گزرا تری گلی سے تو بیمار کی طرح
پلٹا تری گلی سے تو گل زار کی طرح
لوٹا نہ جو کبھی میں ترے آشیانے پر
تیری صدا لگی مجھے آزار کی طرح
دل میں مرے بسا ہے جو وہ ایک گل بدن
ہم پہ سدا گرا ہے وہ کہسار کی طرح
میں بھولتا نہیں ترے افکار کو کبھی
صاحب ترے خیال بهی رخسار کی طرح
میرے تو جو دماغ پہ چهایا ہے اے...