اِٹ اِز عمران۔۔۔۔ جی ہاں صفدر موجود ہیں۔
وہ ماؤتھ پیس پر ہاتھ رکھتا ہوا مڑا اور صفدر سے بولا۔ ایکسٹو تم سے گفتگو کرنا چاہتا ہے! صفدر نے آگے بڑھ کر ریسیور اس کے ہاتھ سے لے لیا!
یس سر۔۔۔۔۔۔۔ آُس نے ماؤتھ پیس میں‌کہا۔
صفدر۔۔۔۔۔۔ گیارہویں سڑک کی تیسری عمارت میں‌ کون رہتا ہے۔
ایکسٹو کی بھرائی ہوئی سی آواز آئی۔
یہ ۔۔۔ تت ۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔ نہیں معلوم ہوسکا تھا۔
اور اس کے باوجود بھی تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ عمران تمہاری راہنمائی نہ کرے!
میں نے تو کبھی نہیں چاہا جناب! میری نظروں میں ان کا بڑا احترام ہے۔ انہیں استاد سمجھتا ہوں۔ مگر دوسروں کی ذمہ داری مجھ پر کیسے عائد ہوسکتی ہے۔
اب اس وقت تمہیں عمران کے ساتھ اس عمارت میں داخل ہونا ہے۔
بہتر ہے!
آئندہ آنکھیں کھلی رکھو۔
بہت بہتر جناب۔
دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہوگیا! عمران نے بڑی چالاکی سے کام لیا تھا! اُسے یقین تھا کہ اس عمارت میں پہنچ کر صفدر شبہات میں‌ مبتلا ہوسکتا ہے! اس لئے اس نے بلیک زیرو کو ہدایت کردی تھی کہ فلاں وقت وہاں رنگ کرکے فون پر ایکسٹو کا رول ادا کرے۔ ایسے حیرت انگیز حالات سے دوچار ہونے پر اس کے ماتحت ازسر نو سوچنا شروع کردیتے تھے کہ کہیں عمران ہی تو ایکسٹو نہیں ہے۔ صفدر پھر ریسیور رکھ کر عمران کی متوجہ ہوگیا۔ اور اب اُسے احساس ہوا کہ عمران کچھ دیر پہلے میک اب کرنے میں مشغول تھا! اُسے اس کے ہونٹو پر رومن اسٹائل کی باریک مونچھیں نظر‌ آئیں! دہانے کی بناوٹ میں معمولی سی تبدیلی کی گئی تھی۔ ناک کا درمیانہ اُبھار کچھ زیادہ نمایاں ہوگیا تھا!
اور پھر جب اُس نے لباس تبدیل کیا تو سچ مچ کوئی شہزادہ ہی معلوم ہونے لگا! اُ کے چہرے پر حماقت کا دور دور تک پتہ نہیں تھا!
کیا اب تمہارے لئے بھی ہم لباس کا انتخاب کریں گے! عمران نے پُروقار لہجہ میں پوچھا۔
مجھے بیحد خوشی ہوگی! صفدر مسکرایا۔
عمران نے اُس کے لئے بھی ایک سوٹ منتخب کیا!۔ اور اُس کے خدوخال میں‌ بھی تھوڑی سی تبدیلی کی! پھر تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکل رہے تھے۔۔۔ جوزف اُن کےپیچھے تھا اور اس کی حیثیت باڈی گارڈ کی سی تھی۔ عمران جس کار پر یہاں تک آیا تھا وہ یہیں چھوڑ دی گئی اور ایک باوردی ڈائیور نے گیراج سے سیاہ رنگ کی لمبی سی بیوک نکالی۔
صفدر حیرتوں کے طوفان میں گھرا ہوا تھا!
جب وہ دونوں پچھلی سیٹ پر بیٹھ چکے تو جوزف ڈرائیور کے برابر اگلی سیٹ پر جا بیٹھا! پھر گاڑی حرکت میں آگئی۔ کھڑکیوں پر سیاہ پردے تنے ہوئے تھے اور اندر روشنی تھی! دفعتاً عمران نے گاڑی کے بائیں گوشے سے ہیڈ فون کے دو جوڑے نکالے! ایک صفدر کی بڑھا دیا اور دوسرا خود اپنے کانوں پر فٹ کرلیا! صفدر نے خاموشی سے اس کی تقلید کی۔۔۔۔۔ ان ہیڈ فونوں سے ایک ایک ماؤتھ پیس بھی اٹیچ تھا۔
دفعتاً صفدر نے ایکسٹو کی بھرائی ہوئی آواز سنی جو کہہ رہا تھا۔
صفدر تم اس کا تذکرہ اپنے ساتھیوں سے نہیں کرو گے! اس کا مطلب غالباً تم سمجھ ہی گئے ہوگے۔
تمہارے ساتھیوں میں تمہارا کیا مقام ہے؟
اوہ شکریہ جناب!
بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top